میرا مسئلہ سیلاب نہیں سیاست ہے
کسی کی موت ہوجائے یاکسی پرکوئی آفت ٹوٹ پڑے وہ کبھی بھی وقت پرمصیبت زدہ غمگساروں وسوگواروں سے تعزیت کیلیے نہیں پہنچتا
ملک سارا اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں سے نبردآزما ہے اور تین کروڑسے زیادہ افراد بے یارومددگار کھلے آسمان کے تلے اپنی زندگی گذار رہے ہیں اور صرف ایک شخص ایسا ہے جسے اپنی سیاست کی پڑی ہوئی ہے۔قوم ساری بھاڑ میں جائے میرامسئلہ حل ہوناچاہیے۔وہ ہر روز ایک نیاجلسہ کرکے عوام کو اپنے حق میں متحرک اورمتحد رکھناچاہتاہے۔
ایک دوروز کے لیے تھوڑا ساوقت نکال کروہ مصیبت زدہ لوگوں کودیکھنے کے لیے ایک دو مقام پر گیا بھی لیکن بہت کم وقت کے لیے۔اُس کا مزاج اور طبیعت ہی کچھ اس قسم کی ہے کہ ایسے معاملات سے ہمیشہ خود کودور رکھتا ہے۔
کسی کی موت ہوجائے یاکسی پر کوئی آفت ٹوٹ پڑے وہ کبھی بھی وقت پرمصیبت زدہ غمگساروں اورسوگواروں سے تعزیت کے لیے نہیں پہنچتا۔ہاں البتہ کچھ دنوں بعد وہ ضرور لفظی تعزیت کے لیے پہنچ جاتاہے لیکن وقت پر پہنچنا اُسکی صفت میں شامل نہیں ہے چاہے متاثرہ شخص اُس کی اپنی سیاسی پارٹی کاجنرل سیکریٹری ہی کیوں نہ ہو۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ پی ٹی آئی کے سابق جنرل سیکریٹری نعیم الحق کا جب انتقال ہوگیا تو اُن کے جنازے میں خان صاحب نہیں پہنچے ،وہ جب شدید بیمار بھی تھے تو صرف ایک دن کے لیے بھی وہ اُن کی تیمارداری کے لیے نہیں گئے۔
اِسی طرح جب اُن کے دور میں کوئٹہ شہر میں ہزارہ کمیونٹی کے کئی افراد دہشت گردی کاشکار کرکے شہید کر دیے گئے اوراُن کے پسماندگان افراد نے اُن کی میتیں دفنانے سے انکار کردیاتھاکہ جب تک وزیراعظم خود اظہار ہمدردی کے لیے تشریف نہیں لاتے وہ یہ جنازے نہیں دفنائیں گے۔لیکن خان صاحب اس وقت بھی یہ کہہ کر ڈٹے رہے کہ میں یوں بلیک میل نہیں ہونگا۔ پہلے جنازے دفناؤ پھر تشریف لاؤں گا۔
2014 میںجب اُن کادھرناآخری ہچکیاں لے رہاتھا اوروہ اُسے ختم کرنے کوکوئی معقول بہانہ تلاش کررہے تھے کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول کااندوہناک سانحہ رونما ہوجاتاہے اورساری قوم ایک صدمے سے دوچار ہوجاتی ہے ۔ ایسے میں خان صاحب کے لیے اپنے اس دھرنے کوجاری رکھنا تقریباً ناممکن ہوچکاتھااوربالآخر وہ اس واقعہ کوجواز بناکر دھرنے سے بنی گالالوٹ آئے۔لیکن ایسے وقت میں بھی انھیں فوری طور پر اس واقعہ میںشہید ہونے والے بچوں کے والدین سے تعزیت کرنے کی توفیق نہیں ہوئی اور وہ کئی دنوں بعد جب وہاں پہنچتے ہیں تو پھر لواحقین کاردعمل ایک فطری عمل تھا۔
آج بھی خان صاحب یہی کچھ کررہے ہیں۔ سیلاب زدگان کی مدد توکجا اُن سے اظہارہمدردی کے بجائے وہ اپنی سیاسی دکان چمکا رہے ہیں ۔ ہرجلسے سے پہلے یہ کہاجاتا ہے کہ خان صاحب اس جلسے میں کوئی اہم اعلان کرنے والے ہیں۔ اس طرح کہہ کر عوام کو بھاری تعداد میں جمع ہونے کے لیے راغب تو کرلیاجاتاہے لیکن جلسہ کے اختتام تک کوئی اہم اعلان سنائی نہیں دیتااوراگلے لائحہ عمل دینے کاوعدہ کرکے خان صاحب پھر وہاں سے لوٹ آتے ہیں۔ گجرانوالاکے آخری جلسے میں بھی یہی کہاگیاتھاکہ کوئی تاریخی اعلان ہونے والاہے لیکن سوائے مخالفوں پرالزام تراشیوں کے کوئی اور نئی چیز سنائی نہیں دی ۔
ایک ہی قسم کے الزامات سنتے سنتے اب ہمارے عوام کے کان بھی پک چکے ہیں۔جس دن سے خان صاحب اقتدار سے محروم ہوئے ہیں وہ ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ روزانہ کی بنیاد پروہ سڑکوں پرعوام کو اپنے حق میں پرجوش اورمتحرک رکھنے میں مصروف ہیں۔
