جے یو آئی ف کی بلوچستان حکومت میں شمولیت کی افواہیں
ان خبروں سے حکمران جماعت اور اتحادی جماعتوں میں کھلبلی سی مچی ہوئی ہے
بلوچستان کی سیاست کا درجہ حرارت کبھی گرم اور کبھی سرد ہو رہا ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کی بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شمولیت کے حوالے سے خبریں سوشل میڈیا سمیت اخبارات و الیکٹرانک میڈیا کی زینت بن ہوئی ہیں لیکن صورتحال واضح نہیں ہو رہی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور جمعیت علماء اسلام (ف) کی صوبائی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی تواتر سے جاری ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کی قیادت بھی ایک دوسرے سے رابطے میں ہے۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل اور جے یو آئی (ف) کے صوبائی امیر ووفاقی وزیر مولانا عبدالواسع کے درمیان ملاقات ہوچکی ہے جس میں جے یو آئی (ف) کے بلوچستان حکومت میں شامل ہونے کا معاملہ زیر بحث آیا اس سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کراچی میں سردار اختر مینگل سے ملاقات کر چکے ہیں اور دوبارہ انہوں نے اسلام آباد میں سردار اختر مینگل سے ملاقات کی ہے جو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی رہائش گاہ پر ہوئی جس میں چیئرمین سینیٹ بھی موجود تھے۔
اس سے قبل اسلام آباد میں مولانا واسع سے ملاقات کے بعد کوئٹہ میں بھی وزیراعلیٰ بلوچستان بزنجو نے مولانا واسع سے ملاقات میں مزید سوچنے کیلئے وقت مانگا ہے جبکہ اس سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو جو کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر بھی ہیں نے اپنی جماعت کے اندر بھی جو اختلافات تھے انہیں دور کرنے کیلئے متحرک نظر آئے۔
انہوں نے اپنی جماعت کے ان ارکان اسمبلی جنہوں نے ان کی حکومت کی تشکیل کے وقت مخالفت کی تھی اور سابق وزیراعلیٰ جام کمال کے کیمپ میں تھے سے رابطہ کیا اور انہیں ''رام'' کیا جن میں نوابزادہ طارق مگسی، سلیم کھوسہ، عارف محمد حسنی قابل ذکر ہیں۔
اسکے علاوہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینیٹر منظور کاکڑ جو کہ کچھ عرصے سے ان پر تنقید کر رہے تھے دونوں کے درمیان غلط فہمیاں دور کر لی گئیں ہیں اب یہ اطلاعات ہیں کہ وزیراعلیٰ بزنجو اور سابق وزیراعلیٰ جام کمال کے درمیان ایک ''بیٹھک'' کوئٹہ میں ہونے والی ہے؟ سیاسی حلقوں کے مطابق وزیر اعلیٰ بزنجو اپنے ''پتے'' بڑے محتاط انداز میں کھیل رہے ہیں ۔
ایک طرف انہوں نے اپوزیشن جماعت جے یو آئی (ف) کو بلوچستان حکومت میں شامل کئے جانے کے اشارے دیئے دوسری طرف کمال سیاسی مہارت سے اپنی جماعت کے اندر اختلافات کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اتحادی جماعتوں کو بھی یہ تاثر دیا ہے کہ ان کی وکٹ فی الحال مضبوط ہے کیونکہ یہ خبریں بھی آرہی تھیں کہ جے یو آئی (ف) کی بزنجو حکومت میں شمولیت کیلئے اتحادی جماعتوں سمیت حکمران جماعت بی اے پی سے بھی بعض وزرا ء کو فارغ کیا جا سکتا ہے؟
ان خبروں سے حکمران جماعت اور اتحادی جماعتوں میں کھلبلی سی مچی ہوئی ہے؟ تاہم اس تمام صورتحال میں وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ وہ کسی کو نکالنے کے حق میں نہیں ہیں اور سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں؟ سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو 18ویں ترمیم کے تحت اپنی کابینہ میں 14وزراء اور 5 مشراء سے زیادہ نہیں لے سکتے؟ اس وقت 14میں سے 13وزراء کابینہ کا حصہ ہیں۔
