ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ سیلاب اور معاشی ترقی
اس وقت چونکہ پاکستان کی پوری معیشت سیلاب میں ڈوب چکی ہے اور بحالی کا انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے
دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کا پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے جلد ہی تیز رفتاری کے ساتھ پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان صنعتی ممالک کی غفلت اور کوتاہی کا خمیازہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر برداشت کر رہا ہے۔
اس وقت ملک کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے جو ڈوبا ہوا ہے۔ جہاں پہنچنے کے لیے راستے نہیں مل رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ آج پاکستان اس کا شکار ہوا ہے ، کل کوئی اور ملک اس کی زد میں آجائے گا۔ اتفاق سے انھی دنوں اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس بھی جاری ہے۔
جس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ہے کہ دنیا سیلاب میں ڈوبے پاکستان کی مدد کرے، موسمیاتی تبدیلیوں سے مل کر نمٹیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کی قیمت انسان کو چکانا پڑ رہی ہے، بات دراصل یہ ہے کہ اس وقت تو پاکستان نے وہ قیمت چکائی ہے جو اس کی برداشت سے باہر ہے اور یہ ناقابل تلافی نقصان جس کا سلسلہ اب مزید دراز ہوتا چلا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی نمایندہ خصوصی کا کہنا ہے کہ بھرپور امداد نہ پہنچی تو بچنے والے بھی نہیں بچیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ متاثرین کو خوراک ، شیلٹر، طبی سہولیات کی ہنگامی ضرورت ہے، دنیا کو جاگنا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئی بھی امدادی سرگرمی دیکھی تو دیکھا وہ پاک فوج کر رہی ہے۔
جہاں تک فوج کی جانب سے امدادی سرگرمیوں کی بات ہے تو ملک کا کوئی گوشہ ہو یا کوئی بھی موقعہ ہو، سیلاب ہو قدرتی آفات ہوں، زلزلے ہوں یا کوئی بھی غیر معمولی حادثہ ہو تو فوج ہی ہے جو ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنے ہم وطنوں کے لیے ہمہ وقت اور ہر جگہ ہر مشکل ترین حالات میں ان کی امداد کے لیے پہنچ جاتی ہے۔
فوج اپنے وسائل کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے ایسی جاں فشانی اور منظم طریقے سے انتہائی ہمدردی اور بے لوث خدمت کے جذبے سے متاثرین کو ہر ممکن طریقے سے امداد پہنچا رہی ہے۔
اس وقت پاکستان کو جس طرح نقصان پہنچ چکا ہے جس کی تلافی کے لیے اور متاثرین کی بحالی کے لیے ایک عرصہ درکار ہے اور ساتھ ہی بڑی بھاری مالی امداد کی بھی ضرورت ہے۔ متاثرین سیلابی پانی کے ساتھ مچھروں کی افزائش کے باعث ڈنگی، گیسٹرو اور دیگر کئی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔
ان امراض کے باعث بھی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ مختلف ممالک کی جانب سے پاکستان کو امداد کی کھیپ بھی پہنچ رہی ہے لیکن تقسیم میں شفافیت اور ہر کسی تک امداد کا پہنچ جانا یہ ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ اس کا دار و مدار نیک نیتی، اخلاص، انسانی ہمدردی اور لالچ سے پاک ہونے اور ایمان داری پر مبنی ہے۔ اب بھی اخباری اطلاعات کے مطابق بعض شخصیات کے پاس سے امدادی سامان کی موجودگی کے بارے بتایا جا رہا ہے۔
لہٰذا حکومت چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی اس سلسلے میں گہری نظر رکھے کہ اب اور آیندہ بھی ان متاثرین کی بحالی کے لیے جو امداد دی جائے وہ جائز حق دار کے پاس اس کا جائز حصہ ضرور بالضرور پہنچ کر رہے۔ بہت سی جگہوں پر پانی کی نکاسی نہ ہونے کی شکایات بھی موصول ہو رہی ہیں۔
