نیا منظر
ہماری موجودہ اسٹیبلشمنٹ ضیا الحق کی باقیات سے نکلتی نظر آرہی ہے
خان صاحب نے اپنی ساری سیاست میدان جنگ بنادی ہے۔اب یہ سیاست کرکٹ کا میدان نہیں رہی یا پھر یوں کہا جائے کہ اب کوئی معجزہ ہی خان صاحب کو جتا پائے،یہ وہ جنگ ہے جس میں خود میدان ہی داؤ پر لگا ہوا ہے مگر خان صاحب کو پرواہ ہی نہیں کہ میدان کی ہر جانب پانی ہی پانی ہے، روشنی کا تناسب بھی کم ہے اور ان کو بال نظر بھی نہیں آرہی ہے۔
نہ ہی ان کو بلے باز کی شکل، نہ اسکور بورڈ نظر آرہا ہے مگر خان صاحب ہیں کہ کھیلے ہی جارہے ہیں۔خان صاحب کم ازکم یہ بتانے میں تو کامیاب ہو گئے ہیں کہ ان کو بہت جلدی ہے کہ اگر ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں ۔
بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ خان صاحب اب جنگ ہار چکے ہیں۔بس رسمی طور پر اس کا اعلان باقی ہے ۔ملک آفتوں سے دوچار ہے،افراتفری کا عالم ہے مگر خان صاحب جلسوں پر جلسے کیے جا رہے ہیں، دھمکی پر دھمکی دیے جا رہے ہیں۔اب آگے ایک بند گلی ہے جہاں نظر آرہا ہے کہ وہ پھنس چکے ہیں۔ ان کو یہ گماں ہے کہ وہ اب بھی لاڈلے ہیںجب کہ اب وہ حالات نہیں ہیں۔ایسے وقتوں میں انتظار کیا جاتا ہے کہ قسمت کی دیوی پھر کب مہربان ہو ۔
جیل کی سلاخوں کے پیچھے اور تختہ دار پر چڑھتے ہوئے بھی بھٹو صاحب نے ایسی باتیں نہیں کیں جو خان صاحب آجکل کر رہے ہیں۔میرا یہ کالم شایع ہونے تک وہ اپنی تحریک کا پہلا دن گذار چکے ہوںگے یا پھر ملتوی کردی ہوگی تحریک ، یقینا بڑی مایوسی کا سامنا ان کو کرنا پڑا ہوگا، یہ اس لیے کہ وہ پہلے بھی اسلام آباد کو فتح کر نے کی کال دے چکے ہیںاور مشکل سے صرف پندرہ ہزار لوگ ہی جمع کر پائے،اگر ایک لاکھ لوگ جمع ہو جاتے تو انقلاب دراصل اسی دن آ چکا ہوتا۔
پاکستا ن کی تاریخ کا انتہائی نرالا تجربہ کرنے چلے ہیں خان صاحب۔اپنی سیاست کو ایک ایسے موڑ پر لے آئے جہاں مفاہمت کے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد شہباز گل کو چپ سی لگ گئی ہے۔ایسے کئی اور بھی ہیں جن کے بارے میں خود خاں صاحب نے خدشات ظاہر کر دیے ہیں جو انھیں بائی پاس کرکے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈائریکٹ ہوگئے ہیں۔
ایک طرف پارٹی کے اندر توڑ پھوڑ شروع ہو چکی ہے اور دوسری طرف کورٹس کی طرف سے ان کے خلاف فیصلے متوقع ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کچھ ایسے فیصلے ہو چکے ہیں جن سے اب صرف پردہ اٹھانا باقی ہے،پھر جن بیساکھیوں پر اب تک وہ چل رہے تھے وہ بھی اب چھننے والی ہیں۔
