گرمیوں کی آمد کراچی کے شہریوں کا امتحان شروع

سروے کے مطابق پاکستان میں پانی کے تین بڑے ذخائر کی گنجائش میں 83 فی صد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔


Abdul Latif Abu Shamil March 21, 2014
سروے کے مطابق پاکستان میں پانی کے تین بڑے ذخائر کی گنجائش میں 83 فی صد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔ فوٹو : فائل

1992 میں اقوام متحدہ نے عالمی یومِ آب منانے کی منظوری دی اب ہر سال 22 مارچ کو دنیا بھر میں یہ دن منایا جاتا ہے۔

اس دن دنیا میں پینے کے صاف پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ پانی کے ذخائر کی ضرورت اور اس سے متعلق وسائل پر سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں ماحولیات اور آبی ذخائر سے متعلق رپورٹس میں بتایا جاتا رہا ہے کہ کرہ ارض پر موجود صاف پانی کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے اور بہت سے ممالک میں شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ غریب اور پس ماندہ ملکوں کے رہائشی 20 سے 70 لیٹر پانی روزانہ استعمال کر پاتے ہیں اور اربوں افراد کو صاف پانی میسر نہیں ہے۔



بعض علاقے تو ایسے ہیں جہاں پانی نایاب ہے۔ حال میں تھرپارکر کی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ عالمی ادارے کی رپورٹس کے مطابق مستقبل میں پانی کی کمی یا نایابی ملکوں کے درمیان جنگ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے پانی کے ذخائر بڑھانے اور اس کے وسائل کی حفاظت کرنے کے لیے اقدامات کے ساتھ ضروری ہے کہ حکومتیں اپنے شہریوں کو پانی کی بچت پر آمادہ کریں اور اس سلسلے میں آگاہی دیں۔



پاکستان کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ پانی کی کمی کا شکار ہونے والے 17 ملکوں میں ہوتا ہے۔ ملک کے مختلف پس ماندہ علاقوں میں بسنے والوں کے لیے پانی کا حصول ایک سنگین مسئلہ ہے جب کہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے پانی کی طلب بڑھ رہی ہے۔ بعض علاقوں میں عوام مضرِ صحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور پینے کے لیے صاف پانی کو ترستے ہیں۔



عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ملک کی صرف 18 فی صد آبادی کو معیار کے مطابق پینے کا صاف پانی دست یاب ہے۔ پاکستان میں ڈیموں کی اشد ضرورت ہے تاکہ پانی ذخیرہ کیا جاسکے، مگر اب تک اس اہم مسئلے کا حل تلاش نہیں کیا جاسکا اور کوئی ڈیم تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔

ڈیموں کی تعمیر پر سیاسی راہ نماوں اور صوبوں میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا اور یوں یہ انتہائی مسئلہ جوں کا توں ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پانی کے تین بڑے ذخائر کی گنجائش میں 83 فی صد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔ حکومتیں اس سلسلے میں غور و فکر کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام ہیں۔ ماضی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جاری کردہ مالیاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک میں پانی کی کمی شدت اختیار کر گئی ہے جس کے لیے نئے آبی ذخائر بنانا ضروری ہو گیا ہے ورنہ مستقبل میں صورت حال خراب ہوسکتی ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کے لیے اپنے آبی وسائل کا 90 فی صد زرعی استعمال ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں اور بارشوں میں کمی کی وجہ سے بھی آبی مسئلہ سنگین تر ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دریاؤں کے بہاؤ میں مسلسل کمی آ رہی ہے جب کہ ہمارے پانی کا بڑا حصہ عمر رسیدہ اور بوسیدہ نہری نظام کی وجہ سے کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی ضایع ہو جاتا ہے۔



ایک غیرملکی محقق کا کہنا ہے کہ اب پاکستان کی آبادی اور زراعت کا انحصار زیادہ تر صرف ایک دریا پر ہی ہے جب کہ پانی کی کمی سے متاثر ہونے والے زرعی نظام کے اثرات رفتہ رفتہ پاکستان میں خوراک کی صورت حال کو مزید خراب کریں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ہمارے لیے ایسی فصلیں کاشت کرنا ممکن نہیں رہے گا جنہیں زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر گنا اور چاول کے لیے وافر پانی درکار ہوتا ہے۔ پانی کی شدید قلت کے پیش نظر اب ہمیں اپنی غذاؤں میں بھی توازن پیدا کرنا ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق ہم تقریباً 30 لاکھ ایکڑ فٹ استعمال شدہ پانی جھیلوں، چشموں اور ندی نالوں میں بہا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا قدرتی آبی ماحول تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔

صاف پانی کا استعمال عام اور ضروری ہے اور ہمارے ہاں بڑی آبادی کو یہ میسر نہیں ہے۔ خصوصاً موسم گرما میں صورت حال نہایت سنگین ہو جاتی ہے۔ سردیاں جا چکی ہیں اور اب گرمی کا موسم کراچی کے عوام کا امتحان لینے آگیا ہے۔ ابھی گرمی کا آغاز ہی ہوا ہے اور شہر بھر میں پانی کی قلت کا مسئلہ سر اٹھا رہا ہے۔ شدید گرمیوں میں یہ صورت حال نہایت بھیانک ہو جائے گی۔ کراچی میں گذشتہ دنوں مختلف علاقوں میں شہری پانی کی عدم فراہمی کی شکایت کرتے ہوئے نظر آئے۔



متعلقہ اداروں کی جانب سے مسئلہ حل نہ کیے جانے پر بلدیہ ٹاؤن، قیوم آباد، شیر شاہ، گل بہار، لیاقت آباد، اورنگی، پاپوش نگر، پاک کالونی، منظور کالونی، محمود آباد، چنیسر ٹاؤن، جہانگیر روڈ، کیماڑی اور دوسرے علاقوں میں شہریوں نے سڑکوں پر آکر احتجاج کیا اور ٹریفک جام کر دیا۔ کراچی واٹر بورڈ اور بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے مابین تنازع بھی شہریوں کو مصیبت میں ڈال دیتا ہے۔ دونوں ادارے ایک دوسرے پر اس کی ذمہ داری ڈالتے رہتے ہیں۔ واٹر بورڈ کے حکام بجلی کی عدم فراہمی کو جواز بناتے ہوئے پمپنگ اسٹیشنوں سے پانی کی معمول کے مطابق فراہمی میں رکاوٹ بتاتے رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت آبی وسائل کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیموں کی فوری تعمیر پر توجہ دے اور اس سلسلے میں قومی اتفاق رائے پیدا کرے ۔ شہریوں کے لیے پانی کی مسلسل فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن یہ شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ پانی کفایت سے استعمال کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں