مانچسٹر لندن اور پھر مانچسٹر
تین گھنٹے چیک ان سے پہلے، ساڑھے تین گھنٹے دوحہ قطر تک، وہاں پھر تین گھنٹے کا وقفہ اور آخر میں مانچسٹر تک کے سات گھنٹے
کیا اچھے زمانے تھے جب پی آئی اے کی ڈائریکٹ فلائٹ آٹھ گھنٹے سے کم وقت میں انگلینڈ پہنچا دیتی تھی، احباب کی کمپنی اور بہتر قوت برداشت کی بدولت یہ وقت آج کی نسبت بہت آسانی سے گزر جاتا تھا جب کہ ہماری یہ فلائٹ ملا جلا کر سولہ گھنٹے کی بنتی تھی۔
تین گھنٹے چیک ان سے پہلے، ساڑھے تین گھنٹے دوحہ قطر تک، وہاں پھر تین گھنٹے کا وقفہ اور آخر میں مانچسٹر تک کے سات گھنٹے۔ لاہور کے ہوائی اڈے سے برادرم شیخ محمد افضل کی وجہ سے آسانی ہو گئی ورنہ تو فلائٹوں اور ہر مسافر کے ساتھ آنے والے دس دس لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے سانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا، خالد مسعود کی دلچسپ باتوں اور پر لطف صحبت کے باعث مانچسٹر ایئرپورٹ نسبتاً جلدی آ گیا جہاں برادرم نصر اقبال اپنے احباب کے ساتھ سراپا انتظار تھے۔
ہمارا قیام پریمئران میں تھا جو اگرچہ خاصی معقول تھی مگر ہمارے کمرے نچلی منزل میں ہونے کی وجہ سے سیڑھیوں پر اترنا چڑھنا کوئی بہت زیادہ خوشگوار عمل نہیں تھا، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ڈائریکٹر عامر جعفری عزیزی سہیل احمد کے ساتھ یورپ کا ایک ہفتے کا دورہ کر کے برطانیہ پہنچ تو چکے تھے مگر کسی ٹرین کے مس ہو جانے کی وجہ سے بروقت نہ پہنچ سکے، سو ان سے ملاقات اس ہوٹل میں ہوئی جہاں مقامی میزبانوں نے احباب سے ملاقات اور طعام کا انتظام کر رکھا تھا۔
پہلا چیریٹی پروگرام بریڈ فورڈ میں تھا جس سے بہت سی یادیں وابستہ تھیں، وہاں کا انتظام برادرم اشتیاق میر کے ہاتھوں میں تھا ،سو ہر چیز بڑے سلیقے سے اور بروقت ہوئی، حاجی اسماعیل مرحوم کے حوالے سے اسی شہر میں ہونے والے ایک پرلطف واقعے کی یاد تازہ کی گئی جس کے مرکزی کردار مظفر وارثی مرحوم تھے۔ وہاں سے ہمیں ملٹن کینز جانا تھا جو لندن کے نواح میں ایک پھر سے بسنے والی بستی ہے، یہ پروگرام بوجوہ درمیانے درجے کا رہا، لندن میں ہم نے مشرقی لندن میں الفورڈ کے علاقے میں رہنے کو ترجیح دی تھی کہ وہاں ساجد خان Pantry اور ریسٹورانٹ ال خیمہ میں سب دوست آسانی سے اکٹھے ہو جاتے تھے۔
ساجد خان اپنی محبوب شخصیت اور پرجوش میزبانی کی وجہ سے گزشتہ چند برس سے ہمارے لیے ایک لازمے کی شکل اختیار کر چکا ہے، اس کی کولیگ عزیزہ ''اسما'' ہمیشہ کی طرح گھر کے ایک فرد کی طرح ہمارا خیال رکھتی ہے اور سارا دن مہمانوں کی خدمت میں ایک خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ جتی رہتی ہے۔ سعید انور شاہ صاحب اور راشد عدیل ہاشمی ہم سے پہلے اس ''کیک فگر'' میں پہنچ چکے تھے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ Pantry نامی اس دوکان سے لندن کے بہترین کیک دستیاب ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر نیلم فواد نے مجھے ایک بجے وہاں سے لینا تھا لیکن لندن کی ٹریفک نے اس میں ایک گھنٹے کا مزید اضافہ کر دیا، ڈاکٹر نیلم نے نہ صرف مابعد الطبیعات میں ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے بلکہ اب وہ سائیکالوجی میں بھی اس ڈگری کو دہرا رہی ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات تین برس قبل غزالی ہی کے ایک فنڈریزر میں رائل نواب میں ہوئی تھی، چند ماہ قبل وہ پاکستان آئیں تو ان کی مضبوط حسین اور ذہین شخصیت کے اور بہت سے پہلوئوں سے آگاہی ہوئی اور اس ملاقات کے بعد سے تو وہ باقاعدہ میرے قریبی دائرہ احباب میں شامل ہو گئی ہیں۔
رات کو تقریب میں ان کے شوہر فواد صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ بھی ایک باکمال شخص نکلے، گزشتہ کی طرح رائل نواب کی یہ تقریب بھی اپنی رونق اور فنڈ ریزنگ کے حوالے سے غیرمعمولی اور بھرپور تھی۔ اگلے دن سہیل ضرار خلش نے ایک ٹی وی چینل میں انٹرویو اور ساجد بھائی نے ال خیمہ میں احباب کے لیے ایک پرتکلف ڈنر کا اہتمام کر رکھا تھا جہاں ڈاکٹر جاوید شیخ بیٹی فاطمہ عزیزی فیضان عارف برادرم عابد علی بیگ' ڈاکٹر عقیل دانش اور دیگر احباب سے خوب ملاقات رہی۔
سہیل سلامت نے حسب معمول موسیقی کا رنگ جمایا، اگلے دن میں مانچسٹر کے لیے روانہ ہونا تھا جہاں سے میری واپسی کی فلائٹ تھی، سو دیر تک جدائی کا یہ عمل جاری رہا، یہ اور بات ہے کہ اگلے دن عامر جعفری کی ایک میٹنگ کی وجہ سے ایک گھنٹہ پھر ساجد خاں' اسما اور اس کی بڑی بیٹی اور سعید انور شاہ صاحب کے ساتھ دوبارہ سے ملاقات کے لیے مل گیا، ہاں یہ تو میں بتانا بھول ہی گیا کہ اس دوران میں ایک شام ڈاکٹر طحہٰ قریشی کے ساتھ Nust یونیورسٹی اسلام آباد کے احباب کے ساتھ گزارنے کا موقع بھی ملا جو بلاشبہ ایک بہت پرلطف تجربہ تھا۔