گندم کا شدید بحران اور روپے کی مضبوطی

آٹا فی کلو 120 روپے میں فروخت ہونے کے باوجود مزید اضافے کے لیے پر تول رہا ہے



ملک اس وقت گندم کے شدید بحران سے گزر رہا ہے۔ آٹا فی کلو 120 روپے میں فروخت ہونے کے باوجود مزید اضافے کے لیے پر تول رہا ہے۔ آٹے کی قیمت میں اضافے کے وہی ذمے دار ہیں جو اس سے قبل بھی آٹے کی قیمت بڑھاتے رہے ہیں، گندم ذخیرہ کرتے رہے ہیں۔

موجودہ صورت حال کچھ یوں ہے کہ گزشتہ مالی سال کے آغاز میں گندم کی فصل اترنے کے بعد پہلے یہ اندازہ لگایا گیا کہ گندم کی پیداوار 2 کروڑ 52 لاکھ ٹن ہوئی ہے جوکہ 2020-21 کے مقابلے میں تقریباً 12 لاکھ ٹن کم ہے ، لیکن اطمینان کی بات یہ تھی کہ 30 لاکھ ٹن گندم ذخیرے کی موجودگی کا اندازہ لگایا گیا تھا جب کہ ملکی کھپت کا اندازہ 2 کروڑ60 لاکھ ٹن کا لگایا گیا وہ بھی غلط نکلا۔ اب آپ دیکھیں یہ بات دسمبر 2021 میں واضح ہو چکی کہ اندازے غلط ہوگئے۔

اس سے قبل 5 لاکھ ٹن گندم ایکسپورٹ بھی کردی گئی تھی۔ پاکستان جوکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گندم پیدا کرنے والا دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے لیکن پاکستان میں فی ایکڑ پیداوار ہمیشہ دیگر ملکوں کی نسبت کم ہی رہی ہے لہٰذا جیسے ہی ان باتوں کے اشارے ملنے شروع ہوگئے کہ ملک میں گندم کی قلت پیدا ہو سکتی ہے ایسے میں اس وقت کی حکومت کو فیصلے لینے میں کچھ وقت لگا ہی تھا کہ کاری گروں نے ایسی کاریگری دکھائی کہ آٹے کی قیمت میں اضافے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

80 روپے90روپے اور پورے 100 روپے فی کلو اسی پر بس نہیں، جولائی میں تقریباً 100 روپے فی کلو سے ہوتے ہوئے ستمبر کے آخر تک 120 روپے فی کلو سے بھی مزید اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔ معاملات کہاں سے بگڑے اعداد و شمار کی روشنی میں اس پر نظر ڈالتے ہیں۔

2019 کے ابتدائی چند ماہ تک چکی کا آٹا 48 روپے فی کلو دستیاب تھا۔ چند ماہ بعد گندم کی فصل کے بارے میں اعلان ہوا کہ ڈھائی کروڑ ٹن پیداوار حاصل ہوئی ہے۔ ملک میں اس سال 88 لاکھ5 ہزار ہیکڑ رقبے پر گندم کی کاشت ہوئی۔ کسانوں کی طرف سے شکایات موصول ہونا شروع ہوگئیں کہ پانی کی قلت ہے۔

ناقص بیج مل رہے ہیں، جعلی ادویات کی بھرمار ہے، کھاد کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن حکومت ان سب باتوں کا کوئی شافی علاج دریافت نہ کرسکی ، لہٰذا گندم کی قیمت میں اضافے کا رجحان برقرار رہا۔ چکی کا آٹا 52روپے فی کلو تک جا پہنچا۔ اس سال فی ہیکڑ پیداوار بھی کم حاصل ہوئی یعنی 2868 کلو گرام۔

اب اگلے برس کی بات کرتے ہیں مئی 2020 میں معلوم ہوا کہ 2 کروڑ 70 لاکھ ٹن سے زائد گندم کی پیداوار حاصل ہوئی ہے لیکن ملک میں گندم کی صحیح طریقے سے ذخیرہ اندوزی کی طرف دھیان نہیں دیا گیا، جس کے شواہد اب تک موصول ہو رہے ہیں، کہیں گندم کی صحیح حفاظت نہ ہو سکی۔

کہیں گندم کا ذخیرہ گل سڑ چکا تھا وغیرہ وغیرہ۔ پیداوار میں اضافہ گندم کی قیمت میں کمی میں کوئی کردار ادا نہ کرسکا ، کیونکہ بڑی مقدار میں گندم کا چھپایا جانا اور اسمگل کردینا اور مصنوعی قلت پیدا کرکے قیمت بڑھا دینا یہ سب کچھ کرنے میں یہاں بہت سے لوگوں کو کمال حاصل ہے۔ 2021-22 میں 91 لاکھ 68 ہزار ہیکڑ رقبے پر گندم کاشت کی گئی اور تقریباً 3 ہزار کلو گرام فی ہیکڑ پیداوار بھی حاصل ہوئی۔

ان تمام باتوں کے باوجود آٹے کی قیمت بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ اب بھی مسائل کے حل کی تیاری بالکل مفقود ہے اور آیندہ برس پیداوار میں کمی کا خطرہ یقینی ہے۔ البتہ عالمی موسمیاتی تبدیلی نے اپنے منفی اثرات 2022 کی طرح اثرانداز نہ ہوئے تو ایسی صورت میں اکتوبر، نومبر 2023 میں بوئی جانے والی گندم کی فصل خاصی شاندار ہونے کی توقع ہے ، یعنی 2کروڑ90 لاکھ ٹن تک پہنچ سکتی ہے۔

فی ہیکڑ پیداوار 3200 کلوگرام کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔ ان باتوں کو دیگر شرائط کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے یعنی کھاد کی قلت نہ ہو، قیمت میں اضافہ نہ ہو، پانی کی شدید کمیابی نہ ہو، زرعی ادویات کی بھرمار اور نقصان پہنچانے والی بارش یا ژالہ باری اور دیگر امور شامل ہیں۔

یہ بات تو رہی پیداوار کی لیکن اہل پاکستان کا اصل مسئلہ ہے کہ آٹے کی قیمت میں نمایاں کمی ہو کر رہے۔ جس کے لیے موجودہ وزیر خزانہ کو ڈالر ریٹ کی طرح فوری طور پر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ زرعی ملک ہے اور مناسب پیداوار بھی حاصل ہوئی تھی۔ ذخیرہ بھی موجود تھا ، اگر تھوڑا غلط اندازہ نکلا بھی تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آٹا 90 روپے فی کلو سے 120 روپے فی کلو تک پہنچا دیا جائے۔

کئی قارئین کرام کراچی میں درختوں کے کٹنے اور پارک کی کمی ان کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ راقم نے ایک مطالعاتی دورے میں یہ بات محسوس کی کہ کراچی میں اگرچہ کئی مقامات ایسے ہیں جہاں پارک موجود تھے یا اب بھی ہیں لیکن بعض انتہائی خراب حالت میں ہیں۔ البتہ کئی پارکس ایسے بھی ہیں جن کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ اس میں مقامی لوگوں کی دلچسپی کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔

اس سلسلے میں ایک پارک کی مثال دیتا ہوں جوکہ گلستان جوہر بلاک 2 کراچی میں واقع ہے۔ مقامی افراد کا بھرپور تعاون قابل ذکر ہیں۔ یہاں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یوگا کے مشہور ایکسپرٹ ڈاکٹر بشیر شیخ صبح کے وقت بلاناغہ یوگا کے شایقین کو تربیت دیتے ہیں۔ یوگا ایسی جسمانی ورزش اور مشق ہے جس سے صحت کے کئی مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ بہرحال صوبائی حکومتیں پارکس کے سلسلے میں میونسپل کمیٹیز وغیرہ کو فعال کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ پارکس بحال ہو سکیں۔

آخر میں بات ڈالر کی ہوجائے، اگرچہ اس کے ریٹ میں قدرے کمی آ رہی ہے لیکن اس سلسلے میں مزید سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ قلیل عرصے میں 160 روپے سے 230 تک یعنی 70 روپے کا اضافہ اور موجودہ ریٹ ہر حال میں روپے کی کمزوری کی عکاسی کرتا ہے ، ایسے وقت میں جب کہ بیرونی امداد بھی موصول ہو رہی ہے اور مزید امداد کی توقع ہے ڈالر کا اگر صحیح اور درست انتہائی مناسب منصوبہ بندی سے استعمال کرنے کی صورت میں روپے کی قدر مزید مضبوط ہوگی اور کرنسی کی مضبوطی سے ہی معیشت کو بحال کرنے میں مدد ملے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں