وقت کے قاضی کا فیصلہ
کتنا اذیت ناک وہ لمحہ ہوگا جب ایک بیٹی کو پھانسی والی کال کوٹھری اپنے باپ سے آخری ملاقات کے لیے جانا پڑا ہوگا
یہ تو ہوتا ہے کہ عدالتی فیصلوں سے متاثر ہونے والا فریق ناخوش دکھائی دیتا ہے اور دوسرا فریق بہت ہی خوش۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ انصاف کا طلب گار ہر فریق عدالتی فیصلوں سے مطمئن اور خوش ہوسکے۔ کسی ایک فریق کو تو شکست ہونا ہی ہوتی ہے۔
ابھی حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ عدالت کے ایک فیصلے نے محترمہ مریم نواز صاحبہ کو اُن کے ایک اہم مقدمہ ایون فیلڈ میں باعزت بری کردیا جس کی آٹھ ماہ قید کی سزا وہ پہلے ہی کاٹ چکی تھیں۔2017 میں میاں نواز شریف اور اُن سے جڑے تمام اکابرین اور خاندان کے لوگوں کو جس کرب اور عتاب سے گذرنا پڑا تھا اس کی تلخی اور تکلیف صرف وہی اچھی طرح جان سکتے ہیں۔
پہلے اُنہیں پاناما کیس میں الجھا کے زبردستی عمر بھر کے لیے نا اہل کیا گیا لیکن جب دیکھا کہ اس سے بھی کام نہیں چلے گا اور یہ شخص سیاسی میدان میں لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ کر خان صاحب کے بر سر اقتدار آنے میں روڑے اٹکائے گا تو اُسے ایک بہت ہی متنازعہ کیس ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں دس سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ اُن کی فرمانبردار بیٹی اور سیاسی جانشین کو اس معاملے میں معاون کا کردار ادا کرنے کے الزام میں سات سال کی سزا بھی د ے دی گئی۔ اس طرح خان صاحب کو 2018 کے عام انتخابات میں کامیاب کروانے کے تمام آپشنز فراہم کر دیے گئے۔
اس واقعے سے پہلے ملک بھر کے تمام تجزیے اور سروے 2018 کے الیکشن میں میاں صاحب اور اُن کی پارٹی کی کامیابی کے مکمل اشارے دے رہے تھے، لہذا اُن کا راستہ روکنے کے لیے یہ گھناؤنا کھیل کھیلا گیا اور ایک اچھے بھلے پھلتے پھولتے ملک کو زوال اور انحطاط پذیری کے راستے پر ڈال دیا گیا۔ آج ہم جس معاشی اور اقتصادی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں یہ سب کچھ اسی گھناؤنے کھیل کا شاخسانہ ہے۔
ہمارے ملک میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ستر سالوں سے جاری ہے۔ کبھی کسی سیاسی اور جمہوری حکومت کو مکمل آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا ہی نہیں گیا۔ وہ جب اپنی اچھی کارکردگی کے بل بوتے پر عوام میں مقبول ہونے لگتی تو اس کا پتا ہی صاف کر دیا گیا۔
خان صاحب کے بقول وہ 26 سالوں سے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن کیا وہ اس حقیقت سے انکارکرسکتے ہیں کہ اس جدوجہد میں اُنہیں عوام کی پذیرائی صرف اس وقت ملنا شروع ہوئی جب پس پردہ کچھ غیبی قوتوں نے اُنہیں کامیاب کروانے کا بیڑہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ، ورنہ وہ دس پندرہ برس تو سڑکوں پر رلتے رہے اور اُنہیں دو نشستوں سے زیادہ کسی انتخاب میں کامیابی نہیں ملی۔
اُن کی شخصیت اور کرکٹ میں ورلڈ کپ جیت جانے کا جادو اگر سر چڑھ کا بول رہا ہوتا تو وہ 1996 ہی میں ایک عظیم لیڈرکے طور پر مقبول اور مشہور ہو جاتے۔ انھیں دیگر سیاسی قوتوں اور پرویز مشرف کی منت سماجت کی ضرورت چنداں نہ پڑتی۔ یہ 2011 سے اُنہیں جو کامیابیاں ملنا شروع ہوئی تھیں ، وہ بھی کسی اور کی مرہون منت تھیں۔ اِن تمام غیبی امداد کے باوجود وہ 2013 کا الیکشن ہار گئے ۔
جس کے بعد اُنہیں کامیاب کروانے اور برسر اقتدار لانے کے لیے سیاسی بساط پر بہت بڑی خفیہ چال چلی گئی اور پاناما کیس کو بہانہ بنا کے اُن کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ مسلم لیگ نون کا پتا صاف کیا گیا۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز کو قید کر کے اُنہیں الیکشن جیت جانے کا مکمل آزادانہ موقعہ فراہم کیا گیا۔
