پردیسی پاکستانی
پاکستان میں موجود لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کو کینیڈا میں رہائش کا پروانہ مل جائے
کینیڈا سے واپسی تو کچھ روز قبل ہوگئی تھی لیکن واپس آتے ہی ملک میں سیلاب کی خوفناک صورتحال نے پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا۔ ایک پر سکون ملک میں جو چند روزگزرے تھے، وہ خواب ہوئے اور زندگی دوبارہ سے پرانی ڈگر پر چل پڑی ۔ سسکتی اور جاں بلب معیشت کا عذاب کیا کم تھا کہ سیلاب نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے ۔
ہم جیسے متوسط طبقے نے اسی ملک میں زندگی کے دن کاٹنے ہیں، ہمارے پاس ملک سے باہر کوئی جائیداد ہوتی ہے اور نہ ہی ملک میں اتنے زیادہ وسائل ہوتے ہیں کہ آسودہ زندگی گزار سکیں، بس جیسے تیسے گزر جاتی ہے۔
پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کینیڈا میں سکونت پذیر ہے اور پاکستان میں موجود لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کو کینیڈا میں رہائش کا پروانہ مل جائے۔ کینیڈا میں قیام کے دوران یہ معلوم ہوا کہ پاکستان کی افسر شاہی اور کاروباری شخصیات کے علاوہ سیاستدانوں کے خاندانوں کی ایک بڑی تعداد بھی وہاں رہائش پذیر ہے جن کے پاس ظاہر ہے کہ کینیڈا میں مستقل رہائش کا پروانہ ہے اور وہ پاکستان میں کمائی کر کے کینیڈا کی زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
سیاحتی سفر میں کینیڈاکے دارالحکومت اوٹاوہ پہنچے توپارلیمان کی عمارت کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک فوارے سے آگ اورپانی کے ملاپ کا نظارہ کیا۔ اس سے متصل استادہ ایک تختی پر نظر پڑی تو علم ہوا کہ آگ اور پانی کا یہ ملاپ سلطنت برطانیہ کے زیر اثرشمالی امریکا میں تین صوبوں کے ملاپ کے بعد کینیڈا کی موجودہ جغرافیائی حدود کے ایک سو سال مکمل ہونے پر 1967 میںکیا گیا۔ایک ہی جگہ سے پانی کی پھوار اور آگ کے شعلے نکلنے کا یہ منفردنظارہ سیاحوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔
آگ اور پانی کے اس ملاپ کے آغاز میں آگ کو روشن کرنے کے لیے پہلے قدرتی گیس اور اب بائیو گیس استعمال کی جارہی ہے۔ کینیڈین پارلیمان کی عمارت زیر تعمیر ہے اور عارضی طور پر چوکورعمارت کے درمیان واقع خالی دلان کو ایک عارضی چھت ڈال کر ممبران کے لیے نشستیں لگا دی گئیں جب کہ مہمانوں اور دوسری ضروریات کے لیے عارضی گیلریاں بھی بنائی گئی ہیں۔ اس عمارت کو دیکھنے کے لیے پیشگی وقت لینا پڑتا ہے اور ایک گائیڈ آپ کو عمارت کی سیر کراتے ہوئے اس کی تاریخ سے آگاہ کرتی ہے۔
اٹاوہ شہر کی حدود ختم ہوتے ہی کینیڈا کے فرانسیسی صوبہ کیوبک کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ یہاں پر زیادہ تر آبادی فرینچ زبان بولتی اور سمجھتی ہے اسی لیے شاید شاہراہوں پر تمام سائن بورڈ بھی فرانسیسی زبان میں ہیں جن کو سمجھ کر درست راستے کا تعین کرنا ایک مشکل عمل ہے لیکن بھلا ہو گوگل کا جس نے دنیا بھر میں اجنبیت ختم کر دی ہے اور کسی بھی ملک میں ایک اجنبی گوگل کے ذریعے ہر جگہ بڑی آسانی سے پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ اس کے پاس منزل کادرست پتہ موجود ہو۔
اسی گوگل کے سہارے اوٹاوہ سے ڈیڑھ سو کلو میٹر کی دوری پر ایک پرفضاء مقام مونٹ ٹریمب لانٹ کے نام سے واقع ہے، یہ مقام ہمارے کوہ مری سے ملتا جلتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ ایک ترقی یافتہ ملک میں سہولیات بھی زیادہ ہیں اور اس کے ساتھ ہی خرافات کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ سر شام ہی اس چھوٹے سے سیاحتی مقام کے مرکزی علاقے میں ایک میلہ لگ جاتا ہے جہاں پر سیاح خوب موج مستی اور ہلہ گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔
ایک اور بات جو مشاہدے میں آئی کہ ٹورنٹو واپسی تک دو ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا لیکن کسی بھی شہر میں یا موٹر وے پر پولیس کی کوئی خاص نقل و حرکت دیکھنے میں نہیں آئی جس کا ذکر جب میزبان سجاد سے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ عوام سختی سے قوانین کی پابندی کرتے ہیں اس لیے پولیس کو خال خال ہی کسی سرگرمی کی ضرورت پڑتی ہے لیکن جب کوئی قانون کی خلاف ورزی کرے تو پھر قانون کی حرکت بھی دیکھنے والی ہوتی ہے اور کوئی قانون توڑنے والا چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہوقانون سے بالاتر نہیں ہے ۔
تارکین وطن کی ایک بڑی تعدادکینیڈا میں آبادہے جو اپنے ملکوں سے بہترروز گار کی تلاش میں کینیڈا منتقل ہوئے اور وہاں پر اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنامقام بنایا' شہریت حاصل کی اور اپنے آپ کو انھی حقوق کا حقدار ٹھہرایا جو حقوق مقامی آبادی کو حاصل ہیں۔
میرے میزبانوں میں ملک جمیل، ملک شکیل اور ملک احمد نواز کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان احباب کی ہے جو چار دہائیوں سے کینیڈا میں آباد ہیں اور وہاں سے قیمتی زرمبادلہ پاکستان منتقل کرتے ہیں۔ پاکستان سے باہر رہائش پذیر پاکستانی جو ہر سال اپنے ملک تیس ارب ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ بھجواتے ہیں وہ یہ گلہ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک میں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں جارہی ہے جب کہ ملک کا ہر لیڈر بیرونی ملک پاکستانیوں سے چندے اور زرمبادلہ بھجوانے کی اپیل تو کرتا ہے لیکن ہمیں ہمارے بنیادی حق سے محروم رکھا جارہا ہے حالانکہ ایک غیر ملک کے شہری ہونے کے باوجود ہمیں کینیڈا میں بھی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے اور ہم دنیا میں کہیں بھی ہوں الیکڑانک ذرایع استعمال کر کے انتخابات میںووٹ ڈال سکتے ہیں لیکن پاکستان جہاں سے ہمارا خمیر اٹھا ہے وہاں پر حیلوں بہانوں سے ہمیں اس حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ان کے شکوے شکایت بے شمار ہیں لیکن ان شکوؤںکے ساتھ ساتھ ان کی اپنے ملک سے محبت اور لگاؤ کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، وہ پاکستان کے لیے مضطرب دکھائی دیتے ہیں۔
ہمارے یہ پردیسی بھائی پاکستان سے آنے والوں کو والہانہ انداز میں خوش آمدید کہتے ہیں اور مہمانوں سے اپنے ملک کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہی چاہتے ہیں ۔ آج کے جدید دور میں معلومات کا تبادلہ کوئی بڑی بات نہیں رہی لیکن ہمارے یہ پردیسی پاکستانی وہ باتیں سننا چاہتے ہیں جن سے وطن عزیز کی بہتری کی کوئی صورت نکلتی ہو۔
میرے جیسے پاکستانیوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وطن کی محبت میں سرشار پردیسیوں کو ان کی خواہشات کے مطابق باتیں سنائی جائیں اور مایوسی کن حالات اور دکھڑے سنانے سے گریز کیا جائے ۔تارکین وطن کے مسائل بے شمار ہیں ان کو اپنی حکومتوں سے کئی گلے اور شکوے شکایتیں ہیں جن کے متعلق کسی اگلے کالم میں عرض کروں گا۔