جیسے جیسے دن گذرتے جارہے ان کی بے چینی بھی بڑھتی جارہی ہے۔انھیں ڈر اورخوف لاحق ہوتاجارہاہے کہ کہیں عوام اُن کی یہ باتیں سنتے سنتے بیزار نہ ہوجائیں اورجلسوں کایہ سحراورطلسم برقرار نہ رہ پائے۔25 مئی کو جس لانگ مارچ اورڈی چوک کے دھرنے کاپروگرام انھوں نے ترتیب دیاتھاوہ حکومتی حکمت علمی کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکا اور پھر چھ روز کے الٹی میٹم کے بعد بھی کوئی لائحہ عمل ہنوز سامنے نہ آسکا۔2022 میں نئے انتخابات کااب کوئی امکان باقی نہیں رہا۔شاید اسی وجہ سے وہ اور بھی بے چین اورمضطرب ہوتے جارہے ہیں اورغلطیوں پرغلطیاں کیے جا رہے ہیں۔ محاذآرائی میں اپنی توانائی بھی ضایع کررہے ہیںاورساتھ ہی ساتھ مملکت کے ہر ادارے سے دشمنی بھی مولتے جا رہے ہیں۔
وہ الیکشن کمشنر کو صبح وشام اپنی سخت تنقید کا نشانہ بھی بنارہے ہیںاوراُن کے زیراثر ہرالیکشن میں بھی حصہ لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف وہ قومی اسمبلی سے استعفیٰ بھی دیکر بیٹھے ہیں تو دوسری طرف ضمنی الیکشن میں بھی حصہ لیناچاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے اُن کامقصد پارلیمنٹ کاحصہ بننا نہیں ہے بلکہ صرف ہنگامہ آرائی کرنارہ گیا ہے۔ وہ ضمنی الیکشن میں حصہ لے کر اورجیت کراپنی مقبولیت کو نہ صرف قائم رکھناچاہتے ہیں بلکہ اس طرح دیگر اداروں کو بھی اپنے دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں۔جس الیکشن کمیشن پرانھیں اعتبار اور اعتماد بھی نہیںہے لیکن اس کے زیراثر انتخابات میں بھی بھر پور حصہ لیناچاہتے ہیں۔
وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس الیکشن کمیشن نے صاف ستھرے انتخابات کرواکے اپنی ساکھ بہت بہتر بنادی ہے اوراب اس پردھاندلی کاالزام لگانا ممکن نہیں رہا۔ لہٰذا وہ اب صرف الزام لگاکراُسے بدنام کرناچاہتے ہیں۔ اس کی وجہ غیر شفاف الیکشن نہیں بلکہ ممنوعہ فنڈنگ کا وہ فیصلہ ہے جس میں وہ بری ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔
جیسے جیسے وقت گذرتاجارہاہے اُن کی مقبولیت بھی داؤ پرلگی ہوئی ہے۔ہوسکتاہے اگلے برس جب ملک میں نئے انتخابات ہورہے ہوں تو خان صاحب کی مقبولیت کاگراف ایک بار پھر اس درجے پرپہنچ جائے جہا ں وہ اُن کی معزولی سے پہلے تھا۔ایسے میںاگر میاں نواز شریف بھی لندن سے واپس لوٹ آتے ہیں توحالات کس نہج پرہونگے کسی کوپتا نہیں ہے۔آج وہ اکیلے ہی میدان میں گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔کوئی مدمقابل نہیں ہے۔ لیول فیلڈکا میدان جب سجے گاتوکسی کوبھی پتا نہیں کہ کیاصورتحال ہوگی۔
مائنس نوازاورمائنس مریم نواز کرکے 2018 میں بمشکل کامیابی حاصل کی گئی جب سارے ادارے مدد کوشامل تھے۔RTS اگر بند نہ کیاجاتاتو شاید یہ کامیابی بھی حاصل نہ ہوتی۔یہ سارے حقائق خان صاحب کے علم میں ہیں۔وہ کوئی اتنے معصوم اورسیدھے بھی نہیںہیں۔انھیں اچھی طرح پتاہے کہ پچھلے الیکشن میںاُن کی کامیابی کس کے مرہون منت تھی۔کراچی شہر سے 14 نشستیں لے جاناکوئی آسان کام نہیں تھا۔جس طرح کئی حلقوں میں نتائج تبدیل کرکے مطلوبہ تعداد بنائی گئی وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے،لیکن اب انھیں یہ تمام سہولتیں میسر نہیں ہونگی، یہی وجہ ہے اُن کے اس اضطراب اوربے چینی کی۔