ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
اس معصوم سے پاکستان میں نہ جانے کن کن ممالک کے بستے لوگ کیا سوچتے ہیں
افتخار عارف نے خوب کہا ہے:
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب فسانہ ہے
وقت کیا خوب کھیل دکھاتا ہے۔ چاہے وہ کرکٹ کا ہی کھیل ہوکہ جس میں شایقین اس قدر پرجوش ہوجائیں کہ ساری تمیز، اخلاق اور روایات کو بالائے طاق رکھ کر صرف خواہشات کے غلام بن جائیں، جیت کے غلام۔اگر ہار نصیب میں لکھی ہے تو ہارنا ہوگا اور اگر جیت گئے تو شکر ادا کیجیے، اس رب کا کہ انھوں نے کسی مقام تو پہنچایا، لیکن اکڑ، غصہ، غرور اور حسد صرف نفرتوں کا کانٹے دار راستہ بنتی ہے جس پر چل کر تباہی، بربادی اور اذیتیں ہی استقبال کرتی ہیں۔
تصویر کا رخ ذرا 80 کی دہائی کی جانب کیجیے جب افغانستان پر روس پل پڑا تھا، افغانستان لہولہان تھا، 70 کی دہائی کے آخر میں جو لہو کہانی شروع ہوئی تھی اس سے کون ناواقف ہے؟ یہی وقت تھا جب پاکستان نے برادر اسلامی ملک افغانستان کا ہاتھ تھاما، غریب عوام تو ہمیشہ پستی آئی ہے لیکن وہاں تو اشرافیہ بھی زیر عتاب آچکے تھے۔
پاکستان میں اس وقت تک ڈھیروں ٹی وی چینلز نہ تھے، لے دے کے ایک پی ٹی وی ہی تھا جس نے اپنے افغانی بھائیوں کے درد کو محسوس کیا اور ''پناہ'' کے نام سے معرکۃالآرا ڈرامے بنائے۔ جس نے پاکستانیوں کے دل میں اپنے افغان بھائیوں کے لیے ایسی محبت اور نرمی پیدا ہوئی جو بیان سے باہر ہے۔
لٹے پٹے، درد بھری داستانیں سمیٹے افغان بھائیوں کے لیے پاکستانی سرحد کے دروازے کھلے تھے۔ محبت کی یہ داستان جاری رہ۔ افغان مہاجرین آتے رہے اور خیبرپختونخوا بھرتا گیا، جو اس وقت صوبہ سرحد کہلایا جاتا تھا۔ در کھلے رہے افغان مہاجرین آتے گئے۔ دس لاکھ مہاجرین نے پاکستان میں پناہ حاصل کی۔ یہاں تک کہ سابق صدر اشرف غنی بھی پاکستان کے اندر پناہ گزیں افراد میں سے تھے۔
''ہمیں اپنے مسلمان افغان بھائیوں کا ساتھ دینا ہے'' صدا ابھری اور پاکستان ایک چھوٹا سا ملک امریکا اور روس جیسے دو بڑے ہاتھیوں کی جنگ میں کود گیا۔ ہم نے تو منع کیا تھا۔ یہ خطرناک سرد جنگ تھی۔ اس جنگ سے پاکستان کو سوائے نقصان کے کیا حاصل ہوا؟
یہ سوالات بارہا اٹھتے رہے ہیں، بڑے بڑے نیوز چینلز، نیوز اینکرز، کالم نویس بار بار پوچھتے رہے لیکن جواب دینے والے اس دنیا میں نہ رہے تھے۔ دراصل یہ کسی انسانی طاقت کی کوئی کارروائی نہ تھی صرف ایک انسانی ہمدردی اور مسلم امت کا ساتھ نبھانے کا حق تھا جو پوری سچائی اور خلوص سے نبھایا گیا تھا۔
اس سلسلے میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ ہم ایک کتاب کے ماننے والے ہیں۔ ایک ہی مالک کی بندگی کرتے ہیں اور ایک ہی کلمہ حق پڑھنے والے ہیں۔ وہ روئے تو ہم بھی روئے، انھیں مارا گیا تو چیخیں ہماری بھی بلند ہوئیں، ٹی وی ڈرامے کی عکس بندی پر ہی دل دہل گئے تو پھر حقیقت کا رنگ کس قدر بھیانک ہوگا۔
ایک طویل عرصہ جنگ چلتی رہی، آگ اور خون کی اس جنگ میں افغانستان کے لاکھوں عوام لقمہ اجل ہوگئے، لیکن یہ شعلے پھر بھی نہ بجھے۔ یہاں تک کہ روس اپنی طاقت کھونے لگا اور اس کے بھی حصے بخرے ہوگئے۔