2018 کے الیکشن سے بارہ روز قبل 13 جولائی 2018 کو میاں صاحب اپنی صاحبزادی مریم کے ہمراہ لندن سے گرفتاری دینے واپس تشریف لاتے ہیں۔ ایک ایسے مقدمہ میں جس کی صحت و صداقت پر بھی شک وشبہات کے بادل منڈلا رہے تھے وہ صرف اپنی عدالتوں کا بھرم رکھنے کے لیے اس وقت وطن واپس آجاتے ہیں جب اُن کی زوجہ محترمہ اور مریم نواز کی والدہ ماجدہ زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار تھیں۔
اُنہیں اپنے اللہ پر کامل بھروسہ اور یقین تھا کہ ایک روز مشکل کے یہ دن بھی کٹ جائیں گے اور وہ عوام کی عدالت میں سرخرو ہوکر پھر اپنی نارمل زندگی گذار رہے ہونگے۔ آج وہ دن بھی آہی گیا اور مریم نواز کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس جھوٹے کیس سے باعزت بری کر دیا۔ یہ ایک عام فیصلہ نہیں ہے ، یہ وقت کی عدالت کا تاریخی فیصلہ ہے۔ دنیاوی عدالتیں غلط ہوسکتی ہیں لیکن قدرت کے فیصلے غلط نہیں ہوا کرتے۔ آج سے ایک سال پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ نواز شریف اپنی زندگی میں یہ سب کچھ دیکھ پائیں گے۔
وہ بیمار ہیں اور اُن کی یہ بیماری کوئی فرضی یا جھوٹی نہیں ہے، مگر ان کی بیماری کو تماشہ بنا کر جس طرح مذاق اڑایا گیا وہ ہماری حالیہ سیاست کا افسوس ناک بد ترین باب ہے۔ دوسروں کی بیماری کا مذاق بنانے والوں کو جب اپنے آدمی شہباز گل کو دوچار دنوں کی قید کا سامنا ہوا تو لگ پتا چل گیا کہ قید کی زندگی کیا ہوتی ہے۔ ایک اچھے بھلے شخص کو دوچار دنوں کے لیے زبردستی قید کر دیا جائے تو وہ نفسیاتی طور پر کم ازکم ضرور بیمار ہو جاتا ہے۔
نواز شریف کو جس ناکردہ جرم کی سزا دی گئی اور اُنہیں ایک سال تک قید میں رکھا گیا ، وہ دن اُن کے اس کیس سے بری ہو جانے پر بھی واپس نہیں ہوسکتے۔ یہی کچھ مریم نواز کے ساتھ بھی کیاگیا ، آج اگر وہ اس بات پر سیخ پا اور برہم ہیں تو یقیناً حق بجانب ہیں۔ عدالتوں کو بری کرتے ہوئے اُن عناصر کو بھی سزا دینی چاہیے جنھوں نے ایسے جھوٹے مقدمہ بنا کر نہ صرف اعلی عدالتوں کا وقت ضایع کیا بلکہ کسی بے گناہ کو بلاوجہ قید تنہائی کے کرب اور عذاب سے بھی دوچار کیا۔
اسلام آباد عدالت کے حالیہ فیصلے سے مریم نواز کو بریت تو مل گئی لیکن اُس کے وہ دن واپس نہیں ہوئے جو اس نے اپنی والدہ ماجدہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر اڈیالا جیل کی ایک کال کوٹھری میں گذارے ۔ جس وقت اُنہیں اپنی ماں کے پاس ہونا چاہیے تھا وہ ایک ناکردہ جرم کی سزا میں قیدوبند کی اذیتوں سے گذر رہی تھیں۔ سیاسی ظلم اور بربریت کی ایسی داستانیں بہت طویل ہیں۔ جناب بھٹو صاحب کو بھی ایسے ہی ایک متنازع فیصلے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
کتنا اذیت ناک وہ لمحہ ہوگا جب ایک بیٹی کو پھانسی والی کال کوٹھری اپنے باپ سے آخری ملاقات کے لیے جانا پڑا ہوگا۔ وہ باپ جو اس ملک کا وزیر اعظم بھی رہا ہو اور جس نے اس ملک کو ایٹمی قوت بنانے میں اہم کردار بھی ادا کیا ہو۔ آج ہم اس فیصلے کو کتنا ہی غلط اور متنازعہ کہتے رہیں لیکن بھٹو صاحب کی وہ زندگی واپس نہیں لاسکتے۔
عدالتوں کو بھی اب سوچنا چاہیے کہ اس کے فیصلوں کے اثرات کتنے بھیانک اور افسوسناک بھی ہوسکتے ہیں، جن پر آج ہمارا پچھتاوا کرنا بھی مداوے کا باعث نہیں بن سکتاہے۔ نہ بھٹو صاحب کی زندگی واپس ہوسکتی ہے اور نہ میاں نوازشریف یا مریم نواز کے قید میں گذارے گئے دن۔