امریکی عدالت کا فیصلہ امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے، فوزیہ صدیقی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے امریکی جیل میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق کیس میں دفتر خارجہ سے رپورٹ طلب کرلی۔
عدالت نے کہاکہ وزارت خارجہ کے وکیل اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ملاقات کروائیں جو آپس میں بیٹھ کر یہ طے کریں کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس میں قانونی اور سفارتی محاذ پر کیا اقدامات اٹھا سکتی ہے۔
سماعت کے دوران درخواست گزار فوزیہ صدیقی اپنے وکیل ڈاکٹر ساجد قریشی کے ہمراہ عدالت پیش ہوئیں، دوران سماعت حکومتی نمائندے نے بتایاکہ 2010ء میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت سے دی گئی سزا کا فیصلہ ابھی تک حکومت پاکستان کو فراہم نہیں کیا گیا۔
عدالت نے کہاکہ حیران کن بات ہے کہ 12 برس میں امریکی عدالت کے فیصلے کی کاپی دفتر خارجہ کو نہیں ملی، نمائندہ دفتر خارجہ نے کہاکہ میں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا کا فیصلہ نہیں پڑھا۔
فوزیہ صدیقی نے کہاکہ امریکی عدالت کا فیصلہ امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے،امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2010ء میں دہشت گردی کے الزام میں 86 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہاکہ کیا دفترِخارجہ ڈاکٹر عافیہ کے مقدمے کو اپنا مقدمہ سمجھتا ہے یا اس کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نجی معاملہ مانتا ہے؟
دفتر خارجہ کے نمائندہ نے کہاکہ ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکیل نے وہاں کی حکومت کو رحم کی درخواست دائر کر رکھی ہے، امریکی حکومت نے پاکستان کو دو آپشنز دیے کہ یا تو ہم قیدیوں کے تبادلے سے متعلق کونسل آف یورپ کے بین الاقوامی کنونشن پردستخط کریں یا اس حوالے سے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ معاہدہ کریں،یہ پیشکش امریکہ نے 2010ء میں کی تھی،وفاقی کابینہ نے اگست 2013ء میں اس معاہدے کی منظوری دی،مگر کونسل آف یورپ نے 2014ء میں پاکستان کی درخواست مسترد کر دی۔
فوزیہ صدیقی نے کہاکہ کونسل آف یورپ کے انکار کی وجہ ہمارے ملک میں سزائے موت کا قانون تھا۔
نمائندہ دفترخارجہ نے کہاکہ آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹس انٹر امریکن کنونشن برائے تکمیل فوجداری سزا، نامی معاہدے کی سمری وزیراعظم کو بھیجی گئی تاہم وزارت قانون نے اس پر کچھ اعتراضات اٹھائے۔
وزارت قانون نے سوال اٹھائے کہ ایسا معاہدہ کرنے کے بعد کیا پاکستان امریکہ کو مطلوب ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے؟۔
اس موقع پر دفتر خارجہ کے افسر نے امریکی محکمہ خارجہ کا 2015ءکا ایک سفارتی نوٹ پڑھ کر سنایا،جس کے مطابق اگر امریکی کنونشن پر دستخط ہو بھی گئے تو امریکہ میں سیاسی فضا ایسی نہیں کہ اس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان کے حوالے کیا جا سکے۔
درخواست گزار ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ امریکی قانون کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مِس ٹرائل کی درخواست بھی مسترد ہو چکی ہے اور اب صرف سزا میں تخفیف کی پٹیشن زیر التوا ہے جس کے لیے پاکستان کو سفارتی کوششیں کرنا ہیں، ڈاکٹر عافیہ کی سزا کے خلاف ناکافی وکالت یا قانونی دفاع کی بنیاد پر مِس ٹرائل کی نئی درخواست بھی دائر کی جا سکتی ہے۔
جسٹس اعجاز اسحاق نے دفترخارجہ کے افسران سے کہاکہ وہ اپنے محکمہ کے وکیل اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی میں ملاقات کروائیں جو آپس میں بیٹھ کر یہ طے کریں کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس میں قانونی اور سفارتی محاذ پر کیا کیا اقدامات اٹھا سکتی ہے،عدالت نے مزید سماعت 28 ستمبر تک ملتوی کردی.
سماعت کے بعد ڈاکٹرفوزیہ صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ عدالت نے کہاکہ دیکھیں رکاوٹ کہاں ہے،دس سال سے یہی میں کہہ رہی ہوں،2016 میں عافیہ صدیقی سے رابطہ ہوا، پھر نہیں ہوا،احمقانہ بات ہے کہ عافیہ صدیقی مجھ سے بات نہیں کرنا چاہ رہیں،عافیہ صدیقی کو حبس بےجا میں رکھا جارہاہے،مجھے 2011 میں بتایاگیاتھاکہ ایک سال کے اندر سب ٹھیک ہوجائےگا،2011 سے آج تک عافیہ صدیقی کے کیس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی،موجودہ حکومت میں کسی سے رابطہ نہیں ہوا۔