امن کے دشمن
اس بات کی حقیقت جان لینے کے بعد کہ ملک کا امن برباد کرنے میں اسلحے کا مرکزی کردار ہے،
بدامنی کو آج ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بتایا جاتا ہے۔ شہر شہر لوٹ مار، ڈاکا زنی، بھتا خوری، اسٹریٹ کرائم، قتل و قتال اور غارتگری کا راج ہے۔ شاید ہی ملک کے کچھ علاقے ان جرائم سے پاک ہوں، ورنہ اب تو یہ مسائل ملک کے پر امن و محفوظ ترین سمجھے جانے والے علاقوں میں بھی ڈیرے ڈال چکے ہیں۔ انھی مسائل کی وجہ سے لوگ امن و سکون کو ترس گئے ہیں۔ پہلے گھروں کو محفوظ تصور کیا جاتا تھا، لیکن اب تو گھر میں رہتے ہوئے بھی لوٹ مار کا انجانا سا خوف ستاتا رہتا ہے۔ کوئی باہر محفوظ ہے، نہ ہی گھر کے اندر۔ کوئی کتنا ہی بہادر و طاقتور ہو اور تعداد میں بھی زیادہ، لیکن کسی امن کے دشمن کے ہاتھ میں تھما ہوا ایک چھوٹا سا پستول اوسان خطا کرنے کے لیے کافی ہے، کیونکہ اب انسان کی طاقت کا انحصار بازو کی بجائے اسلحے پر ہے۔ دنیا میں جس کے پاس اسلحہ ہے وہی طاقتور ہے۔ اسی کا حکم چلتا ہے۔ اسی کی بات مانی جاتی ہے۔ سب پر اسی کا خوف سوار ہے۔ صرف ایک مسلح شخص سو غیر مسلح انسانوں پر بھی بھاری ہوتا ہے اور سو غیر مسلح انسان اپنے آپ کو اس مسلح شخص کے سامنے کمزور تصور کرتے ہوئے اس کی بات ماننے پر مجبور پاتے ہیں، لیکن اگر ملک کا امن برباد کرنے والے ان مسلح افراد سے ان کی یہ طاقت چھین لی جائے، ان کا اسلحہ ضبط کر لیا جائے، ان تک اسلحہ پہنچنے ہی نہ دیا جائے تو کوئی بھی ملک کا امن برباد نہیں کر سکتا۔
یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ اسلحہ امن کا دشمن ہے۔ ملک میں پائی جانے والی بدامنی کی سب سے بڑی وجہ اسلحے کا عام ہونا ہے۔ ملک میں کونسا ایسا جرم ہے جس میں اسلحہ استعمال نہیں ہوتا۔ اسلحے نے جرائم کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دی ہے، اسی اسلحے کی طاقت نے انسانیت کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے۔ انسان کو خون میں نہلا دیا ہے، انسان کا سکون غارت کر دیا ہے۔ ڈکیتی، لوٹ مار، باہمی رنجشوں، اپنے سیاسی، مذہبی، گروہی، لسانی و علاقائی نظریات کو زبردستی دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے اسلحے کے زور پر انسان ایسا شتر بے مہار بن جاتاہے کہ اپنے بے قابو جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے قتل کا بازار گرم کرنا اپنا حق سمجھتا ہے اور آہ و بکا، خون، ہچکیاں اور لاشیں سب کچھ اس کے لیے بے معنی ہو جاتی ہیں۔ اسلحہ بات کو خوش اسلوبی سے سلجھانے کی بجائے خون خرابے کو جنم دیتا ہے۔ جب انسان کے ہاتھ میں اسلحہ آ جائے تو اس کی طاقت کا گھمنڈ اسے ہر قانون کو اپنے پاؤں تلے روندنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی بدولت نہ صرف خاندانی، سیاسی، گروہی، لسانی اور مذہبی جھگڑوں میں اضافہ ہوا ہے، بلکہ انھی ہتھیاروں کی وجہ سے امن دشمنوں نے ملک بھر میں سیکیورٹی اداروں کو بھی دیوار سے لگا رکھا ہے اور ملک میں روز کسی نئے سانحے کا سبب بنتے ہیں، جس سے روز بروز ملک میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ملک میں امن کا قیام اسی صورت میں ممکن ہے کہ تمام جرائم کی جڑ اسلحے پر سخت ترین پابندی لگا کر پورے ملک کو اسلحے سے پاک کر دیا جائے، جب اسلحہ ہی نہیں ہو گا تو دہشت گردوں اور امن کے دشمنوں کی ساری طاقت بھی سلب ہو کر رہ جائے گی۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ''چور کو مت مارو...چور کی ماں کو مارو'' کیونکہ چور کو اسی ماں نے جنم دیا اور چور کی پرورش کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بدامنی و دہشتگردی کی ماں اسلحہ ہے، اگر ملک کو اسلحے سے پاک کر کے بدامنی و دہشتگردی کی ماں کو مار دیا جائے تو ملک میں امن کے قیام میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ملک کو ہتھیاروں سے پاک کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ اسلحے کی بہتات اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ مجرمانہ فعل ہی نہیں یا صرف یہ وہ رجحان ہی نہیں کہ جو دہشت گردی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ مسئلہ معاشرے کے بدلتے رویوں اور رجحانات کا عکاس بھی ہے۔ اگر ہاتھوں میں بندوق ہو تو پھر اس بات کا غالب امکان ہوتا ہے کہ معاملہ دلائل کی بجائے گولیوں سے طے کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ایسا معاشرہ جہاں تفریح فراہم کرنے والے ٹی وی اسکرین پر مار دھاڑ اور گولیاں چلانے کے مناظر بچے بھی دیکھتے ہیں۔ یہ کچے ذہنوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ وہ بھی ہاتھوں میں پستول، بندوق تھام کر گولیاں چلا کر ہیرو بننا چاہتے ہیں۔ بچوں کے اندر پنپتے اس طرح کی تصوراتی دنیا کے خیالات کے نتائج حقیقت میں نہایت بھیانک اور المناک ہوتے ہیں۔
آئین کہتا ہے کہ صرف حکومت ہی مسلح فوج کا اختیار رکھتی ہے، لیکن عملی طور پر صورتِ حال برعکس ہے۔ یہاں بے شمار گینگ اور گروہ دن دہاڑے بلاخوف و خطر اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں۔ پاکستان میں ہتھیار لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے پاس ہیں، جن میں زیادہ تر غیر قانونی ہیں۔ ملک میں 1998ء کی مردم شماری کے دوران شہریوں کے پاس 2 کروڑ کے قریب ہتھیار پائے گئے تھے۔ جس میں سے صرف 20 لاکھ ہتھیار لائسنس یافتہ تھے، باقی ایک کروڑ80 لاکھ ہتھیار بغیر لائسنس کے تھے۔ اس طرح ان غیر قانونی ہتھیاروں کی تعداد سرکاری اداروں کے پاس موجود اسلحے سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ اب سولہ سال گزرنے کے بعد ان کی تعداد میں یقیناً اضافہ ہو چکا ہے، کیونکہ 1998ء کے بعد کئی حکومتوں نے دھڑا دھڑا اسلحہ لائسنس بانٹے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف2009ء میں تقریبا ساٹھ ہزار لائسنس جاری کیے گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں خودکار رائفلوں اور پستولوں سمیت چھوٹے غیر قانونی ہتھیار آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں اور مختلف سیاسی و مذہبی گروہوں کے کارکنوں کے پاس ایسا غیر قانونی اسلحہ وافر مقدار میں موجود ہے۔ ان غیر قانونی ہتھیاروں کے بڑے خریداروں میں سیاسی، لسانی، گروہی عناصر اور جرائم سے منسلک افراد شامل ہیں، جب کہ ان کی ترسیل اور کاروبار میں سرکاری اداروں کے ملازمین اور سیاستدان بھی شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں غیر قانونی اسلحے کی روک تھام کا مطالبہ تو کرتی ہیں، لیکن ہتھیاروں کی نمائش میں اکثر سیاسی رہنما اور ان کے کارکن نمایاں ہوتے ہیں اور ہر جماعت کے کارکنوں کے پاس بڑی تعداد میں ہتھیار بھی پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ میں اضافے پر بعض حلقوں کو بہت تشویش ہے۔ سلامتی امور کے تجزیہ کاروں کے مطابق صرف لائسنس رکھنے والے افراد اور فروخت کنندگان کو ہتھیار فروخت کرنے کا نظام رائج کیے بغیر حکومت کے لیے غیر قانونی اسلحے کے کاروبار کو روکنا مشکل ہے۔
اس بات کی حقیقت جان لینے کے بعد کہ ملک کا امن برباد کرنے میں اسلحے کا مرکزی کردار ہے، نجانے کیوں حکومت اب تک ملک سے اسلحے کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے؟ حالانکہ 2012ء میں قومی اسمبلی میں ملک کو اسلحے سے پاک کرنے کے حوالے سے قرارداد کثرت رائے سے منظور کی جا چکی ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں کھلونا اسلحے پر بھی پابندی کی قرارداد منظور ہو چکی ہے، تا کہ بچوں میں جارحانہ جذبات جنم نہ لیں۔ ابھی تک ان قراردادوں پر عمل نہ ہونا قابل افسوس ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے سخت قوانین متعارف کرائے اور ان قوانین پر سختی سے عمل کرے، دھڑا دھڑ اسلحہ لائسنس بھی جاری نہ کرے۔ انسان کے بنیا دی حق زندگی کے تحفظ کے لیے اسلحے سے پاک معاشرہ ہی وقت کی ضرورت ہے، کیونکہ اسلحے کی فراوانی نے انسانوں سے ان کا سکون چھین کر انھیں خوف کی وادیوں میں دھکیل دیا ہے۔ جب تک ملک سے اسلحے کا خاتمہ نہیں ہوتا، اس وقت تک امن و سکون کا لوٹنا بھی مشکل ہے۔