ڈالر کی اڑان جاری اوپن مارکیٹ میں قیمت 245 روپے سے تجاوز کرگئی
انٹربینک میں ایک ڈالر کی قیمت 239 روپے سے بھی تجاوز کر گئی
ملک کو رواں سال مطلوبہ 36 ارب ڈالر کی ضروریات کا بندوبست نہ ہونے، دوست ممالک کے عدم تعاون سے مالیاتی بحران شدت اختیار کرنے اور سیلاب سے معیشت سست روی کا شکار ہونے کے باعث منگل کو بھی ڈالر نئی بلندیوں کو چھونے میں سرگرم رہا۔
انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری دورانیے میں ڈالر کی قدر ایک موقع پر 239 روپے کی سطح سے بھی تجاوز کرگئی تھی تاہم اختتامی لمحات میں ڈیمانڈ گھٹنے سے ڈالر کی قدر 99 پیسے کے اضافے سے 238.90 روپے کی سطح پر بند ہوئی۔ اس کے برعکس اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر بغیر کسی تبدیلی کے 245.40 روپے کی سطح پر مستحکم رہی۔
بنیادی اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی طلب سے افراط زر کی شرح بھی سنگین سطح پر آنے کے خدشات کے باعث ڈالر بے قابو ہوگیا۔غیر یقینی معاشی حالات اور ملک کو درپیش مالیاتی بحران کے باعث آنے والے دنوں میں برآمدات میں کمی خدشات روپیہ کی تاریخ ساز بے قدری کاباعث بن گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ خام تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کے اثرات بھی زائل ہوگئے ہیں اور پاکستانی عوام بدستور مہنگی قیمتوں پر پیٹرول اور ڈیزل خریدنے پر مجبور ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے اگرچہ 3 ارب ڈالر کے قرضے ایک سال کے رول اوور کردئیے گئے ہیں لیکن ڈالر کی قدر کا تعین مارکیٹ فورسز پر چھوڑے جانے کے باعث اس کے بھی مثبت اثرات نظر نہیں آرہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : حکومت روپے کی گراوٹ کا سلسلہ روکنے میں ناکام
ماہرین کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں ڈالر کی قدر میں کمی ایک اہم وجہ اعتماد کا فقدان بھی ہے کیونکہ تجارت و صنعتی شعبوں کو معیشت کو سدھارنے، برآمدات بڑھانے سے متعلق حکومت کا کوئی مستقبل کا پلان نظر نہیں آرہا جبکہ ہفتہ وار بنیادوں پر ذرمبادلہ کے گھٹتے ہوئے ذخائر منفی خدشات اور بے یقینی کی شدت بڑھارہے ہیں۔
برآمدی شعبوں کی جانب سے اپنے خام مال کے درآمدی کنسائمنٹس منگوانے کے لیے زرمبادلہ کا حصول بڑھ گیا ہے جبکہ دوست ممالک سے پاکستان کو مطلوبہ قرضوں کے حصول میں مشکلات نے ڈالر کی اہمیت بڑھادی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے سیلاب کے بعد معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے سے متعلق کوئی منصوبہ بندی منظر عام پر نہیں آرہی ہے جس سے تجارت وصنعتی حلقوں میں تشویش بڑھتی جارہی ہے جو زائد لاگت پر بھی ڈالر حاصل کرکے اپنے خام کی درآمدات کی کوششیں کررہے اور یہی عوامل ڈالر کی اڑان کو جاری رکھے ہوئے ہے۔