مہنگی بجلی اور ڈاکو راج
حکمران سب سے ملاقات کر رہے ہیں، بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھ رہے ہیں لیکن ہاتھ خالی ہیں
شہر کراچی میں حکومت اور فورسز کی کارکردگی صفر ہے، اس خطے میں ڈاکو راج چپے چپے پر نظر آ رہا ہے ، شہر کی شاہراہیں ایک بار پھر خون آلود ہوگئی ہیں، شہریوں کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔
ایک خوف و ہراس کی فضا ہے جس نے ہر شخص، راستوں اور گلیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، دس پندرہ روز میں ایک درجن سے زیادہ نوجوان قتل کیے جاچکے ہیں، دکانداروں کا کاروبار کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ پولیس اہلکار اور پولیس کہیں نظر نہیں آتی۔ کیا یہ سب ذمے دار شہر کو دہشت گردوں کے سپرد کرکے چھٹی پر گئے ہوئے ہیں؟
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تخریب کار باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت شہر میں داخل ہوئے ہیں اور دن رات کی تخصیص ان کی نگاہ میں ذرہ برابر نہیں ہے، وہ صبح و شام وارداتوں میں مصروف رہتے ہیں۔
صاحبان اقتدار سے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہے یہ لوگ ڈنکے کی چوٹ پر راہگیروں، گاڑی اور موٹرسائیکل سواروں کو اسلحے کے زور پر روکتے ہیں اور اپنا کام شروع کردیتے ہیں مزاحمت کی شکل میں کبھی سینے میں گولی اتارتے ہیں تو کبھی ٹانگوں پر فائر کرتے ہیں، کتنے گھرانے اپنے پیاروں سے محروم ہوچکے ہیں، اگر گشتی پولیس باقاعدہ ہر محلے کا گشت کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ دلخراش سانحات زندگی کا حصہ بن سکیں۔
پہلے ہی کچھ کم ستم تھا کہ بے چارے مظلوم لوگ جیتے جی مر رہے تھے، مہنگائی اور ڈنگی وائرس کی نشوونما نے شہر کے باسیوں کو بیماری اور موت کے قریب کردیا۔ وائرس پھیلنے کی وجہ بھی کوڑا کرکٹ کے تعفن زدہ ڈھیر جو جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ رہائشی علاقے، مساجد، مدارس، اسکول، اسپتال اور ریستوران بھی اس غلاظت سے پاک نہیں رہ سکے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں نے مزید بیماریوں اور گندگی میں اضافہ کیا، ایک طرف سیلاب زدگان گھر سے بے گھر ہوئے، بے شمار بچے لقمہ اجل بنے اور جو جیتے ہیں وہ عبرت کی تصویر بن گئے ہیں۔ خالی پتیلیوں اور برتنوں میں ہاتھ ڈال کر کھانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں، گویا ''دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے'' خیال و خواب اور حقائق بہت دلخراش ہیں۔ بچوں کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے۔ دنیا بھر سے امدادی سامان جہازوں کے ذریعے پاکستان میں آ رہا ہے اور ڈالرز کی ادائیگی الگ ہے، لیکن متاثرین آج بھی کھلی چھت کے نیچے بے یار و مددگار نظر آ رہے ہیں، وہ بھوک سے بلبلا رہے ہیں، سسک رہے ہیں، فریاد کر رہے ہیں۔ یہ ان علاقوں کے لوگ ہیں جہاں امداد اب تک نہیں پہنچ سکی ہے۔
حکمران سب سے ملاقات کر رہے ہیں، بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھ رہے ہیں لیکن ہاتھ خالی ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا کے پیکٹ، بسکٹ، ٹافیاں، غبارے، پھل فروٹ ساتھ لے جاتے اور بچوں کے ہاتھوں میں بڑے بڑے بسکٹ کے ڈبے پکڑا دیتے تاکہ وہ بے بسی سے دیکھنے کے بجائے اپنے بھوکے شکم کو جوس سے بھرتے، جوس سے سوکھے حلق کو ٹھنڈک اور پیاس کی کمی کو دور کرتے، دیکھنے والوں کا بھی دل خوش ہوتا کہ ان کے یہ بھائی ہیں، ہر لحاظ سے ان کے اپنے ہیں۔ ان کا دکھ درد تمام پاکستانیوں کا ہے۔ اپنی موجودگی میں دس، دس ہزار کی رقم بوڑھے، جوانوں کے درمیان تقسیم کردیتے تو کچھ آنسو ضرور پونچتے، بہت سے تلخ حقائق بھی سامنے آ رہے ہیں جنھیں سن کر دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہے۔
