اب بدل دو بیانیہ
جمہوریت کی بد بختی یہ ہے کہ وہ کبھی بھی ایک رات میں ٹھیک نہیں ہوتی، اسے دہائیاں اور صدیاں درکار ہوتی ہیں
وہ مناظر جو کل تک خانہ جنگی میں غلطاں افریقہ میں دیکھنے کو ملتے تھے۔بھوک سے بدحال چھوٹے بچوں کے برہنہ بدن، سوکھے اتنے کہ کھال سے ہڈیاں چپکی نظر آنے لگتی تھیں۔
آج یہ چہرے، یہ منظر میرے عرض وطن کے چپے چپے میں نظر آتے ہیں ۔ آئینے میں جب اپنا چہرہ دیکھتا ہوں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔یوں گماں ہوتا ہے یہ سب فطرت نے نہیں کیا ، یہ تو میں نے کیا ہے۔یہ فرض تھا میرا، ایک قرض تھا مجھ پر ، میں اس تاریخ کا وارث ہوں، یہ ہند ، سندھ سب میرے ہیں، جہاں اب سناٹا ہے ، ہو کا عالم ہے، بستیاں ویراںہیں، پانی پانی ہے ہر طرف، کچے گھر زمین بوس پڑے ہیں کہ مکین یہاں سے کوچ کر گئے کہ اب خیموں میں رہتے ہیں۔
جن کے پاس خیمے نہیں وہ چار پائیوں سے اپنے اوپر چھت بنا کے بیٹھے ہیں۔ وہ جو سندھی رلی ہے رنگوں سے بھری ان چار پائیوں کو اوڑھ کے بیٹھی ہے کہ سایہ ہواور سورج کی تپش کم ہو۔اب کے اسی پانی پر آکے بیٹھتے ہیں مچھر، ہر جگہ ملیریا ، ڈنگی اور ڈائر یا پھیلا ہوا ہے۔ ہزاروں حاملہ عورتیں بیٹھی ہیں نہ دوائیاں ہیں نہ معالج ہے۔ یہ کیسا سندھ ہے بلوچستان ہے یہ کیسا پاکستان ہے۔
جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔ان وڈیروں نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے دریا ، شاخوں اور نہروں کو کٹ دے کے وہ اپنی زمینیں اور گھر بچائے اور جو اس اقتداری سرشتے میں کمزور تھے اس کی زمینیں و گھر پہلے ڈوبے۔ ایسی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایک بچی خیمے میں بیٹھے اسکول کی کتابوں میں مشغول ہے، اسے آنے والے دنوں کی فکر ہے۔اپنی حقیقی آزادی جو اسے تعلیم کی جنبش سے ملے گی۔ وہ بچی جب کشتی میں سوار ہوتی ہے تو ساتھ اس کے اسکول کے کتابوں کی بیگ تھی یا وہ ماں جو کلہاڑی لے کر بند پر پہرا دیتی ہے کہ کوئی اس بند کو کاٹ کے کہیں اس کی بستی کو نہ ڈبو دے یا وہ تصویر جس میں بام و درد باقی کھڑے تھے، چھت و دیوار زمین پر پڑے تھے۔
مگر میں اپنے آپ کو مجرم سمجھتا ہوں کہ جیسے یہ سب میری کوتاہی سے ہوا ہے۔ میں مجرم اس لیے ہوں کہ مجھے جاگتے رہنا تھا۔ اس ملک کی سیاست میں، سول سوسائٹی میں ، اپنی تحریروں سے سچ کو رقم کرنا تھا کہ آ یندہ کی نسلیں محفوظ ہوں۔ آئین محفوظ ہو، جمہوری اقدار باقی ہوں، جس کی کوکھ سے نکلتی تھی ''اچھی حکمرانی'' ادارے بنتے تھے ، اک ایسا بیانیہ بنتا تھا جو صحت مند اقدار رکھتا ہے۔ جس سے رواداری جنم لیتی ہے ۔ برداشت کا مادہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تاریخ کو مسخ کرنے کی کسے جرات نہیں ہوتی۔
ہم سب کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ کوتاہی کر بیٹھے، درباری بن بیٹھے، بادشاہ سلامت کوسچ بتانے کے برعکس اس کی جی حضوری کرتے رہے۔ ہم سب خود غرض تھے دراصل ، ہمارے چھوٹے چھوٹے کام تھے ، ہم اپنے بچوں کے تحفظ تک محدود تھے۔
یہ جو جنگیں بیچتے تھے۔ گھاس کھانے کی بات کرتے تھے کہ دفاع مضبوط ہو، یہ جو شادی نہیں کرتے تھے کہ جب تک لال قلعہ فتح نہ ہو، ایک ٹھوس مضبوط انتہا پرست بیانیہ بنایا گیا، اور بیچا گیا۔ جو اس بیانیے کا خرایدار نہ تھا اس غدار کے خطابات سے نوازا گیا ۔ پھر روس افغانستان میں گھس آیا، ا س بیانیے کی تو پھر چاندنی لگ گئی ، جب کہ بظاہرسب ٹھیک تھا، 1973 کا آئین بھی تھا ، پارلیمان بھی تھی، قانون کی حکمرانی تھی مگر ایسا نہ تھا ، ایک تماشہ تھا ، کٹھ پتلی جمہوریت ۔ عام آدمی پارلیمنٹ تک آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ،الیکشن میں کھڑے ہونے کے لیے کروڑوں روپے درکار تھے اور جو عام آدمی اگرپہنچتا تھا، وہ خود عام آدمی کے نظریے سے علیحدگی کرتا تھا اور اس شرفا کی کلب کا ممبر ہوجاتا تھا۔
ان پچھتر سالوں میں یہ سماج ٹوٹ نہ سکا ،وہی رعایا تھی اور وہی اشرافیہ وہی کھوٹے سکے تھے جو ہمارے رہبر تھے اور ایک مخصوص بیانیہ تھا ۔ ایوب اور مشرف تو یہ بھی کہتے تھے کہ جمہوریت اس ملک کے لیے موزوں نہیں ۔ ضیاء الحق کہتے تھے آئین چند صفحوں کا مجموعہ ہے جسے کبھی بھی ردی کی ٹوکری میں وہ ڈال سکتا ہے۔
جمہوریت کی بد بختی یہ ہے کہ وہ کبھی بھی ایک رات میں ٹھیک نہیں ہوتی، اسے دہائیاں اور صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ مسلسل بیلٹ باکس پر ووٹ ڈالنے کا تسلسل درکار ہوتا ہے۔ ووٹر اس عمل سے تجربہ حاصل کرتے ہیں وہ آہستہ آہستہ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنا شروع کرتے ہیں۔ بحث و مباحثہ ہوتے ہیں، اسٹوڈنٹ یونین ، ٹریڈ یونین کو آزادی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ہم نے ان پر پابندی لگادی ، جنرل ضیا الحق کی اسٹوڈنٹ یونین پر لگی پابندی آج تک ہم ہٹا نہ سکے ۔ ہم عورتوں کو تنظیموں کو سمجھ ہی نہ پائے عورتوں کی آزادی کے دن کو منفی نظر سے دیکھا۔
کوئی بھی مضبوط معیشت رکھنی والی قوم، ایک ایسی قوم جہاں، جمہوریت بھرپور انداز میں رواں ہوتی، جہاں آئین کی بالادستی ہوتی، قانون کی حکمرانی ہوتی ، جس طرح سمندری طوفان امریکا کی ساحلی پٹیوں پر رہنے والوں کو اکھاڑ کے باہر پھینک دیتی ہے، کسی طرح پھر ایسی ریاستیں ان کو تھوڑے وقت میں Rehabilitate کرجاتی ہیں۔ ہم نے ان غریبوں کا کیا حال کردیا۔ روپے کی قدر جو گری سو گری، چالیس فیصد تک افراط زر ہے۔ایسا کیوں نہیں ہے ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ، میرے ملک میں ایسا کیوںہے۔
سندھ کے ستر سالہ مضبوط وڈیرہ شاہی نے کیا حال کیا ہے ان دہقانوں کا۔کس طرح کچے گھروں میں یہ رہتے رہے۔ تعلیم و ہنر سے محروم۔ اب جو ان غریبوں کے لیے بارش سے ستائے لوگوں کے لیے امداد آرہی ہے۔ دنیا کو یہ فکر ہے کہ یہ مستحق لوگوں تک کسی طرح پہنچائی جائے۔ ان کو حکومت پر اعتبار نہیں ہے اور اس کے اوپر یہ جو ملک کی سیاست بنی ہے کسی مجرمانہ سوچ کے ساتھ اس مشکل وقت میں بھی خان صاحب جلسے کررہے ہیں، وہ ان سیلاب زدگان تک پہنچ ہی نہ سکے۔
اس لیے یہ بارش بہت بھیانک تو ہوگی مگر ہمارے پاس سسٹم نہیں ہے کہ ایسی مشکل گھڑی سے کیسے مقابلہ کیا جائے۔ اب تو پیناڈول بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ یہ کساد بازاری ، مہنگائی ، کسی طرح سے غریبوں کے خاندان اور زوال پذیر ہورہے ہیں،یہ دیکھ کے رونا آتا ہے۔ جو قدرت نے برہمی دکھائی وہ اپنی جگہ پر، لیکن ہم نے فنڈ زجو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے مختص تھے، ان میں خرد برد کر کے اس تباہی کو آنے دیا۔ ستر سال سے ایک مخصوص جنگی بیانیہ ہے جو آج سکہ رائج الوقت ہے ، یہ کچھ اور نہیں بلکہ خودکشی ہے ۔ مجموعی خودکشی جہاں سے یہ ملک گزر رہا ہے، خدا خیر کرے۔