خالی ہاتھ اور منتظر نگاہیں
یہ بات بظاہر شاعری کی دنیا کی ہے مگر یہ حقیقت کی دنیا کے لیے بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے
ایک فارسی کے شاعر نے کہا تھا کہ ہم نے اپنے دوست سے سو بار جنگ کی اور سو بار صلح کی مگر اس کو ہماری جنگ اور صلاح کی خبر بھی نہ ہو سکی ، کیونکہ یہ سب کچھ ہم خود ہی خود اپنے اندر ہی کرتے رہے ہیں۔
صد بار جنگ کردہ بہ او صلح کردہ ایم
اور اخبر نہ بودہ ز صلح و ز جنگ ما
یہ بات بظاہر شاعری کی دنیا کی ہے مگر یہ حقیقت کی دنیا کے لیے بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ کسی بڑے مقصد کے حصول کے لیے جس صلاحیت کے حامل افراد درکار ہوتے ہیں وہ بھی عین وہی صلاحیت ہے جس کا ذکر مذکورہ شعر میں کیا گیا ہے۔ یعنی اپنے اندر پیدا ہونے والی کسی بھی شکایت کو خود ہی اپنے اندر ہی اندر ختم کر لینا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی بڑا مقصد کوئی شخص تنہا حاصل نہیں کرسکتا۔ ہر بڑے مقصد کے حصول کے پس پردہ بہت سے لوگوں کی مربوط ، منظم اور متحدہ کوششیں بھی لازمی ہوتی ہیں ، مگر متحدہ کاوشوں کا عمل ایک مسئلہ بھی پیدا کردیتا ہے اور وہ ہے افراد کا باہمی اختلاف۔ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ کسی بھی حوالے سے جب بہت سے لوگ مل کر کام کریں تو ان کے درمیان طرح طرح کی شکایتیں ، تلخیاں ، اختلاف رائے اور عدم اتفاق جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ تقسیم کے فارمولے میں کبھی کسی کو کم ملتا ہے اورکسی کو زیادہ ، کسی کو با اعتبار عہدہ اونچی جگہ ملتا ہے اور کسی کو نیچی۔
کسی کی کوئی بات دوسرے کے لیے ناگوار اور تکلیف دہ ہوتی ہے اور کبھی کسی کا کوئی عمل دوسرے کو اپنے مفاد کے خلاف نظر آتا ہے۔ غرض بار بار ایک دوسرے کے درمیان ایسی باتیں پیدا ہوتی ہیں اور ایسے متنازعہ مسائل جنم لیتے ہیں جو بظاہر متحد رکھنے والوں کے درمیان درون خانہ دوریاں اور فاصلے پیدا کردیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر قابل عمل حل صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر آدمی ایک خود اصلاحی مشین بن جائے۔
وہ اپنے اندر پیدا ہونیوالے ہیجان کو خود ہی ٹھنڈا کرے۔ دوسروں سے پیدا ہونے والی شکایتوں کو خود اپنے اندر ہی اندر ٹھنڈا کرے اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھے۔خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے جب خالد بن ولیدؓ کو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کیا تو فطری طور پر ان کے دل میں شدید ردعمل پیدا ہوا ، مگر انھوں نے خود سے یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن کرلیا کہ تم جو کچھ کر رہے تھے وہ خدا سے انعام پانے کی امید میں کر رہے تھے۔
پھر تم کو حضرت عمرؓ سے خفا ہونے اور بدگمان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے یہ خیال آتے ہی حضرت عمر فاروقؓ سے شکایت کرنے کے بجائے خود اپنی اصلاح کر لی۔ جو لوگ بڑے مقصد کے حصول کے لیے سرگرداں رہتے ہیں وہ ہر مرحلے پر خود احتسابی کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔ ان کے اندر صبر ، تحمل ، برداشت ، ایثار ، قربانی ، نفس کشی ، خدمت گزاری ، حقوق کی پاسداری، قانون کا احترام اور مخلوق خدا کی بہبود جیسے پاکیزہ جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ وہ ذاتی و انفرادی مفادات کو اجتماعی و قومی و ملکی مفاد پر قربان کردیتے ہیں اور تاریخ میں ایک بلند مقام حاصل کرلیتے ہیں۔
