پاکستان گلوبل وارمنگ کی تباہ کاریوں کا شکار
پاکستان دوسرے ممالک کے اقدامات کی قیمت چکا رہا ہے
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اونتونیوگوتریس وطن عزیز میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کے دورے پر آئے، انھیں وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے مختلف سیلابی علاقوں کا دورہ کروایا۔ اس موقعے پر ان کے ہمراہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسد محمود بھی تھے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنی آنکھوں سے تباہ شدہ پاکستان اور کروڑوں متاثرین سیلاب کی آہ و زاریوں اور سسکیوں کو دیکھا اور سنا۔ بلاشبہ حالیہ سیلاب ایک انسانی المیہ ہے۔
متاثرہ لوگوں کی بحالی ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جس کا مقابلہ پاکستان تنہا نہیں کرسکتا، بلکہ اس کار خیر میں بین الاقوامی برادری کو ہماری معاونت کے لیے آگے آنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کو پاکستان کی سیاسی قیادت نے واضح کیا کہ سیلابی تباہی، تصور سے زیادہ ہے اور اس تباہی کا بڑا سبب گلوبل وارمنگ ہے، یقیناً گلوبل وارمنگ کا ذمے دار پاکستان ہرگز نہیں۔ مگر دوسروں کی غلطی کی سزا پاکستان بھگت رہا ہے۔
پاکستان دوسرے ممالک کے اقدامات کی قیمت چکا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے باعث انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، پاکستان کو فوری طور پر بڑی مالی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ اقوام عالم اور عالمی اداروں کو مشکل کی اس گھڑی میں فراخدلی سے پاکستان کی مدد کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیلاب سے جو تباہی دیکھی ہے دنیا میں کسی بھی آفت کے دوران اتنی تباہی نہیں دیکھی، اس صورتحال کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، سیلاب سے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، فصلیں تباہ ہوئیں اور جانور بہہ گئے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں لوگ اپنا گھر بار اور ذریعہ معاش سمیت سب کچھ کھو چکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی آج کا بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کو سنجیدگی سے اس بات کو سوچنا ہو گا کہ آفت کی صورت میں ترقی پذیر ممالک کی مدد کس طرح کی جائے، انھیں پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کو مشکل مالی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مدد کا نیا طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات سچ ہے کہ گلوبل وارمنگ بالعموم دنیا اور بالخصوص ترقی پذیر ممالک کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے، جو ممالک پہلے ہی بدترین معاشی مسائل کا شکار ہوں، ان کی معیشت پہلے ہی عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی پڑی ہو، وہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے قدرتی آفات آرہی ہیں جس سے ان کی بقا کے لیے خطرات پیدا ہورہے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس وقت ہم ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر سوا ارب ڈالر قرض کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے عین اس وقت سیلاب نے پورے ملک میں تباہی مچا کے رکھ دی، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سیلاب میں دس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز سے پہلے ہی ماحول میں موجود گرین ہاؤس گیسوں کی سطح میں ریکارڈ اضافہ ہوچکا تھا، جو ہر سال بتدریج بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کی سطح میں اضافہ ہی گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ کاربن کے پھیلاؤ میں جی 20 ممالک کا حصہ 80 فیصد ہے، اس لیے یہ بات نہایت وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کا سبب ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک ہیں جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک گرین ہاؤس گیسوں میں اضافے کے ذمے دار ہر گز نہیں البتہ وکٹم ضرور ہیں۔
گلوبل وارمنگ آفات کا ایک سلسلہ ہے جو زمین پر درجہ حرارت میں قابل قدر اضافے کی وجہ سے جنگل میں آگ کا لگنا، صحرا کا تپنا، گلیشیروں کا پگھلنا، پانی کی مقدار میں اضافہ، ضرورت سے زیادہ بارشیں اور مسلسل سیلاب کی تشکیل اور ضرورت سے زیادہ کٹاؤ کا سبب بنتا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہونے والی قدرتی آفات آب و ہوا کے نظام میں تبدیلی کا سبب بنی ہیں۔
پاکستان میں ہر چند سال بعد غیر معمولی بارشوں کا نزول اور سیلابی ریلے گلوبل وارمنگ کا ہی نتیجہ ہیں۔ گلوبل وارمنگ نے انسانی صحت کے لیے بڑے پیمانے پر ماحولیاتی خطرات پیدا کیے ہیں۔ جیسا کہ سیلاب کے علاوہ، انتہائی موسمی حالات، اوزون کی کمی، آگ کا خطرہ بڑھنا، حیاتیاتی تنوع کا نقصان، خوراک کی پیداوار کے نظام پر دباؤ اور متعدی بیماریوں کا عالمی پھیلاؤ۔ پاکستان جو پہلے ہی وسائل سے محروم ملک ہے، اس عمل سے گزر رہا ہے اور بار بار گزر رہا ہے۔
گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں بدترین سیلاب اور خشک سالی ملک کو تباہ کر رہی ہے۔ حالیہ سیلاب سے تقریباً تین کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ زرعی زمین بنجر ہے اور حتمی مالی نقصان کا تخمینہ لامحالہ دس ارب ڈالر سے کہیں تجاوز کرجائے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل عالمی سطح پر گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والے عوامل کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔
ہمیں بھی اپنا گھر ٹھیک کرناہوگا۔ سب سے پہلے ہمیں ہر قسم کے جنگلات کی کٹائی کو روکنا ہوگا۔ درختوںکو نہ کاٹا جائے، کیونکہ درخت اور جنگلات کے کاٹنے سے ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔ لوگوں کو فطرت میں عمدہ توازن پیدا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ترغیب دی جائے۔
سرکاری سطح پر حقیقی طور پر بلین ٹری لگانے کا منصوبہ شروع کیا جائے، لیکن یہ منصوبہ پی ٹی آئی سرکار کی طرح مشکوک نہیں ہونا چاہیے۔ توانائی کے ایسے ذرائع استعمال کیے جائیں جو فضا کو کم سے کم آلودہ کریں۔ ماحول کی صفائی ستھرائی پر توجہ دینے کے لیے عوامی سطح پر آگاہی مہم شروع کی جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ ایک درخت اپنی زندگی بھر میں ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرے گا۔ اگر آپ اپنے کچرے کو 10 فیصد کم کرتے ہیں تو آپ 1200 پاؤنڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ بچا سکتے ہیں۔ نئے ڈیمز بنائے جائیں، پانی سے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگائے جائیں۔
ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے آگے آنا چاہیے، صنعتی ممالک کو بدترین کاربن کے اخراج میں کمی کرنی چاہیے۔ آج پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے تو کل کوئی اور ملک ہو گا، اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں بہت زیادہ خطرہ ہو گا۔ مشکل کی اس گھڑی میں اقوام عالم اور عالمی اداروں کو پاکستان کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ پاکستان کو لاکھوں افراد کی بحالی کے لیے فوری طور پر بڑی مالی امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔ پاکستان ایک آفت زدہ ملک ہے، اس کے قرضے معاف کردیے جائیں تاکہ دستیاب وسائل کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جاسکے۔
آخر میں تمام سیاسی جماعتوں اور خاص قوم کی خدمت کے اور اصل حکمرانی کے دعویداروں کی خدمت میں بھی عرض کرنا چاہوں گا۔ دیکھیں! اس بات سے کوئی انکار نہیں کررہا کہ حالیہ سیلاب نے ملک کے ایک بیشتر حصے کو ڈبو دیا ہے، جو جانی نقصان ہوا اس کی تلافی تو ممکن نہیں، البتہ جو مالی نقصان ہوا، کسی کا گھر بار بہہ گیا، مال مویشی اور فصلیں ڈوب گئیں۔
اس کی تلافی کے لیے ہم اپنا اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ سیلا ب کے متاثرین کی بحالی دنوں یا مہینوں کا کام نہیں بلکہ برسوں لگ جائیں گے۔ متاثرین کی مدد اور بحالی کے لیے سب سے زیادہ کام اس ملک کے دینی طبقے بالخصوص مدارس و مساجد اور مذہبی جماعتیں کررہی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو جس جوش و خروش سے امداد و بحالی کے کاموں میں حصہ لینا چاہیے تھا ایسا نہیں ہوا۔ بڑی سیاسی جماعتیں ابھی تک اپنی سیاست سے باہر نہیں آئیں حالانکہ یہ وقت سیاست کرنے، جلسے جلوس نکالنے کا ہرگز نہیں، یہ وقت سیلاب میں ڈوبے اپنے ہم وطنوں کو بچانے کا ہے۔ مت بھولیں کہ اس تباہی کا سبب جہاں گلوبل وارمنگ ہے وہاں ہماری حکومتوں کی نا اہلیاں بھی ہیں اور اس جرم میں سب کی سب سیاسی جماعتیں جو اقتدار کے جھولے جھولتی رہیں برابر کی شریک ہیں۔
اس وقت بھی وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دھن میں گم ہیں۔ خدارا! ہوش کے ناخن لیجیے، آپ بیرونی دنیا کی طرف مت دیکھیں، خود آگے بڑھیں، اپنے چاہنے والوں کو ترغیب دیں کہ وہ متاثرین کی بڑھ چڑھ کر مدد کریں۔ آپ خود ان تجوریوں کے منہ کھول دیں جنھیں اس ملک سے ہر جائز و ناجائز طریقے سے حاصل کی ہوئی دولت سے بھر رکھا ہے۔ یہ تجوریاں تو پھر بھر جائیں گی لیکن خدمت خلق کے ذریعے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ایسا نادر موقع پھر نہیں ملے گا۔ اللہ کریم سیلاب زدگان کی مدد فرمائے اور ہمیں ان کے اس دکھ درد میں ممد و معاون بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)