اس سلسلے میں شہریوں کی جانب سے احتجاج بھی کیا جا رہا ہے ، لیکن پھر بات یہ ہے کہ بعض علاقوں کی انتظامیہ اب بھی اس قدر خوف ناک صورت حال کو دیکھتے ہوئے بھی فعال اور متحرک نہیں ہو رہی ہے تو پھر امداد کی تقسیم میں کس قدر شفافیت ہوتی؟ یہ بھی ان کے رویے سے ظاہر ہو رہا ہے۔ اب جلد ہی امدادی رقوم کی تقسیم کا مرحلہ درپیش ہوگا اور یہ امدادی رقوم اس لیے دی جائیں گی تاکہ متاثرین اپنے مکانات بنا سکیں۔
اپنی زمینوں کی کاشت کاری کے لیے بیج، ادویات، کھاد اور دیگر کاشت کاری کے آلات جو سیلاب کے باعث بہہ چکے ہیں ان کی خریداری کے لیے رقوم صرف کرسکیں۔ یہاں پر پھر کرپشن اور اخراجات اور معاشی ترقی کا ایک تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ اس معاشی جائزے میں جس کی نشان دہی کرنا ضروری ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ حالیہ بدترین سیلاب، مالیاتی اور بیرونی ادائیگیوں میں توازن کے لیے سخت گیر پالیسی کی وجہ سے مالی سال 2023 میں پاکستان کی معیشت کی نمو کی شرح 3.5 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔
بینک کے مطابق حالیہ بدترین سیلاب نے پاکستان کے معاشی منظرنامے کے لیے بڑے خطرات و خدشات پیدا کیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ سیلاب کے بعد تعمیر نو اور بحالی کی سرگرمیوں کے لیے خاطرخواہ بین الاقوامی معاونت حاصل ہوگی جس سے نمو میں اضافے کے علاوہ سماجی ترقی اور معاشرے کے معاشی طور پر کمزور طبقات کو محفوظ بنانے میں مدد ملے گی۔
اس وقت چونکہ پاکستان کی پوری معیشت سیلاب میں ڈوب چکی ہے اور بحالی کا انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے۔ اس کے ساتھ ہی جلد ہی ایک بار پھر آئی ایم ایف کے رویے سے پھر نمٹنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ڈالر کی اونچی اڑان جاری ہے جوکہ 245 روپے تک جا پہنچی ہے اور مزید اضافے کا امکان ہے۔ برآمدات اس لیے داؤ پر لگ چکی ہیں کہ اس کے لیے خام مال ڈالر کے باعث مہنگا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ افراط زر کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
اس معاشی پس منظر میں اگر امدادی رقوم کی تقسیم میں شفافیت نہ لائی جاسکی وہ بھی کرپشن میں لتھڑی ہوئی ہو، کچھ مال بانٹا، کچھ ادھر ادھر ہوگیا تو آیندہ چل کر معاشی ترقی کی شرح کا 3.5 فیصد تک کا حاصل ہونا مشکل امر ہے ، کیونکہ جب بھی امدادی رقوم اصل متاثرین تک پہنچتی ہیں وہ اسے خرچ کرتے ہیں۔
اپنے مکانات کی تعمیر کے لیے، کاشتکاری کے آلات کی خریداری کے لیے، ضروریات زندگی کے استعمال کے لیے، زرعی پیداوار میں اضافے کی خاطر اس میں سے خرچ کرتے ہیں، اپنی ضرورت کی اشیا کی خریداری کے لیے خرچ کرتے ہیں، لہٰذا ان کے پاس رقوم پہنچیں گی تو وہ اسے استعمال کریں گے۔ اس لیے اشیا کی رسد بڑھانا ہوگی جس کے لیے کارخانے دن رات کام کریں گے اور معاشی ترقی کا پہیہ گھومے گا۔
بالآخر معاشی ترقی کی شرح 3.5 فی صد کے آس پاس رہنے کی توقع ہے ، اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ پائیدار معاشی ترقی کے حصول میں مددگار ہوگا۔ دنیا کے ممالک موسمیاتی تبدیلی کے پائیدار حل کی تلاش میں ہیں۔
پاکستان جوکہ موسمیاتی تبدیلی کا شکار ملک ہے اسے مستقبل میں پائیدار معاشی ترقی کے حصول میں بین الاقوامی امداد کا بھی اہم کردار ہوگا کیونکہ ان امداد کا تقریباً تمام تر حصہ اگر بالکل صحیح طور پر متاثرین تک پہنچ جاتا ہے اور خرچ ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان تمام رقوم کا اگر درست استعمال ہو جائے تو پائیدار معاشی ترقی کی طرف پاکستان کا قدم اٹھ جانے پر ہی ایشیائی ترقیاتی بینک کی یہ بات درست ثابت ہو سکتی ہے کہ بین الاقوامی معاونت کے ساتھ نمو میں اضافے کے علاوہ سماجی ترقی اور معاشرے کے معاشی طور پر کمزور طبقات کو محفوظ بنانے میں مدد ملے گی۔