عمران خان بند گلی میں
عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان معاملات آہستہ آہستہ پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئے ہیں
عمران خان کی چکوال کی تقریر نے ان تمام خبروں اور افواہوں کو زمین بوس کر دیا ہے جن سے یہ تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت ہو گئی ہے۔ مبینہ طور پر ایسی خبریں بھی آئیں کہ عمران خان کی اہم شخصیت سے ملاقات ہوئی ہے، جس میں برف پگھل گئی ہے۔
کچھ صحافیوں نے خبریں دیں کہ ایک نہیں دو ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ کچھ نے خبر دی کہ ایک ملاقات ہوئی ہے اور ایوان صدر میں ہوئی ہے۔ بہر حال ایک ماحول بنایا گیا کہ جیسے معاملات طے ہو گئے ہیں۔ لیکن نہ تو عمران خان اور نہ ہی کسی اور ذرایع نے ان خبروں کی تصدیق اور تردید کی، اس خاموشی نے ماحول کر گرما دیا۔
دوست تو اس حد تک چلے گئے کہ بس الیکشن کی بات طے ہو گئی ہے۔دوستوں نے انتخابات کی تاریخ بھی دینا شروع کر دی۔ مفاہمت کے گیت بجنا شروع ہو گئے۔ عمران خان کے حامی سوشل میڈیا کے وہ اکاؤنٹس جو کل تک اسٹبلشمنت کے خلاف زہر اگل رہے تھے، یک دم مفاہمت کی بات کرنے لگے۔
اس لیے ایک رائے بن گئی کہ شاید واقعی کوئی بات بن گئی ہے۔ بہرحال مفاہمت کا ماحول بن گیا، اسی ماحول میں یہ بھی کہا جانے لگا ، شاید عمران خان کو اب لانگ مارچ کی ضرورت ہی نہ پڑے اور لانگ مارچ کے بغیر ہی الیکشن کا اعلان ہو جائے گا۔ دو تین دن عمران خان نے کی جانب سے بھی نرمی نظر آنے لگی۔
لیکن چکوال کے جلسے میں عمران خان کی تقریر نے ان سب خبروں اور ماحول کو ختم کر دیا۔ انھوں نے ایک دفعہ پھر ٹارگٹیڈ اور جارحانہ انداز اختیار کیا، ان کے لہجے میں جھنجلاہٹ بھی نظر آئی۔ وہ ایک مرتبہ پھر ریڈ لائن کراس کرتے نظر آئے۔ اس لیے دوستوں کی محنت مجھے تو رائیگاں جاتی نظر آئی۔ دوسری طرف لندن میں شہباز شریف کی میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد بھی یہی خبر آئی ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شاید اس وجہ سے بھی عمران خان نے دوبارہ طبل جنگ بجایا ہے کیونکہ ان کو جلد الیکشن ملتے نظر نہیں آرہے لیکن یہ طبل جنگ عمران خان کے لیے کتنا فائدہ مند ہے اور کتنا نقصان دہ ہے، یہ ایک الگ بات ہے۔
یہ خبر بھی آئی ہے کہ عمران خان نے اپنی پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں اس بات پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ ان کی پارٹی کے لوگ انھیں بائی پاس کر کے براہ راست اسٹبلشمنٹ سے رابطے میں ہیں۔ راوی بتاتے ہیں کہ اس موقع پر ایک سنیئر لیڈر نے کہا کہ خان صاحب میں جب بھی اسٹبلشمنٹ کے لوگوں کو ملا ہوں، آپ کی اجازت سے ملا ہوں۔ آپ نام بتائیں کون کون آپ کو بائی پاس کر کے مل رہا ہے، ایسے ابہام پیدا ہوگا۔تاہم خان صاحب نے نام نہیں بتائے۔
تحریک انصاف میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ سیاست کرنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس لیے عمران خان کو اپنا اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ چلانے کے لیے مشکل پیش آتی ہے۔ گزشتہ دنوں بھی ایک میٹنگ میں عمران خان نے اپنی سنیئر قیادت کے ساتھ شدید ناراضگی کا اظہار کیا کہ جب وہ اسٹبلشمنٹ کے خلاف ماحول بناتے ہیں تو پیچھے ان کی پارٹی ان کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آتی ہے، اس لیے عمران خان اپنا اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ کتنی دیر چلا سکتے ہیں، یہ بھی ایک سوال ہے کیونکہ ان کی جماعت کی سنیئر قیادت اس کے حق میں نہیں ہے۔
اب عمران خان کے پاس اسلام آباد کی طرف فائنل چڑھائی کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ اب ان کے لیے تمام مفاہمتی راستے بند ہو گئے ہیں۔ ملک میں نہ تو حکومت اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ ان کے ساتھ انتخابات کے لیے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ بار بار وراننگ دے رہے تھے لیکن اب ان پر واضح کر دیا گیا ہے کہ ان کی کسی وارننگ کا کوئی اثر نہیں۔ ان کا فوری انتخابات کا مطالبہ پورا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ جو کرنا چاہتے ہیں کر لیں۔ شاید اسی جھنجلاہٹ میں انھوں نے چکوال میں پھر مزاحمتی تقریر کر دی ہے ورنہ اس سے قبل چند جلسوں میں انھوں نے ایسی تقاریر نہیں کی تھیں۔
عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان معاملات آہستہ آہستہ پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب شاید بات چیت کا ماحول بھی باقی نہیں رہا ہے۔ عمران خان جان بوجھ کر معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لیجا رہے ہیں۔ ایک رائے تو یہی ہے کہ اس بند گلی میں جو بھی پھنسا ہے، اسے آگے کوئی راستہ نہیں ملا ہے۔ راستہ ڈھونڈنے کے لیے آپ کو دوبارہ واپسی کا سفر ہی طے کرنا پڑتا ہے اور وہ کافی تکلیف دہ ہوتا ہے۔
اب تو ایک ہی سوال ہے کہ عمران خان سارے نظام کو کسی بھی طرح اکیلے ہی گرا دیں۔ وہ حالات اتنے خراب کر لیں کہ ان کے ساتھ ان کی شرائط پر بات چیت کے سوا کوئی راستہ ہی نہ رہے اور ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز ان سے ان کی شرائط پر بات کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ جو ابھی ممکن نظر نہیں آتا ہے۔ ان کی مقبولیت ایسی نہیں کہ وہ کوئی بڑی مزاحتمی تحریک چلا سکیں۔ ان کو بھی وہی مسئلہ ہے لوگ ووٹ تو دیتے ہیں لیکن جیل جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی جماعت کی سنیئر قیادت بھی جیل جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسی لیے وہ بھی خاموش ہی نظر آرہے ہیں۔
عمران خان پنجاب حکومت کو نظام گرانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی نے وزیر اعظم کے خلاف قرار داد منظور کر لی ہے جو کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ایک ورکنگ ریلشن شپ رہتا ہے۔ صوبائی حکومت خود مختاری کے باوجود مرکز کے ماتحت حکومت ہی سمجھی جاتی ہیں۔لیکن کیا کوئی صوبائی اسمبلی اپنے ملک کے وزیر اعظم کے خلاف کوئی قرارداد پاس کرسکتی ہے۔ اس کے بعد ملک کا نظام کیا رہ گیا ہے۔ عمران خان اس طرح کے اقدمات سے نظام حکومت کو مفلوج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسی طرح وفاقی وزرا کے خلاف مقدمات بھی درج کیے جا رہے ہیں۔ کیا اب وفاق اس کے جواب میں پنجاب کے وزراء پر مقدمہ درج کر لے اور وفاق کی پولیس انھیں گرفتار کر نے آجائے، یہ کیسے ممکن ہے۔ ایک نظام حکومت میں یہ کیسے ممکن ہے۔
لیکن عمران خان نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ وہ لڑائی میں کسی بھی قسم کی حدود قیود اور قواعد و ضوابط نہیں مانتے۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ اس کی ایک مثال تھی۔ اب بھی ایسے کام کیے جا رہے ہیں جن کی شاید آئین وقانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بہر حال عمران خان بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔ جہاں سے آگے کوئی راستہ نہیں ہے۔اس لیے اگر لانگ مارچ ناکام ہو گیا تو عمران خان کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ جس کا شاید انھیں اندازہ ہے ، اسی لیے جھنجلاہٹ نظر بھی آرہی ہے۔