یقیناً جے یو آئی (ف) کی شمولیت کے بعد انہیں کابینہ سے دو سے تین وزراء کو فارغ کرنا ہوگا؟ شاید اسی لئے وہ جے یو آئی (ف) سے وقت مانگ رہے ہیں اور سوچ بچار کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے اپنی جماعت بی اے پی کے پارلیمانی گروپ اور اتحادیوں کو بھی مضبوط کیا ہے؟ اور وہ وکٹ کے دونوں جانب جس طرح سے جارحانہ کھیل رہے ہیں اور جس تیز رفتاری سے رنز بنا رہے ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کم گیندوں پر زیادہ رنز بنانا چاہتے ہیں۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق وزیر اعلیٰ بزنجو کے ذہن میں اس وقت کیا چل رہا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے؟ لیکن اگر وہ اس رفتار سے اننگز کھیلتے ہیں تو انہیں اپنے ارد گرد کھڑے ''فیلڈرز'' سے بھی محتاط رہنا چاہئے جو کہ کسی بھی غلط ہٹ پر انہیں کیچ کر کے آؤٹ کر سکتے ہیں۔
لہذا ضرور ت اس امر کی ہے کہ وہ ہر گیند پر سیاسی ''چھکا'' لگانے کی کوشش کرنے کے بجائے اسی گیند کو باؤنڈری سے باہر پھینکے جو کہ ''نو بال'' ہو۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان میں آئے روز سیاسی صورتحال میں تبدیلیوں کے بادل منڈلاتے ہیں ایسی صورتحال میں بلوچ قوم پرست جماعتوں کے درمیان سنگل بلوچ پارٹی یا الائنس کے ایجنڈے پر بھی کام ہو رہا ہے جس کے لئے سابق وفاقی وزیر اور بی این پی عوامی کے سربراہ میر اسرار زہری سرگرم ہیں اسی طرح یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پاکستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور صوبائی وزیر صحت سید احسان شاہ اپنی جماعت کو بی این پی میں ضم کرنے پر سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں گزشتہ دنوں انہوں نے اس حوالے سے کراچی میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل سے ملاقات کی ہے جس کے بعد انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں سے مشاورت کا آغاز کر دیا ہے۔
پاکستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سید احسان شاہ بھی سنگل بلوچ پارٹی یا بلوچ قوم پرست جماعتوں کے الائنس کے حامی ہیں اور وہ بھی بلوچ قوم پرست جماعتوں کی قیادت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں بی این پی میں پارٹی کے انضمام کے معاملے سے ان کے نزدیک ان کاوشوں کو تقویت ملے گی۔ یہاں یہ بات بھی زیر گردش ہے کہ سابق صوبائی وزراء اسلم بلیدی اور میر اصغر رند سے بھی سید احسان شاہ رابطے میں ہیں۔
ان کی کوشش ہے کہ بی این پی میں اپنی پارٹی کے انضمام کے علاوہ ان دونوں سیاسی شخصیات کو بھی بی این پی میں شامل کرا کے مکران ڈویژن بی این پی کی سیاسی پوزیشن کو مزید مستحکم بنایا جا سکے۔ سابق وفاقی وزیر میر اسرار اللہ زہری نے اپنی جماعت بی این پی عوامی کو مضبوط بنانے کیلئے سابق صوبائی وزیر میر عاصم کرد گیلو اور سابق مشیر خزانہ میر خالد لانگو کو بھی پارٹی میں باقاعدہ شمولیت کی دعوت دی ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے بلوچ سنگل پارٹی الائنس کے حوالے سے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی سے بھی رابطہ کیا اور ان سے ملاقات میں اس حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں آنے والے دنوں میں بعض سیاسی اتحاد بنیں گے اور بعض اتحاد ٹوٹیں گے جبکہ بلوچ قوم پرست جماعتوں میں بھی ٹوٹ پھوٹ ہو گی کیونکہ بی این پی عوامی کے سیکرٹری جنرل و صوبائی وزیر زراعت میر اسد بلوچ پارٹی کے صدر میر اسرار زہری کے ان رابطوں سے لاتعلق دکھائی دے رہے ہیں انکے قریبی ذرائع کاکہنا ہے کہ میراسرار زہری نے سنگل بلوچ قوم پرست جماعت یا الائنس کے حوالے سے پارٹی کو اعتمادمیں نہیں لیا ہے کیونکہ اس حوالے سے پارٹی کے اندر بعض تحفظات ہیں جنہیں دور کرنا ناگزیر ہے ۔