دو سو سال سے غلام قسمت
یہ ارتکاز دولت ہی ہے کہ اگر صرف پاکستان کی بات کی جائے تو ملکی دولت کے 78%حصے پر صرف ڈیڑھ لاکھ افراد قابض ہیں
www.facebook.com/shah Naqvi
بلوم برگ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق رواں سال کے اختتام تک خام تیل کی قیمت 65ڈالرز کی سطح تک گر سکتی ہے ۔ جب کہ آیندہ سال کے اختتام یعنی 2023کے آخر تک تیل کی قیمت 45ڈالرز تک گر جانے کی پیشن گوئی کی گئی ہے ۔رپورٹس کے مطابق گذشتہ 8ماہ کے دوران پہلی مرتبہ 80ڈالرز کی سطح سے نیچے آ گئی ہے ۔
جب کہ چند ماہ قبل برطانوی تیل کی قیمت فی بیرل 120ڈالرز سے بھی اوپر چلی گئی تھی۔ ان تمام تفصیلات کا مقصد یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں کمی کے باوجود پاکستان میں ماضی میں تیل کی قیمت میں کمی کے بجائے اس میں اضافہ ہوا۔ وجہ یہ ہے کہ IMFکی دیگر شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ پٹرولیم لیوی جو اس وقت 37روپے سے زائد ہے ۔ اس میں جنوری تک 50روپے حکومت کو مزید اضافہ کرنا ہے ۔
پٹرولیم مصنوعات میںکمی اس وقت ہی ممکن ہے جب IMFاجازت دے گا ۔ اگر اجازت مل بھی گئی تو جس تناسب سے اس وقت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوںمیںکمی ہوئی ہے اس مد میں عوام کو بڑا ریلیف ملنا مشکل ہے ۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اضافے سے پاکستان میں مہنگائی کا طوفان برپا ہوگیا ۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف بجلی کی قیمتوںمیں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ان دونوںنے پاکستانی عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مہنگی بجلی ، مہنگی پٹرولیم مصنوعات پاکستان کی تاریخ میں اس سے بُرا وقت پہلے کبھی نہیںآیا۔ حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ 300یونٹ تک فیول پرائس ایڈجسمنٹ نافذنہیں ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود یہ ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔بظاہر لگتا ہے کہ اس کمی کے لیے بھی IMFسے اجازت نہیں ملی۔
عالمی کساد بازاری کی پیش گوئی سب سے پہلے دنیا بھر میںجرمن دُوشے بینک کے معاشی ماہرین نے کی تھی ۔ پوری دنیا اس سے بے خبر تھی ۔ دُوشے بینک کے معاشی ماہرین اس بات پر حیران تھے کہ امریکی اور برطانوی ماہرین اقتصادیات اس خطرے کو کیسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ حالیہ کساد بازاری دنیا کے کسی ایک حصے تک محدود نہیں بلکہ یہ عالمی ہے۔ بلکہ اس کساد بازاری نے امریکا ، چین اور یوروزون کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
یہ دنیا کی تین بڑی معیشتیں ہیںجن کی سرد بازاری پوری دنیا کی معیشتوں پر خوف ناک تباہ کن اثرات مرتب کرے گی ۔ خاص طور پر غریب ترقی پذیر ممالک پر ۔ معاشی کساد بازاری کا مطلب یہ ہے کہ صنعتی ترقی ، صنعتی پیداوار میں بہت بڑے پیمانے پر کمی آئے گی ۔ کارخانے بند ہونا شروع ہو جائیں گے یا وہ اپنی گنجائش سے کم پیداوار کرنے پر مجبور ہونگے۔ چھانٹیاں ہونگی ۔
بے روز گاری غربت بڑھے گی ۔ایک طرف قوت خرید کم ہو گی تو دوسری طرف مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی وجہ ہی یہ ہے کہ وہاں صنعتی پیداوار کم ہو رہی ہے ۔کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہی خام تیل جو چند ماہ پہلے 120ڈالرز پر تھا کم ہوتا ہوا 80ڈالرز اور اس سال اختتام پر 65ڈالرز پر ایسے ہی نہیں چلا جائے گا۔
سرمایہ دارانہ نظام اس وقت سخت بحران میںہے۔ یہ بحران دنیا بھر میں کروڑوں اربوں انسانوں کو متاثر کرے گا۔ یہ ظالمانہ نظام ہی ہے جس میں دنیا بھر میں روزانہ ہزاروں افراد بھوک سے مر جاتے ہیں ۔ جو زندہ ہیں و ہ ناکافی خوراک کی وجہ سے خطرناک بیماریوں کا شکار ہو کر وقت سے بہت پہلے موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔بے روزگاری ، غربت ، بیماری اس نظام کی پہچان ہے ۔ ارتکاز دولت سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا خاصا ہے ۔
یہ ارتکاز دولت ہی ہے کہ اگر صرف پاکستان کی بات کی جائے تو ملکی دولت کے 78%حصے پر صرف ڈیڑھ لاکھ افراد قابض ہیں اور باقی 12%ملکی دولت 4لاکھ افرادکے کنٹرول میں ہے ۔یہ 5سے 6لاکھ افراد وہ ہیں جو پاکستان کی اشرافیہ کہلاتی ہے یہ وہ اشرافیہ ہے جو گذشتہ 75سال سے پاکستان کو لوٹ رہی ہیں ۔ بھاری بھرکم قرضے لینا ، معاف کرانا اور اسی طرح ہزاروں ارب روپے جو عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے ان کی ناز برداری پر خرچ کیے جاتے ہیں ۔
باقی رہا ملکی دولت کا 10%حصہ وہ 22کروڑ بدقسمت عوام کے حصہ میں آتا ہے ۔ اندازہ کریں حکمران طبقوں کی لوٹ مار پر ۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ پاکستان عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے۔ ہماری مقامی اشرافیہ اس نظام کی محافظ ہے۔ عالمی سامراج پاکستان سمیت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی اپنی غلام اشرافیہ کو تحفظ دیتا ہے اور ان کے ذریعے ہی اپنے سامراجی مفادات کا تحفظ کرتا ہے ۔ کیا ہم اس طویل سامراجی غلامی سے کبھی نکل پائیں گئے ؟ ... پہلے انگریزوں کی غلامی۔مجموعی طور پر ہمیں دو سامراجوں کی غلامی کرتے ہوئے 200 سال ہو گئے ہیں۔ کیا قسمت ہے ہماری ۔