چار وزرائے اعظم کے پریس سیکریٹری کی باتیں
2006 میں بھارت کے تاج ہوٹل میں منعقدہ سیمینار میں ایم کیو ایم کے بانی بھی مدعو تھے
درباری کلچر کی اصطلاح تو بچپن سے سنتے آئے تھے ،1992 میں میری وزیراعظم کے اسٹاف آفیسر کے طور پر تعیناتی ہوئی تو پہلی بار اس کلچر کودیکھنے کا موقع ملا۔ پرائم منسٹر کے ملٹری اسٹاف کو جب ایک نئے بندے کی آمد کی خبر ہوئی تو جونیئر افسروں یعنی کپتانوں وغیرہ نے تو قدرے مخاصمانہ نظروں سے دیکھا مگر ملٹری سیکریٹری کو جب یہ معلوم ہوا کہ نواں پروہنا ایس پی یعنی پولیس کپتان ہے تو انھوں نے چشمِ تصور میں پلس کپتان کو آتے جاتے سیلوٹ مارتے دیکھا اور پھر بڑی گرمجوشی سے ویلکم کیا۔
اس سے اندازہ ہوگیا کہ وہ آرمی کے کپتانوں اور نیوی کے لیفٹینوں کے سیلیوٹوں سے رج چکے ہیں اوراب وہ بھی تبدیلی چاہتے ہیں مگر موصوف کا تبد یلی کا خواب اور پُلس کپتان سے سیلوٹ مروانے کی خواہش پوری نہ ہوسکی کیونکہ میں نے اس سلوٹا سلاٹی کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے سُواو موٹو ایکشن لیا اور وردی کے بجائے سول لباس (شلوار قمیص اور جیکٹ) پہننے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سے ایک تو میں فوری طور پر ملٹری کمانڈ سے نکل گیا اور دوسرا وردی کے پیداکردہ حجابات سے بھی آزاد ہوگیا، یعنی مجھے ہر کسی سے برابری کی سطح پر ملنے اور گفتگو کرنے کی آزادی مل گئی۔
جدید دور کے دربا ر یعنی پرائم منسٹر ہاؤس کے ماحول میں ایک عجیب قسم کا تناؤ سا تھا۔ درباریوں کے چہروں پر ہر وقت تناؤ، کھچاؤ، خوشامد اور سازش کے آثار نمایاں نظر آتے تھے۔ اس غیر صحت مندانہ ماحول میں ایک صحت مند شخص ملتے ہی دل کو بھا گیا، چہرہ ملمع سازی سے پاک، گفتگوایک ٹھیٹھ دیہاتی کی طرح بیباک، آنکھوں میں راجپوتانہ اخلاص اور گفتگو میں وضعداری کی باس، بتایا گیا کہ یہ پرائم منسٹر کے پی آر او رائے ریاض ہیں جو جلد ہی وزیرِاعظم کے پریس سیکریٹری اور ہمارے دوست بن گئے، بعد میں انھوں نے کئی اور وزیرِاعظم بھی بھگتائے۔
رائے صاحب نے اپنی خودنوشت ''رائے عامہ'' بھیجی تو دیکھ کر پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ کتابیں تو محترم ایس ایم ظفر صاحب، اظہار الحق صاحب اور پروفیسر سلیم منصور جیسے نامور اسکالرز کی بھی آئی ہوئی ہیںمگر رائے صاحب کی کتاب پہلے آئی تھی اور پھر وہ آج کل ہمارے گرائیں (ہم ایک ہی بستی میں رہتے ہیں) بھی ہیں، اس لیے رائے صاحب کی کتاب پر اپنی رائے پہلے تحریر کررہا ہوں۔
''رائے عامہ'' ایک ایسے دیہاتی نوجوان کیSuccess story ہے جو اپنی محنت، لگن اور جہدِ مسلسل کے بل پر انتہائی اہم عہدوں تک پہنچا۔ یہ کتاب ان نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے جو زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کی امنگ رکھتے ہیں مگر وسائل کی کمیابی ان کی راہ روک لیتی ہے۔ رائے صاحب نے اپنی زندگی اور سروس کے واقعات اس بے تکلف انداز میں بیان کیے ہیں جس طرح وہ دوستوں سے گفتگو کر رہے ہوں۔
کتاب کی کچھ چیزیں تو بہت ہی اچھی لگی ہیں، ایک یہ کہ مصنف نے اپنے ماضی کو قارئین کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے اور کچھ بھی نہیں چھپایا۔ اس لیے کتاب میں ایک چلتا پھرتا اور بولتا ہوا رائے ریاض نظر آتا ہے، مصنف کا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے جہاں کے باسی روزگار سے لے کر تھانہ، پٹوار کے مسائل میں گھرے رہتے ہیں، مگر بڑے عہدوں پر پہنچ کر مصنف نے اکثر بیوروکریٹوں کی طرح اپنے آپ کو ان مسائل زدہ لوگوں سے علیحدہ نہیں کر لیا بلکہ اس نے ان پسماندہ لوگوں کا ہاتھ تھاما اور اپنے عہدوں کو ان کے لیے سیڑھی بنالیا۔ مگر ان کی خودنوشت کی جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔
وہ ان کی وطنِ عزیز کے ساتھ لازوال اور پرجوش محبت ہے، جس کا زبانی نہیں عملی اظہار وہ ہر جگہ اور ہر موقع پر کرتے ہیں۔ سروس کے دوران انھیں سری لنکا، جاپان اور بھارت میں خدمات سر انجام دینے کا موقع ملا، تینوں ملکوں کے دلچسپ اور چشم کشا واقعات کو کتاب کی زینت بنایا گیا ہے۔ کولمبو میں تعینات ہوئے تو مسلمان ملکوں کے سفارتکاروں کو متحد کیا اور سری لنکا مسلم میڈیا فورم(SLMMT) کے نام سے تنظیم کھڑی کر دی۔
اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''میں نے سوچا کہ کیوں نہ بھارتی تسلط، جبر اور اجارہ داری کا مقابلہ مسلمان میڈیا پر سنز کے ساتھ مل کر کیا جائے۔ ایمبیسی کے سینئر افسروں نے اس آئیڈیا کی سرے سے مخالفت کی اور فرمایا کہ ایمبیسی کا یہ کام نہیں ہے۔ سچ پوچھیں تو بہت سے افسر سفارتخانوں میں کوئی کام نہیں کرتے سوائے شاپنگ کے اور ڈالر اکٹھے کرنے کے۔''
پھر لکھتے ہیں کہ ''جب مسلم سفارتخانوں کے پریس اتاشی اور صحافی میرے گھر پر اکھٹے ہوئے تو میں نے مسلمانوں کی حالتِ زار اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر تقریر کر دی۔ سب لوگوں نے بڑی توجہ اور حیرانی سے میری باتیں سنیں، صاف لگ رہا تھا کہ ایسی باتیں غالباً وہ پہلی بارسن رہے تھے'' کاش ہمارے تمام سفارت کاراور پریس اتاشی ایسے ہی جذبوں سے سرشار ہوں۔
جاپانی قوم میں کس قدر Civic sense ہے اور وہ اپنی گلیوں اور سڑکوں کو صاف ستھرا رکھنے میں کس قدر محتاط ہیں، اس سلسلے میں انھوں نے کئی واقعات تحریر کیے ہیں۔ ایک واقعہ لکھ کر مصنف نے پاکستانیوں کی سوئی ہوئی غیرت اور حمیت کو جھنجھوڑا ہے۔
لکھتے ہیں،''میرے ایک دوست جو کئی سالوں سے جاپان میں رہ رہے تھے، کے پاس کچھ ڈالرتھے۔ ایک دن اس کی فیکٹری میں کام کرنے والے ایک جاپانی نے کہا کہ وہ ڈالر خریدنے بینک جارہا ہے۔ میرے دوست نے اس سے کہا ''میرے پاس ڈالر ہیں تم لے لو، ورنہ بینک سے تمہیں ڈالر مہنگے ریٹ پر ملیں گے'' وہ جاپانی کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا ''نہیں میں آپ سے نہیں لے سکتا۔
