وہ قرض جوچکائے ہیں
پانی کا سیلاب تو اترجائے گا لیکن یہ جس سیلاب کا ہم ذکر کررہے ہیں، اسے کون روکے گا
ایک سیلاب تو چل رہاہے، سیلاب زدگان پرجو گزری ہے، وہ بھی گزری ہے اورسیلاب زادگان بھی مخصوص دیانت اورامانت کے مطابق امداد''پہنچا'' رہے ہیں، اس سیلاب پر تو بہت بولاجارہاہے، سناجا رہا ہے، لکھا جارہاہے لیکن اس سیلاب کے ساتھ ایک اورسیلاب بھی چل رہاہے، بقول منیرنیازی۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریاکے پاراترا تو میں نے دیکھا
سیلاب جس قسم کا بھی ہو، پانی کاہویا پتھروں کا، ایک جانے پہچانے طریقے پر چلتاہے، جب اونچے پہاڑوں سے کچھ لڑھکتاہے تو چلتے چلتے آخرکارنشیبی لوگوں کے گھر مہمان ہوجاتاہے۔ پشتوکامشہورگیت ہے
نرے باران پاس پہ غرونوئے وروینہ
ژورے کرمے تہ نصیب راوستی یمہ
(پہاڑوں پر بارش برس رہی ہے اورنصیب مجھے نشیبی کرم میں لایا ہے ) ،اس سیلاب کو سمجھنے کے لیے ذرا پیچھے جاکر وہ خبریاد کرنا پڑے گی جس میں موجودہ حکومت یاسیٹ اپ نے اعلان کیا تھا کہ بیرونی اشیائے تعیش پر پابندی لگادی گئی ہے لیکن اب اعلان ہورہے ہیں کہ وہ پابندی ہٹالی گئی ہے البتہ ان پر ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے۔
یہ کل پندرہ سو پچاسی اشیاء ہیں جن میں مچھلی، گوشت، جام جیلی،چاکلیٹ ،شہد اوردوسری وی آئی پی اشیاء شامل ہیں اوروی آئی پی لوگ ہی استعمال کرتے ہیں ،خبرمیں یہ نہیں بتایاگیا کہ ان پر ٹیکس اورڈیوٹی کون اداکرے گا،پہاڑوں کی اونچی چوٹیاں یانشیب کے خدامارے؟ ظاہرہے کہ ''چوٹیاں''تو بلند بھی ہوتی ہیں اورپتھر کی بھی، اس لیے بہتے بہتے ''سیلاب '' ان ہی خداماروں پر آئے گا جو نشیبی علاقوں میں رہتے ہیں اورسارے ہی ''انوری'' ہوتے ہیں ۔
ہر بلائے کہ ز آسماں بود
خانہ انوری تلاش کند
کیامزے کی بات ہے کہ ان وی آئی پی اشیاء کی ادائیگی وہ کریں گے جنھوں نے کبھی ان اشیاء کو دیکھا یا چکھا تک نہیں ہے ،اب معلوم نہیں ہے، نہ حکومت نے اس کے ساتھ یہ جو ریگولیٹ کی ''ٹچ'' لگائی ہے، یہ ہوگی کیسے ؟ کہ اس سامان یااشیائے تعیش کا بوجھ انھیں استعمال کرنے والوں تک محدود رکھا جاسکے گا؟کہتے ہیں کہ برف کاگولہ جب بلند چوٹیوں سے لڑھکتاہوا نیچے جاتاہے تو اپنے ساتھ مزید برف کو لپیٹتاہوا جب نشیب میں پہنچتاہے تو گلیشئیربن چکاہوتاہے۔
ان اشیاء تعیش پر ٹیکس اورڈیوٹی بڑھانے کاسلسلہ تو ابتدا ہی سے چلاآرہا ہے اورپہاڑ کی چوٹی سے پاؤبھرکاگولہ جب خداماروں تک پہنچتاہے تو کئی من وزنی ہوچکاہوتاہے چنانچہ اس حکومت نے جب ان اشیائے تعیش میں سے کچھ پر پابندی لگائی تو ہم خوش ہوئے کہ جن اشیائے تعیش پر عوام کاخون پسینہ ایک ہوتاہے ان کے بغیرنہ تو آج تک کوئی مراہے نہ مرے گا لیکن ہمیں کیاخبرتھی کہ پندرہ فی صد اشرافیہ یا وی آئی پی لوگ یہ پسند نہیں کریں گے کہ وہ خود اور ان کی بیگمات، نونہالان ایسا ہونے نہیں دیں گے اوروہی ہوا، پابندی اٹھالی گئی، صرف ڈیوٹی اورٹیکس بڑھا دیے گئے جو سیدھے لڑھکتے ہوئے ان خانہ خرابوں اور خداماروں کے سر پرپڑیں گے جو نشیب میں رہتے ہیں۔
اایک مرتبہ ہمارے ایک دوست کے ساتھ سبزی منڈی میں ملاقات ہوگئی، پوچھنے پر پتہ چلاکہ کسی نے اسے بتایاہے کہ بھنڈی بازار میں آگئی ہے ،بڑا دکھی ہورہاتھا کہ بھنڈی نہیں ملی،ہم نے ایک دکان کے بارے میں بتایا کہ اس دکان میں ہے لیکن اتنا تردد کرنے کی کیاضرورت ہے، کچھ دنوں میں بھنڈی عام ہوجائے گی۔اب تو سناہے دو سوروپے فی کلو گرام ہے۔ بولا،سستی ہوگئی تو سارے لوگ کھائیں گے، مزہ تو اب آئے گا اورپھر وہ ہماری بتائے ہوئی دکان کی طرف چل پڑا۔
پانی کا سیلاب تو اترجائے گا لیکن یہ جس سیلاب کا ہم ذکر کررہے ہیں، اسے کون روکے گا، حکومت کے پاس صرف ٹیکس اورڈیوٹی بڑھانے کاآپشن ہے، اب اتنا ہوگا کہ ان اشیائے تعیش کی قمیتیں زیادہ ہوجائیں گی تو ہوجائیں، پہاڑ کی چوٹیوں کو کیااثر پڑے گا بلکہ وہ کچھ زیادہ کرکے خداماروں کی طرف لڑھکادیں گے۔
کیاکمال کے لوگ ہیں، پاکستان کے نشیبوں والے لوگ کہ ان چیزوں کی قیمت اداکرتے ہیں، جن چیزوں کے نام بھی نہیں جانتے اوروہ قرضے اداکرتے ہیں جو انھوں نے کبھی لیے ہی نہیں۔
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے