دنیا پاکستان کوکس نظر سے دیکھتی ہے
یہاں سب سے بڑا مسئلہ قوانین پر عمل درآمد کا ہے، اور اسی مسئلے کی وجہ سے نا تو یہاں انویسٹر آتا ہے
صبح صبح اخبارات کو ٹٹولنا ایسی عادت بن جاتی ہے کہ آپ کا اس کے بغیر گزارا نہیں ہے، ویسے خبریں تووہی ہوتی ہیں جو آپ الیکٹرانک میڈیا پر پہلے ہی دیکھ چکے ہوتے ہیں مگر اخبارات میں خبر ''میچور'' ہوکر اور کئی ''گیٹ کیپرز'' سے گزر کرآتی ہے۔
اس لیے یہ روزنامچے آپ کو خبر کی گہرائی میں لے جاتے ہیں، اور جب آپ فریش مائنڈ کے ساتھ خبر کو پڑھتے ہیں تو وہ آپ کو کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے، ایسی ہی ایک خبر گزشتہ روز نظر سے گزری، خبر چونکا دینے والی تھی، آنکھیں کھول دینے والی تھی۔ خبر کی لوکیشن سندھ یا بلوچستان کے کسی دور دراز علاقے کی نہیں بلکہ وفاقی دارالحکومت کی ہے۔ خبر کچھ یوں تھی کہ یہ بائیس برس پہلے کا واقعہ ہے۔ سال2000 تھا۔
اسلام آباد کے ایک شہری کے گھر کے باہر بجلی کے محکمے نے بھاری ٹرانسفارمر نصب کر دیا۔شہری نے فریاد کی کہ ٹرانسفارمرہٹایا جائے۔ متعلقہ ادارے نے ٹرانسفارمر ہٹانے کے لیے چارجز یعنی اخراجات کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ اس پر شہری وفاقی محتسب کی عدالت میں چلا گیا۔وفاقی محتسب نے مسئلہ حل کرنے کا حکم دیا۔ پھر درمیان میں نیپرا آ گیا۔ بہر طور نیپرا نے اٹھارہ برس کے بعد یعنی 2018 میں شہری کی درخواست نامنظور کر دی۔ تو شہری ہائی کورٹ چلا گیا۔
ہائی کورٹ میںمحکمہ بجلی نے موقف اختیار کیا کہ ٹرانسفارمر سی ڈی اے کے منظور شدہ پلان کے مطابق نصب کیاگیا تھا۔ عدالت نے سی ڈی اے کو طلب کیا۔ سی ڈی اے نے عدالت کی خدمت میں عرض کیا کہ عالی جاہ!ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اس ہیوی ٹرانسفارمر کی تنصیب تو سی ڈی اے پلان کی خلاف ورزی ہے! عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں ادارے ایک ماہ کے اندر اندر اس مصیبت کو شہری کے دروازے سے ہٹا کر کسی مناسب جگہ پر نصب کریں اور شہری کو ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کریں! یہ فیصلہ اب، یعنی ستمبر2022 میں ہوا ہے۔
پچھلے دنوں خبر آئی کہ چنیوٹ میں شوہر کے قتل میں18 سال سے قید رانی بی بی باعزت رہا ہوکر گھر پہنچ گئی۔ رانی بی بی کو 18 سال بعد انصاف ملا۔ رانی بی بی کا بھائی بھی جیل میں اپنی سزا پوری کرکے رہا ہوچکا ہے۔ عدالت نے کہا کہ رانی بی بی کے 18 سال لوٹا نہیں سکتے ہمارے لیے شرمندگی کا باعث ہے کہ ایک خاتون کو اتنی دیر بعد انصاف ملا ہے۔ رانی بی بی کے ساتھ انکے والد بھی تھے جن کا جیل میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔
پھر ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ ڈسٹرکٹ جیل وہاڑی کی موت کی کال کوٹھری میں قید مجرم چوہدری محمد انور قید تنہائی کاٹ رہا تھا، یہ انور کی زندگی کا آخری دن ہونا تھا۔ چند گھنٹوں بعد اُنھیں پھانسی دی جانی تھی ۔ اُن کی اپنے اہلخانہ سے آخری ملاقات ہو چکی تھی۔
جیل ڈاکٹر پھانسی کے پھندے کی تیاری کے لیے چوہدری محمد انور کے گلے اور قد کا ناپ لے چکے تھے۔ زندگی کے آخری مراحل میں ان کی آنکھوں کے سامنے تمام زندگی ایک فلم کی طرح چل رہی تھی۔ ایسے میں جیل عملے کا ایک رکن کوٹھری کے باہر آیا تو انھیں لگا کہ اب پھانسی کا وقت آن پہنچا ہے۔
لیکن انھیں بتایا گیا کہ ہائی کورٹ میں دائر اُن کی اپیل سماعت کے لیے منظور کر لی گئی ہے۔ انور کی پھانسی روک دی جاتی ہے۔ٹھیک چھ سال بعد پاکستان کی سپریم کورٹ محمد انور کی رہائی کا حکم جاری کرتی ہے اور وہ 28سال سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد جیل سے باہر آ جاتے ہیں۔اب آپ بتائیں کہ کیا جیل حکام اُس کی زندگی کے 28سال لوٹا سکتے ہیں؟
قتل کے مقدمے میں سزائے موت پانے والے سید رسول کی لاہور ہائیکورٹ سے بریت کا فیصلہ آنے کے بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ بری ہونے والے ملزم کا دو سال قبل جیل میں انتقال ہو گیا تھا، ِسید رسول کو قتل کے مقدمے میں ماتحت عدالت نے 2013 میں موت کی سزا سنائی تھی اور اسی سال سزا کے خلاف جیل اپیل دائر کی گئی۔
ملزم انتظار کرتا رہا اور 2014میں دل کا دورہ پڑنے سے وہ انتقال کر گیا تھا، لیکن 2017 میں اپیل منظور ہونے کے بعد ملزم کو اس کی رہائی کی اطلاع دینے کے لیے جیل سے رجوع کیا لیکن کوئی رابطہ نہ ہوسکا۔
یہاں سب سے بڑا مسئلہ قوانین پر عمل درآمد کا ہے، اور اسی مسئلے کی وجہ سے نا تو یہاں انویسٹر آتا ہے، نا یہاں کوئی اپنا پیسہ لگانا پسند کرتا ہے اور نہ ہی کوئی اپنی انڈسٹری کو پھیلاتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ہم دنیا کی نظروں میں شاکی ہیں، شاکی تھے اور اگر ہم نے اپنی حالت نہ بدلی تو ہمیشہ شاکی رہیں گے۔