اس سے مجھے تو فائدہوگا مگر میرے ملک کے بینک کا نقصان ہوگا، میں اپنے فائدے کے لیے ملک کو معمولی سا نقصان بھی نہیں پہنچا سکتا'' ہم اور ہمارے لیڈر حب الوطنی کے زبانی دعوے تو کرتے ہیں مگر یہ کہیں دکھائی نہیں دیتا کہ راہنمایانِ قوم نے قومی مفاد کے لیے اپنے معمولی سے ذاتی مفاد کی قربانی دی ہو۔ مصنف نے پاکستانی تاجروں اور ایکسپورٹرز کی بددیانتی کا بھی رونا رویا ہے کہ وہ کس طرح ناقص اور گھٹیا مال بھیج کر ملک کو بدنام کرتے ہیں۔ جن ملکوں میں پاکستان کے بارے میں بہت اچھا تاثر ہے وہاں پاکستانی پہنچتے ہی اپنی حرکتوں سے وہ سارا تاثر برباد کردیتے ہیں۔
ترکی کے بعد اب آذربائیجان کے لوگ بھی پاکستان کی دل سے قدر کرتے ہیں، اس لیے میں دعائیں مانگتا رہتا ہوں کہ ان ملکوں میں پاکستان کے باشندے نہ پہنچ سکیں تاکہ ان لوگوں کے دلوں میں وطنِ عزیز کے لیے عزت اور محبت قائم رہے، مگر لگتا ہے کہ ناچیز کی دعائیں قبول نہیں ہورہیں۔
رائے ریاض صاحب بھارت میں بھی پریس اتاشی رہے، انھوں نے درست لکھا ہے کہ انڈیا کے سرکاری بیانیے سے متاثر ہو کر وہاں کا ہر شخص ہماری آزادی کے جواز کو چیلنج کرتا ہے، رائے صاحب کو بھی ایسے سوالوں کا سامنا کرنا پڑا جس کا وہ بڑا موثر جواب دیتے رہے، لکھتے ہیں ''بھارت کے چند دن کے قیام کے بعد ہی پاکستان کے قیام کی حقانیت پریقین ہوگیا اور میں ہر سانس کے بعد دعا کرنے لگا کہ اﷲ تعالیٰ قائداعظم اور ان کے ساتھیوں کے درجات بلند فرمائیں، ہم آزاد نہ ہوتے تو آج وہاں بائیس کروڑ کے بجائے ساٹھ کروڑ غلام ہوتے۔'' ایک بار سید ضمیر جعفری کی موجودگی میں بھارتی ایجنسیوں کے تربیت یافتہ لوگ بار بار کہنے لگے کہ ادب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اس پر جعفری صاحب نے کھڑے ہو کر کہا ''او بھائی ادب کی نہ سہی مگر ادیب کی سرحدیں ہوتی ہیں۔'' مصنف تاج محل کے بارے میں لکھتے ہیں ''تاج محل دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ شاہکار واقعی انسان نے تخلیق کیا ہے مگر آگرہ شہر اتنا گندہ اور غلیظ ہے کہ الامان۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا تاج کسی نے کوڑے کے ڈھیر پر رکھ دیا ہو۔''
انڈیا ہی کے باب میں لکھتے ہیں ''نئی دہلی کے تاج ہوٹل میں 2006 کی ایک شام ایک بھارتی اخبار کا سیمینار بھی یاد آتا ہے، اس میں ایم کیو ایم کا بانی بھی مدعو تھا جس کی بڑی بڑی تصویریں ایئرپورٹ روڈ پر لگا دی گئی تھیں۔ اس نے تقریر کے دوران جیب سے پرچی نکالی (جو غالباً اس کے میزبانوں نے اسے دی تھی) اور انگریزی میں پڑھا "creation of Pakistan was the biggest blunder of history" تقریر کے اختتام پر اس نے کہا ''دہلی والو! ہم آپ سے پناہ مانگیں تو ہمیں پناہ دو گے؟'' اس نے تین بار یہ سوال دہرایا مگر کوئی جواب نہ آیا تو الطاف نے ماتھے سے پسینہ پونچھا اور شرمندگی کے عالم میں کہا، میں نے شاید غلط سوال کردیا ہے۔
پاکستان میں اس کی اس ہرزہ سرائی کی بہت مذمت کی گئی، مگر پھر انکشاف کرتے ہیں کہ ''ہم ابھی اس کے تقریری حملے سے سنبھل نہ سکے تھے کہ پاکستان سے جنرل مشرف نے ہائی کمشنر کو فون کیا کہ وفد کی خوب آؤ بھگت کی جائے چنانچہ سفیر صاحب کو حکمِ حاکم کے تحت پاکستان کو برا بھلا کہنے والے کے لیے ڈنرکا انتظام کرنا پڑا۔