وہ سچائی یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے سیلاب کا رخ گاؤں اور دیہات کی طرف موڑ دیا، زمین پر کٹ لگائے گئے۔ ایک صحافی نے اپنے علاقے کے ایم پی اے کے سامنے انسانیت سوز مظالم کی نقاب کشائی کی۔ بیماری سے بچے اور نوجوان مر رہے ہیں، مائیں بین کر رہی ہیں، عزیز و اقارب نوحہ کناں ہیں، ایک قیامت بپا ہے۔ ان جگہوں پر میڈیکل کیمپ بھی ہنگامی بنیادوں پر نہیں لگائے گئے۔ علاج معالجہ وقت پر ہو جاتا تو شاید نفسا نفسی کا سیاہ چہرہ دیکھنے کو نہ ملتا۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پاک فوج کے نوجوانوں نے امدادی سامان بہم پہنچایا، مصیبت میں پھنسے لوگوں کو ریسکیو بھی کیا۔ ہمارے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ بھی کیا، سامان بھی متاثرین کو دیا گیا اور ساتھ میں یہ اعلان بھی کیا کہ ان کے لیے جلد سے جلد پائیدار بنیادوں پر گھر بنا کر دیے جائیں گے جو موسموں کی سنگینی کو برداشت کرنے کے قابل ہوں گے اور زمینی و آسمانی آفات سے بچانے میں مددگار ثابت ہوں گے، اگر ایمرجنسی کو مدنظر رکھتے ہوئے کام جلد پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، تو انشاء اللہ بہت جلد متاثرین کو ایک ٹھکانہ میسر آجائے گا ،لیکن جدا ہونے والوں کے غموں سے نجات پانا ناممکن ہے۔
زخم مندمل ہو سکتے ہیں لیکن ختم نہیں ہو سکتے۔ گاؤں، دیہات کے لوگوں پر جاگیرداروں نے ہر طرح کا ظلم توڑا، تعلیم اور علاج معالجے کے لیے ان کے بچے ترستے رہے، ان کی کئی نسلوں نے زندگی غلامی میں بسر کرتے ہوئے گزاری ہے، لیکن جو بھی حکومت آئی اس نے ان ہاریوں اور کسانوں کے مسائل کو ختم کرنے کے بجائے اضافہ کیا۔ مقتدر حضرات کے دلوں سے شاید خوف خدا نکل چکا ہے جس وقت پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی ڈوب رہی تھی، انھی دنوں وزرا سیر و سیاحت کے لیے بیرون ممالک روانہ ہوگئے، انھیں اگر تعیشات زندگی کی عادت ہوگئی ہے تو کیا ہی اچھا ہو، اپنے ملک کو ترقی دیں، ہمارے وطن میں کس چیز کی کمی ہے؟
بے شمار وسائل ہیں، قدرتی معدنیات، سونا اگلتی زمینیں، محنتی اور ایمان دار کسان، مزدور، جنگل، باغات غرض قدرت کی وہ بے شمار نعمتیں جن کا ذکر سورہ رحمن میں درج ہے۔ اس ملک کے بادشاہ اور وزرا اپنے ہی ملک کو اپنی حکمت عملی کی بدولت، جاپان، پیرس، سنگاپور جیسا ملک آسانی کے ساتھ بنا سکتے ہیں اور وہ کشکول بھی ٹوٹ جائے گا جو بار بار امریکا اور آئی ایم ایف کے سامنے جاتا ہے۔ اب تو حالات نے پوری دنیا سے مدد مانگنے پر مجبور کردیا ہے افسوس صد افسوس۔
بجلی کے بلوں میں اصل بل سے زیادہ ٹیکس لگا کر بھیجے جا رہے ہیں، پاکستان کے عوام اسی لیے موجودہ حکومت سے مزید متنفر ہوگئے ہیں۔ فیول ایڈجسٹمنٹ، سیلز ٹیکس جو ہزاروں کی تعداد میں لگ کر آجاتے ہیں، اس بار ہمارے بلز میں آٹھ ہزار اور 9 ہزار ٹیکسز شامل ہیں، ہماری ہی طرح دوسرے صارفین بھی اس دھاندلی کا شکار ہیں، تنخواہیں وہی ہیں۔ بغیر منصوبہ بندی اور عوام کی ماہانہ آمدنی کو مدنظر رکھتے ہوئے بل بھیجے جا رہے ہیں، لوگوں کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ اس بربریت زدہ دور میں الحفیظ الامان ہی کہا جاسکتا ہے۔