شائستہ اکرام اللہ خواتین رکن اسمبلی کے لیے ایک مثال آخری حصہ
ان کے دلِ ناتواں نے بہت سے صدمے سہے لیکن پاکستان سے ان کا رشتہ اٹوٹ تھا
24 فروری 1948 کو انھوں نے وزیر اعظم اور دیگر اراکین اسمبلی کے سامنے یہ جملہ کہا کہ ''مشرقی پاکستانیوں میں یہ احساس پرورش پارہا ہے کہ مشرقی پاکستان کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور ان کے ساتھ مغربی پاکستان کی ''نوآبادی'' کا سلوک کیا جارہا ہے، ہمیں اس احساس کو کھرچ پھینکنے کے لیے حتی المقدور سب کچھ کرنا چاہیے۔''
ان کی یہ اختلافی تقریر چٹکیوں میں اڑا دی گئی اور وزیر اعظم نے یہ کہہ کر بات تمام کی کہ '' مجھے معلوم ہے کہ عورتوں کو مشکلات کا اندازہ نہیں ہوتا۔'' ان کی مراد سال میں ایک مرتبہ اسمبلی کی کارروائی ڈھاکا میں کرنے کی مشکلات سے تھی۔ 24 فروری 1948ء کا دن تمام ہوا لیکن بیگم شائستہ کا یہ جملہ اٹل ثابت ہوا کہ ''مشرقی پاکستانیوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور ان کے ساتھ مغربی پاکستان کی نو آبادی جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔''
وزیر اعظم کی یہ بات یقینا درست تھی کہ ''عورتوں کو مشکلات کا اندازہ نہیں ہوتا'' لیکن طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی 33 برس کی ایک عورت کی نگاہیں پاکستان کے سیاسی افق پر ابھرنے والے اس طوفان کو دیکھ رہی تھیں جو دسمبر 1971 میں متحدہ پاکستان کا سفینہ ڈبونے والا تھا۔
اسمبلی کی رکنیت اور وہاں تیکھے بحث و مباحثے کے ساتھ ہی بیگم شائستہ سہروردی نے مختلف تنظیموں میں شمولیت اختیار کی اور بین الاقوامی اداروں ریڈ کراس اور یونیسیف کے لیے بھی کام کیا۔ ان کے حصے میں یہ اعزاز آیا کہ وہ اقوام متحدہ کی اس کمیٹی کی رکن ہوئیں جو سابق صدر امریکا کی بیگم ایلیز رُوز ویلٹ کی سربراہی میں حقوق انسانی کا عالمی منشور مرتب کررہی تھی۔
یہ تاریخی میثاق 10 دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا،یہ وہ زمانہ ہے جب بیگم شائستہ پیرس، نیویارک اور دوسرے مغربی شہروں میں پاکستان کی نمایندگی کرتی رہیں اور بہ طور خاص نئے ملک کے تعلیمی مسائل اور تعلیمی اداروں کی تشکیل کے بارے میں دنیا کے اہم ملکوں کی توجہ پاکستان کی طرف مبذول کراتی رہیں۔
شائستہ سہروردی اکرام اللہ لگ بھگ سات برس تک آئین ساز اسمبلی کی رکن رہیں۔ اس دوران ملک کی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے ان کا اپنے وزیر تعلیم سے مسلسل اختلاف رہا۔ انھوں نے لکھا '' وزیر تعلیم چاہتے تھے کہ صرف مذہبی اصول نہیں بلکہ فرقہ وارانہ سیاست بھی تعلیم کا حصہ ہو۔ سیاسی پارٹی کی تعلیم پڑھائی اور سکھائی جائے، قومی سیاست کے ارتقاء کے طور پر نہیں بلکہ ایک تنگ نظر یکطرفہ نقطہ نگاہ سے ۔ ''
اسمبلی کی اپنی رکنیت کے دوران وہ مسلسل اصرار کرتی رہیں کہ آئین کی تشکیل میں ٹال مٹول سے کام نہ لیا جائے لیکن جب انھیں اندازہ ہوا کہ ان کی بات نہیں سنی جارہی اور اسمبلی کے بہت سے اراکین اپنے فرائض انجام دینے میں سنجیدہ نہیں تب انھوں نے اسمبلی میں 14نومبر 1953 کو ایک تقریر کی جو ان کی خود نوشت ''پردے سے پارلیمنٹ تک'' میں ضمیمہ نمبر 4 کے عنوان سے موجود ہے۔ اس تقریر میں انھوں نے کہا کہ مسلم لیگ کے قیام سے آج تک میں مسلم لیگی رہی ہوں۔
میری تمنا تھی کہ پاکستان کے آئین پر بہ طور ایک مسلم لیگی میرے دستخط ثبت ہوں،لیکن افسوس کہ یہ اعزاز میرے حصے میں نہ آیا اور میری یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ میں نے پارٹی کی میٹنگوں میں دس باتوں سے اختلاف کیا اور اپنا نقطہ نظر کھل کر بیان کیا لیکن ان اختلافات کو کبھی عوام پر آشکار نہیں کیا۔ اب میں عوام کو بے وقوف بنانے کے کام میں زیادہ دیر تک شریک نہیں رہ سکتی۔ اسی لیے آج میں بھاری دل کے ساتھ مسلم لیگ کی رکنیت سے استعفیٰ دے رہی ہوں۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ کی یہ تقریر اراکینِ اسمبلی پر بم کی طرح گری۔ انھیں اپنا فیصلہ واپس لینے کے لیے کہا گیا لیکن انھوں نے انکار کردیا ،ان کا خاندان پرانا مسلم لیگی تھا۔ اسمبلی کے ایوان میں اختلاف رائے کے حق اور جمہوری اصولوں کے خلاف منظور کیے جانے والے ریزولیوشن پرانھوں نے سخت اعتراض کیا تھا۔ آئین کی تشکیل کے بارے میں ہونے والی رائے شماری میں ان کی واحد ذات تھی جو ''نہیں۔ نہیں۔ نہیں'' کا آوازہ بلند کررہی تھی۔
وہ جانتی تھیں کہ آئین کے بغیر پاکستان ایک ایسے جہاز کی طرح ہے جس کی کوئی سمت نہیں۔ ان کے سیاسی شعور کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اسمبلی میں 25 مارچ 1950 کی اپنی تقریر میں وہ عوام کے لیے ''روٹی، کپڑا اور مکان'' کا حق مانگ رہی تھیں۔ انھوں نے اقلیتوں اور عورتوں کے مسائل اور صوبائی تعصب کے حوالے سے وہ باتیں زور دے کر کہیں جن پر اگر اس وقت عمل ہوتا تو آج بہت سے مسائل ہمیں درپیش نہ ہوتے۔
بیگم شائستہ سہروردی اکرام اللہ کی زندگی کے بارے میں صفحے کے صفحے لکھے جاسکتے ہیں وہ اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتی تھیں اور ایسی باتیںاٹھاتی تھیں جو پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم کرسکتی تھیںلیکن ان کی باتیں حکمران جماعت کی طبعِ نازک پر گراں گزرتی تھیں۔مراکش میں ان کی سفارتکاری، اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی وکالت اور متعدد دوسرے معاملات ہیں جو دلچسپ بھی ہیں اور چشم کشا بھی ۔وہ ایک باضمیر اور جرأت مند پارلیمینٹرین کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
ان کا خمیر بنگال کی مٹی سے اٹھا تھا اور ان میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جن سے ایک نیا ملک استفادہ کرسکتا تھا لیکن پاکستان میں ان جیسے باضمیروں کے لیے گنجائش نہیں تھی۔ انھوں نے اسمبلی میں کی جانے والی تقریروں میں ان نکات کو اٹھایا جو نہایت اہم تھے۔ انھوں نے مشرقی پاکستان کی اکثریت کے دلی جذبات کی ترجمانی کی اور مغربی پاکستان کی اقلیت کو بار بار یاد دلایا کہ مشرقی حصے کو اپنی نوآبادی بنانے سے گریز کرے۔
انھوں نے صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) کی پسماندگی ختم کرنے کی بات کی۔ یہ وہ معاملات تھے جن پر اس وقت کے وزرائے اعظم اور اراکین اسمبلی نے سنجیدگی سے توجہ دی ہوتی تو ہم 71ء کے سانحے سے نہ گزرتے اور آج بلوچستان کی ناراضگی اس حد تک نہ پہنچتی جہاں پہنچ چکی ہے۔
بنگال سے تعلق رکھنے والی اس جوہر قابل کو ہم نے بھلا دیا اور ان کا ذکر ہماری تاریخ کے محض حاشیوں میں ہوتا ہے اس لیے نہیں کہ ان کی ذات اور ان کے خیالات غیر اہم تھے بلکہ اس لیے کہ ان جیسے اصول پرست اور باضمیر افراد ہماری سیاسی قیادت کے پہلو میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے ہیں۔
بیگم شائستہ ایک آدرش وادی انسان تھیں۔ ان کے خیال میں پاکستان ایک سنہری زمین کے طور پرابھرنے والا تھا لیکن جب یہاں انھوںنے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تو ابتداء سے ہی انھیں قدم قدم پر مایوسی اور دل شکستگی کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے یہ بات کبھی کھل کر نہیں کہی لیکن زیر لب وہ فیض کی نظم ''صبح آزادی'' کے اس مصرعے کو ہی دہراتی رہیں کہ ''وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں''
آئین ساز اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے وہ آئین پاکستان کی تشکیل کو ذاتی ذمے داری سمجھتی تھیں اور جب انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ یہ ذمے داری وہ پوری نہ کرسکیں گی تو انھوں نے رکن اسمبلی ہونے کی مراعات سے کنارہ کیا۔ مسلم لیگ کی رکنیت سے مستعفی ہوئیں اور پھر کبھی پاکستان کی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ ان کی علمی، ادبی اور سماجی سرگرمیاں جاری رہیں۔
متحدہ پاکستان کے دولخت ہونے کا خونیں ڈراما انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ان کی ایک بیٹی بنگلہ دیش کی شہری بنی اور ان کے داماد بنگلہ دیش کی تشکیل میں سرگرم رہے لیکن خود انھوں نے کبھی پاکستان، تحریک پاکستان یا بانیان پاکستان کے بارے میں ایک بھی اختلافی جملہ اپنے لبوں سے ادا نہیں کیا۔ان کی وضع داری کا یہ عالم تھا کہ ان کی چھوٹی بیٹی ثروت اردن کے اس وقت کے ولی عہد شہزادہ حسن بن طلال سے بیاہی گئیں۔
''شہزادی ثروت'' کہلائیں لیکن بیگم شائستہ کی منکسرالمزاجی اور اپنے لوگوں سے ان کی رواداری اور تعلق داری میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اردن کی ''شہزادی ثروت '' کی ماں اورولی عہد کی خوش دامن ہوکر بھی ان کے گھر کے دروازے لوگوں کے لیے پہلے کی طرح کھلے رہے اور وہ پہلے کی سی بے تکلفی سے شہر کراچی کی ادبی اور ثقافتی تقریبات میں شرکت کرتی رہیں۔
ان کے دلِ ناتواں نے بہت سے صدمے سہے لیکن پاکستان سے ان کا رشتہ اٹوٹ تھا۔ ان کے سانس کی ڈوری اسی شہر کراچی میں ٹوٹی لیکن وہ رشتہ نہ ٹوٹا۔