ایک تہذیبی انقلاب
سیاسی اختلاف کی وجہ سے لوگوں کو انسانیت کے پست ترین درجات پر دھکیل دینے کی روش پر قابو پا لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں
بات تو سیلاب کی تھی لیکن میری نگاہ ایک مصرعہ تر پر گئی۔ جمشید بھائی نے جواب میں پوری غزل پیش کر دی۔ یہ جملہ غلط فہمی پیدا کرسکتا ہے کہ جمشید صاحب شاعر ہیں۔
میرے پیارے بھائی ڈاکٹر طارق کلیم کو اس کا اگر شبہ بھی ہو گیا تو پھر خیر نہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ کھل کر بات کی جائے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اللہ نے پاکستان کو بہت سی نعمتوں سے نوازا۔ ان میں ایک طلبہ یونین بھی تھی جس نے ملک کو بڑے قابل قدر لوگ دیے۔ یہ ایسے لوگ تھے جنھوں نے اس ملک میں جمہوری تحریکیں چلائیں اور نظریاتی سیاست کی بنیاد رکھی۔ جمشید علی خان اسی سنہرے دور کی ایک خوبصورت نشانی ہیں۔
اصل میں ہوا یہ کہ سوشل میڈیا پر میں نے کچھ تصویریں دیکھ لیں۔ تصویریں بڑی حیران کن تھیں۔ گزشتہ دو تین دہائیوں میںہمارے یہاں بہت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان میں ایک شہروں کی کایا کلپ بھی ہے مثلاً لاہور کا سیاسی اور تہذیبی مرکز شاہراہ قائداعظم تھی۔ مسجد شہدا تا فیصل چوک سیاسی مظاہرے ہوا کرتے اور ادبی اور تہذیبی سرگرمیاں یہاں سے کچھ فاصلے پر نئی اور پرانی انار کلی کے پاس رنگ جماتیں جیسے پاک ٹی ہاؤس اور چائنیز لنچ ہوم وغیرہ مگر اب شہر کا مرکز ہی بدل چکا ہے۔ ایم ایم عالم روڈ اور گلبرگ چوک وغیرہ نئے مراکز کے طور پر ابھرے ہیں۔ نئی شناخت بنانیوالے اسی نئے مرکز پر رونما ہونے والا واقعہ ہے جس نے مجھے متوجہ کیا۔ یہ بات البتہ درست ہے کہ اس کا تعلق سیاست سے نہیں خدمت سے ہے ۔
الخدمت کے بارے میں اب تک تو لوگ یہی جانتے تھے کہ یہ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم ہے اور جماعت اسلامی کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ لوگ اسے ووٹ دیں نہ دیں، قربانی کی کھالیں ضرور دیتے ہیں کیوں کہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لیے عطیات دیے جائیں گے، اسی مصرف پرخرچ ہوں گے۔ ممکن ہے کہ کچھ قانونی یا تنظیمی پیچیدگیاں رہی ہوں کہ جماعت نے خدمت خلق کا یہ شعبہ علیحدہ کر کے اسے الخدمت کا نام دیا۔ نعمت اللہ خان مرحوم کے دور میں الخدمت کی نیک نامی دور دور تک پہنچی لیکن اس کے موجودہ سربراہ نرم گفتار ، نرم مزاج عبد الشکور کے دور میں تو اس میں مزید وسعت آئی ہے کہ اب جماعت کے نظریاتی مخالفین بھی اس کی تعریف کر نے لگے ہیں۔
فرخ سہیل گویندی بائیں بازو کے وہ ممتاز دانشور ہیں جنھوں نے حال ہی میں قوم سے اپیل کی ہے کہ اگر سیلاب زدگان کی صحیح معنوں میں امداد اور بحالی کی خواہش ہے تو وہ اس سلسلے میں الخدمت پر اعتماد کرے۔ اصل بات یہ ہے کہ برسر زمین جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ خود بولتا ہے۔
اب یہ فرخ سہیل گویندی جیسے دوستوں کی اپیل کا اثر بھی ہوگا اور ذرایع ابلاغ کے توسط سے لوگوں تک پہنچنے والی کارکردگی کا کرشمہ بھی ہوگا کہ گلبرگ چوک پر قائم الخدمت کا مرکز اب جماعت کا کوئی روایتی ٹھیا نہیں رہا، قوم کے مختلف طبقات کی نمایندہ علامت بن کر ابھرا ہے۔ یہاں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی جن تصویروں کا ذکر ہوا ہے ان کا تعلق اسی حیران کن واقعے سے ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ جماعت کے بزرگ جھولی پھیلاتے یا گھر گھر جا کر لوگوں کو اہل وطن پر آپڑنے والی کسی ابتلا کے بارے میں بتاتے تو لوگ حیثیت کے مطابق اپنی جیبیں خالی کرتے، خواتین کپڑے لتے سے یا زیور سے مدد کو آتیں اور بچے اپنا جیب خرچ نذرانہ کردیتے۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ لوگ خود امدادی سامان اور عطیات لے کر الخدمت کے مراکز پر پہنچتے ہیں۔ ان حیران کن تصاویر کے مطابق ٹرانس جینڈر افراد کا ایک وفد امدادی سامان لے کر یہاں پہنچا۔ کوئی اور زمانہ ہوتا تو ٹرانس جینڈر الخدمت والوں سے گریز کرتے اور الخدمت والے انھیں اپنے قریب نہ پھٹکنے دیتے لیکن یہ تصویر تازہ ہوا کے اس جھونکے کی طرح لگی۔
جماعت اسلامی کے ایک امدادی مرکز پر ٹرانس جینڈر لوگوں کی آمد تو عجوبہ تھا ہی ایک اور عجوبہ مرد و زن کی تفریق کے بغیر ان نوجوانوں کا ہے جو اپنے تعلیمی اداروں سے نکل کر الخدمت کی فنڈ ریزنگ میں حصہ لیتے ہیں۔ جمعیت کے کارکن ہوں یا جمعیت طالبات کی بچیاں، یہ لوگ اپنے لباس اور وضع قطع سے دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ یہ جو جماعت اور جمعیت والے اپنے عہد سے کہیں پیچھے دکھائی دیتے ہیں توکہیں اس کی وجہ یہی نہ ہو کہ وہ بدلی ہوئی دنیا اور بدلے ہوئے پاکستان کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں اور وہ اپنی پرانی وضع قطع اور پرانی دنیا میں پناہ لینے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔
ان تصویروں نے بتایا کہ دوسروں کا معاملہ جو بھی ہو، الخدمت اپنے عہد میں سانس لیتی ہے۔ یہی مناظر تھے جنھیں دیکھ کر مجھے استنبول کی یاد آئی۔ صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کی دوسری سال گرہ کے مناظر میں نے اسی شہر عجائب میں دیکھے۔ صدر صاحب کے جلسے میں شرکت کی نیت سے برادر محترم ڈاکٹر خلیل طوقاراور میں چارشی کے علاقے سے نکلے۔ عوام کے بے پناہ ہجوم کے باعث ہم جلسہ گاہ میں تو داخل نہ ہوسکے لیکن اس سفر میں جو مناظر دیکھنے کو ملے، وہ حیران کن تھے۔
صدر ایردوآن کی اے کے پارٹی بھی ترک اسلامی تحریکوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان میں تو یہ تصور بھی ممکن نہیں کہ جلسے میں شرکت کے لیے گھر میں بنایا ہوا بینر لے کر دو خواتین اس عالم میں نکلیں کہ دادی منہ سر لپیٹے ہوئے ہو اور پوتی اسکرٹ میں دکھائی دے۔ اس روز ایسے مناظر مجھے جگہ جگہ دکھائی دیے۔ واقعہ بتانے کا مقصد یہ نہیں کہ یہاں بھی ایسے لباس کی حوصلہ افزائی کی جائے بلکہ یہ ہے کہ نظریاتی اور سیاسی قوتوں کو اپنے مزاج میں وسعت اور رویے میں برداشت پیدا کرنی چاہیے۔ یہ طرز عمل تحریکوں کو محدود کرنے کے بجائے وسعت عطا کرتا ہے۔
جماعت اسلامی کا اندازفکر ان موضوعات پر کیا ہے، اس سلسلے میں دستیاب معلومات زیادہ حوصلہ افزا نہیں لیکن الخدمت نے تو کمال کر دیا ہے۔اسی موضوع پر جمشید علی خان کی گفتگو میں حیران کن انکشافات ہوئے۔مثلاًیہ انکشاف حیرت انگیزہے کہ الخدمت تعلیمی اداروں کے نوجوانوں کو ان کی فکر اور سیاسی پسند و ناپسند سے بلند ہو کر صرف اور صرف خدمت کے لیے مدعو کرتی ہے اور وہ کھچے چلے آتے ہیں۔ الخدمت کے انداز فکر میں یہ وسعت صرف نوجوانوں اور طالب علموں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس نے اقلیتی برادریوں تک بھی اپنا دائرہ وسیع کیا ہے اور ان کی خدمت کا نظام بھی قائم کیا ہے۔
الخدمت کے انداز فکر میں دکھائی دینے والی یہ تبدیلی معمولی نہیں، ایک نئے تہذیبی ارتقا کی نوید ہے جس میں لوگ اختلاف سے اوپر اٹھ کر کسی بڑے مقصد کے لیے ایک پلیٹ فارم پر کام کرنے کی اہلیت حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ تہذیبی ارتقا کتنا طاقت ور ہوگا، اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وسعت قلبی کی ابھی ابتدا ہی ہوئی ہے لیکن الخدمت پر اعتماد کا یہ عالم ہے کہ ایسے طبقات بھی اس کا ہاتھ بٹانے کے لیے نکل آئے ہیں، ماضی میں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ فکری کشادگی کی وجہ سے الخدمت کی اپیل میں کتنا اضافہ ہوا ہے اس کا اندازہ ایک حالیہ سروے میں ہوتا ہے۔
ایک تھنک ٹینک 'دی ایسٹ'نے حال ہی میں ملک گیر سروے کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی کہ قدرتی آفات کے موقع پر عطیات دینے کے لیے لوگ سرکاری اداروں کو ترجیح دیتے ہیں یا غیر سرکاری؟ اسی سروے کے ذریعے ضمنی طور یہ معلوم ہوا کہ حالیہ سیلاب کے دوران غیر سرکاری اداروں پر اعتماد کرنے والوں میں سے 80.5فیصد کا انتخاب الخدمت تھی۔ اس کے مقابلے میں دیگر تمام این جی اوز پر اعتماد کرنے والے انیس فیصد سے کچھ زاید ہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ الخدمت پر اعتماد کرنے والے تمام لوگوں کا تعلق جماعت اسلامی سے نہیں ہو گا۔ سیاسی اختلاف کی وجہ سے لوگوں کو انسانیت کے پست ترین درجات پر دھکیل دینے کی روش پر قابو پا لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ایک نئے اور خوش گوار تہذیبی انقلاب میں کھل کر سانس نہ لے سکے۔