دنیا ہمیشہ انھیں اچھے نام سے یاد رکھتی ہے۔آج ہم من حیث القوم خودغرضی و مفاد پرستی کے جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں وہ ہرگز قابل ستائش نہیں ہے۔ عوام سے لے کر خواص تک مفادات کے حصول کی دوڑ لگی ہوئی ہے جن لوگوں کو قوم کی رہبری و رہنمائی کا دعویٰ اور جو ملک کی منجدھار میں ڈولتی ناؤ کو کنارے لگانے کے دعویدار ہیں جو ذاتی، سیاسی اور خاندانی مفادات کو ملک و قوم کی خاطر قربان کرنے کا نعرہ بلند کرتے ہیں، جو کہتے تھے کہ ہمارا اتحاد عوام کے تمام مسائل کو حل کردے گا، انھیں غربت، بے روزگاری، بھوک، افلاس، تنگ دستی اور مہنگائی کے عذاب سے نجات دلائے گا۔
آج وہ سیاسی اتحاد چار ماہ سے زائد عرصے سے اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہے۔ ان کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ ذاتی و سیاسی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے نیب قوانین میں من مانی ترامیم پاس کروا کے بڑے سیاسی کھلاڑیوں نے اپنے خلاف نیب قوانین کے تحت قائم کرپشن کے مقدمات واپس کروا لیے۔ یہ ابتدا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔دوسری طرف مہنگائی کے خاتمے کا دعویٰ کرنے والی پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے دور میں مہنگائی کا 75 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔
پٹرولیم مصنوعات سے لے کر بجلی، گیس کی قیمتوں تک، ڈالر کی اونچی اڑان سے لے کر روپے کی ناقدری تک اور ضروریات زندگی کے استعمال کی عام اشیا سے لے کر کھانے پینے کی تمام چیزوں آٹے، چاول، چینی، گھی، تیل، گوشت اور سبزی تک ہر شے کے نرخوں میں قومی تاریخ کا بلند ترین اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔
گندم پیدا کرنے میں ہم خود کفیل ہوا کرتے تھے بلکہ دوسرے ملکوں کو برآمد کرکے زرمبادلہ بھی حاصل کرتے تھے۔ آج یہ حالت ہے کہ آٹے کی قیمت 120 روپے فی کلو سے اوپر جا چکی ہے ایک عام مزدور دیہاڑی دار آٹا خریدنے سے بھی قاصر ہے۔ اس کے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت کے بڑے معاشی دماغوں نے ایسی بے مثال اجتماعی دانش کا مظاہرہ کیا ہے کہ غریب کے بچوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا ہے۔
ادھر سیلابی پانیوں میں ڈوبے ملک کے تین کروڑ سے زائد افراد کی مشکلات میں ہر گزرنیوالے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سردیوں کا موسم جوں جوں قریب آ رہا ہے کھلے آسمان تلے پڑے بے سہارا مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے افراد کی فکرمندی اور اضطراب بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ سیلاب متاثرین رہائش، کھانے پینے کی اشیا سے محروم اور طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔
شہباز حکومت بار بار ریلیف فراہم کرنے کے دعوے کر رہی ہے، کبھی نقد رقوم اور کبھی امدادی اشیا فراہم کرنے کے وعدے کر رہی ہے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ سیلاب متاثرین کو صحیح معنوں میں کوئی قابل ذکر امداد فراہم نہیں کی جا رہی ہے ، آج سوشل میڈیا کا دور ہے۔ ایسی ایسی دلخراش سانحے پر مبنی سیلاب متاثرین کی وڈیوز وائرل ہو رہی ہیں کہ الحفیظ الامان اور حکومت ہے کہ لسی پی کے سو رہی ہے۔ اقوام متحدہ سے لے کر ورلڈ بینک تک اور امریکا سے لے کر چین تک امداد کی فراہمی کے اعلانات سامنے آ رہے ہیں لیکن سیلاب متاثرین کے خالی ہاتھ اور منتظر نگاہیں سوال کر رہی ہیں کہ وہ امداد کہاں ہے؟ ان تک کیوں نہیں پہنچ رہی ہے؟