ظلم کی بھی ایک آخیر ہوتی ہے۔ 90 کا عشرہ شروع ہوا، روسی میدان تو چھوڑ رہے تھے لیکن پشاور کے محلوں میں افغانستان سے اٹھتی ہولناک جنگ کی آوازیں ہر رات سنائی دیتیں کہ لوگ اس کے عادی ہو چلے تھے۔وقت کا پہیہ چلتا رہا، پاکستان کے بڑے شہروں میں آبادی بڑھتی گئی ایسے میں افغانستان کے حالات بہتر ہوئے تو حکومت افغانستان نے اپنے لوگوں کو بلانے کا عندیہ دیا۔
حکومت پاکستان افغانی عوام کی منتقلی پر سکون ماحول میں کرنا چاہتی تھی کہ ہم اچھے میزبان ثابت ہوئے تھے۔ پشاور خالی ہو گیا تھا، لیکن پھر بھی پاکستان کے دوسرے شہروں میں اب بھی افغانی مہاجرین آباد تھے۔یہ سچ ہے کہ پہلے روسیوں نے اور پھر امریکیوں نے افغانستان کو بار بار بھنبھوڑا، اگر دیکھا جائے تو نقصان امریکیوں کا ہوا، تو فائدے میں افغانی بھی نہ رہے۔
قیام پاکستان کے وہ مناظر اب بھی ہمارے دلوں کو دہلاتے ہیں، جب کہ افغانی قوم نے ایسے سانحات بار بار جھیلے ہیں، یقینا وہ ایک مظلوم قوم ہے۔پاکستان ایک ایسا معصوم ملک ہے جہاں غیر قانونی طور پر ڈھیروں ممالک کے لوگ آباد ہیں، جن میں بنگلہ دیش سے لے کر انڈیا اور برما سے لے کر افغانستان تک شامل ہیں اور یہ سب خوب کھا کما رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ جہاں رب العزت نے جس کا رزق لکھا ہے وہاں سے اسے مل کے رہے گا۔
قدرت کے کاموں میں بھلا کون دخل دینے کی جرأت کر سکتا ہے، لیکن جہاں بات آتی ہے ذمے داریوں کی، وہاں ہمارے بہت سے اداروں سے چوک ہو جاتی ہے۔ غلطی اور نیکی میں بہت فرق ہے، اسی طرح ذمے داریوں اور نااہلی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم کسی پر ترس کھا کر نیکی کرکے اپنے ملک و قوم کے لیے وبال نہیں خرید سکتے، جب کہ اس کے درمیان کرپشن کا اژدھا بھی سرسرا رہا ہو۔
ہم نے ایسی بہت سی نااہلیوں اور غلطیوں کو کرپشن کے رنگ کے ساتھ بارہا نظرانداز کیا ہے اور اس کا نقصان بھی ہماری قوم کو ہی اٹھانا پڑ رہا ہے۔نسیم شاہ نے جس خوب صورتی سے دو متواتر چھکے مار کر افغانستان کے خلاف کرکٹ کا میچ جیتنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور پھر ان کے والد محترم کی وہ وائرل وڈیو جس میں وہ بے اختیار ہو کر خوشی سے منہ میٹھا کرواتے اور اپنے سپوت اور قوم کو سلیوٹ کرتے نظر آئے، سادہ سے انداز میں بہت سے محب وطنوں کے دل جیت لیے۔ نسیم شاہ ایک غیور قوم کا بیٹا، اپنے ملک کے لیے جس محبت اور خلوص و جذبے سے کھیلا، سلام ہے اس نوجوان کو۔ اس میچ کے اختتام پر جو کچھ دیکھا گیا وہ ایک سوال لے کر ابھرا۔ آخر کیوں۔۔۔کیوں اور کیوں؟
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
یہ جذبے کدھر گئے۔۔۔۔نفرت، حسد اور اس قدر کا زہر کیسے پیدا ہوا؟ اب تو انڈیا والے بھی پاکستان سے ہارنے کے بعد ''کھیل ہے، کھیل ہے'' کے نعرے لگاتے نظر آئے، پھر کیسے کہہ دیا گیا تھا کہ آج ضرور کچھ ہوگا؟ اس معصوم سے پاکستان میں نہ جانے کن کن ممالک کے بستے لوگ کیا سوچتے ہیں۔
کیا کرتے ہیں اور اس مملکت خداداد کے لیے کیسے سوچتے ہیں لیکن ہم کو اب یہ سوچنا ضروری ہے کہ اپنے اثاثہ امید کو ایک ہی کتاب کی روشنی میں بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے۔ وہ کتاب جسے رب العزت نے ہمارے لیے ہدایت کا سرچشمہ بنا کر ہمارے لیے اتارا ہے۔ یاد رکھیے باقی سب فسانہ ہے اور سچ جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ رب العزت ہم سب کو نیک ہدایت دے۔( آمین)