خان صاحب نے چوہدری پرویز الٰہی کے لیے بھی مسائل کھڑے کردیے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایسے کئی کنسٹرکشن کا کام کرنے والے لوگ ہیں ان کے لیے بھی۔چلیں کوئی بات نہیں ایسے موقعے ان لوگوں نے بھی کمائے جو ہمارے بھٹو صاحب کے دو چار قریبی تھے۔آجکل تو خان صاحب ، ضیا الحق کے فرزند اعجاز الحق کے ساتھ بہاولپور میں ایک گاڑی میں نظر آ رہے ہیں، اور اعجاز الحق ان کی گاڑی چلا رہے ہیں ۔
اکتوبر میں ایک وفد ایف اے ٹی ایف کی طرف سے یہاں آنے والا ہے۔ خان صاحب کی سیاست بس اب یوں کہیے کہ ایف اے ٹی ایف کے ٹکرائو میں آگئی ہے۔ملک کے لیے ایف اے ٹی ایف کے لگائے گئے قدغن کا معاملہ دراصل روٹی پانی کا معاملہ ہے۔خان صاحب جو فلسفہ بیان کر رہے ہیں اسے ترکیہ سے لے کر مشرق وسطیٰ تک کے تمام اسلامی ممالک خیرباد کہہ چکے ہیں ۔ خان صاحب کی باتیں سننے میں اچھی ہیں مگر ان کے نتائج اچھے نہیں ہیں۔
یہ بے چارے سیلاب میں ڈوبے بھی ملک کے کام آگئے،ہم جو شاہ محمود قریشی کی ناکام خارجہ پالیسی لے کر چلے تھے ، جس میں ہم تمام ممالک سے کٹ کر رہ گئے تھے مگر اب بلاول بھٹو کے وزیر خارجہ بننے کے بعدوہ تمام راہیں ہموار ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں جس سنگین سیلاب سے ہم دوچار ہوئے ہیں شاید ہی دنیا میں ایسا سیلاب کہیں آیا ہوگا۔
اقوام عالم نے اس سنگین صورتحال کو محسوس کیا۔ثمر قند میں ہم ایک ایسے بلاک کی دعوت پر گئے جہاں پیوٹن بھی مدعو تھے مگر شہباز شریف وہاں دوسرے نمبر پر توجہ کا مرکز رہے، اس کی وجہ یہ سیلاب کی تباہ کاریاں تھیں اور ہم سے دنیا کی ہمدردیاں تھیں۔بعدازاں شہباز شریف نیو یارک ،اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مدعو کیے گئے اس اتنے بڑے اجلاس میں بھی موضوعِ بحث، پاکستان میں شدید سیلاب کی تباہ کاریاں تھیں۔
اس کانفرنس میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زیادہ فوکس کیے گئے۔سب ان سے ملے اور لگ بھگ ایک ارب کے قرضے جن کی ادائیگیاں پاکستان نے کرنی تھیں وہ موخر کی گئیں اور اسی طرح سے قرضے ڈیفر ہونی کی بھی توقعات ہیں۔
اربوں ڈالر امداد بھی متوقع ہے،جو حیران کن بات ہے وہ یہ ہے کہ پچھلے چند ماہ میں پاکستان کی exports میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے،کیونکہ دنیا میں ڈالر مہنگا ہو رہا ہے اس لیے امریکاکی سینٹرل بینک نے ایک بار پھرمتوقع کساد بازاری کی وجہ سے interest rate بڑھا دیا ہے اور دوسری طرف ہمارے balance of payme پر شدید پریشر ہے کہ پاکستان کو خوراک کے حوالے Importsکا برڈن بڑھتا جا رہا ہے۔
ہماری موجودہ اسٹیبلشمنٹ ضیا الحق کی باقیات سے نکلتی نظر آرہی ہے ۔ ہم نے جو بیانیہ ان چالیس سالوں میں بنایا، وہ کہیں ایک رات میں تو ختم نہیں ہو سکتااور آج اس بیانیے کے سب سے بڑے کھلاڑی خود خان صاحب ہیں۔