جزائر کی دنیا

جزائرکی دنیا سے پراسراریت کا عنصرہمیشہ منسلک رہا ہے اسی وجہسے زمانہ قدیم میں اس حوالے سے مختلف داستانیں مشہوررہی ہیں،


جزیرے کی عام تعریف یہی ہے کہ خشکی کا ایسا قطعہ جس کے چاروں طرف پانی ہو فوٹو : فائل

جزائر کی دنیا سے پراسراریت کا عنصرہمیشہ منسلک رہا ہے اس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ زمانہ قدیم میں جزائر کے حوالے سے مختلف داستانیں مشہور رہی ہیں، چاروں طرف سمندر ہونے کی وجہ سے لوگ ان داستانوں کی تصدیق بھی نہ کر سکتے تھے اور پھر داستان سنانے والے جزیرے کا نقشہ کچھ ایسا کھینچتے تھے کہ صحیح محل وقوع کی سمجھ ہی نہیں آتی تھی یا پھر اتنا خوف و ہراس پھیل جاتا تھا کہ لوگ اس کے بارے میں بڑے محتاط انداز میں بات کرتے تھے ۔

ان داستانوں سے یوں لگتا تھا جیسے وہ جزیرہ طلسم ہو شربا کا حصہ ہے ۔ جزیرے کی عام تعریف یہی ہے کہ خشکی کا ایسا قطعہ جس کے چاروں طرف پانی ہو اور اگر تین اطرف میں پانی اور ایک طرف خشکی ہو تو اسے جزیرہ نما کہتے ہیں۔ سرزمین عرب دنیا کاسب سے بڑا جزیرہ نما ہے۔ کسی ایک جگہ بہت سے جزیروں کے اجتماع کو مجمع الجزائر کہتے ہیں جیسے جزائر انڈیمان (کالا پانی) مالدیپ وغیرہ ۔ انڈونیشیا دنیا کا سب سے بڑا مجمع الجزائر ہے، جو تقریباً 17500چھوٹے بڑے جزیروں پر مشتمل ہے۔ جزیروں کو محل وقوع کے اعتبار سے دو قسموں بری اور بحری جزائر میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔



بری جزائر:
بری جزائر ایسے جزیروں کو کہتے ہیں جو کسی نہ کسی براعظم کے قریب واقع ہوں۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ یہ قدیم زمانے میں براعظموں سے ملے ہوئے تھے، جو بعد میں خشکی کے کسی قدر پست ہو جانے اور سمندر کے خشکی پر امنڈ آنے سے براعظموں سے الگ ہو گئے۔ براعظموں سے الگ ہونے کی بنا پر ان کے مابین سمندر تنگ اور کم گہرے ہیں، نیز ان کی ساخت' نباتات اور ان کے حیوانات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ جزائر کسی زمانے میں براعظم سے منسلک تھے۔ مثلاً ''سری لنکا'' ایشیا سے ''مڈغاسکر'' افریقہ سے اور ''فاک لینڈ'' جنوبی امریکہ سے کسی زمانے میں جڑا ہوا تھا۔



بحری جزائر:
جو جزائر براعظموں سے دور واقع ہوں اور براعظموں سے (یعنی نباتات' جمادات' حیوانات اور ساخت وغیرہ سے) مناسبت نہ رکھتے ہوں ان کو بحری جزائر کہتے ہیں۔ یہ عام طور پر بلند آتش فشاں پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں، جو سطح سمندر سے سرنکالے ہوئے ہیں۔ بحرالکاہل کے جزائز کا سلسلہ ایشیاء کے شرقی ساحل کے دوش بدوش شمال سے جنوب تک چلا گیا ہے اور ''حلقہ آتشیں'' کے نام سے معروف ہے۔ ان جزائر میں گرین لینڈ' آئس لینڈ اور کچھ چھوٹے جزائر جیسے قبرص، کریٹ' سسلی اور مالٹا شامل ہیں۔
یوں تو دنیا کے سمندروں میں ہزاروں کی تعداد میں جزائر واقع ہیں مگر ان میں سے بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس کے جزائرزیادہ مشہورہیں۔

بحرالکاہل کے جزائر:

ہوائی ریاست ہائے متحدہ امریکا کی 50 ویں ریاست ہے، جو امریکہ کی دیگر ریاستوں سے دور بحرالکاہل کے وسط میں واقع ہے۔ جزائر کی یہ کڑی' آتش فشاں پھٹنے کے نتیجے میں وجود میں آئی، جن میں سے صرف ایک ماؤنالوا آج تک متحرک ہے۔ جزیرے کے حقیقی باشندے پولینشیائی کہلاتے ہیں لیکن غیر ملکی یعنی (یورپی اور امریکی قبضہ گیروں) کی مسلسل آمد کے باعث اب یہ کل آبادی کا صرف دو فیصد رہ گئے ہیں۔ گویا یورپی حملہ آوروں نے جو سلوک امریکا کی اصل ریڈ انڈین آبادی کے ساتھ کیا وہی نسل کشی اس جزیرے کے بھی حصے میں آئی ۔ ہوائی کی سب سے اہم صنعت سیاحت ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک تہائی آبادی کا روزگار سیاحت سے وابستہ ہے۔ پرل باربر پر واقع مشہور بحری فوجی بندرگاہ بھی ملازمت کا بڑا ذریعہ ہے۔ یہ وہی بندرگاہ ہے جس پر جاپان نے جنگ عظیم دوم میں تاریخی حملہ کیا تھا۔ اس پر امریکا نے شکست کو سامنے دیکھتے ہوئے جاپان پر ایٹم بم برسا دیئے تھے۔ جاپان نے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی شکست تسلیم کر لی۔ یہاں پر گنا اور کیلے کے علاوہ اور بھی پھل کاشت کئے جاتے ہیں، جنہیں برآمد کیا جاتا ہے۔



بحر الکاہل کے مغربی حصے پر واقع گوام جزیرے کا رقبہ 541.3 مربع کلو میٹر ہے۔ جزیرے کے مغربی ساحل پر خلیج ایجن کے کنارے اس کا دارالحکومت ہاگاٹنا Hagatna المعروف ہاگانا ہے۔ یورپی کھوج کاروں کے جس ہراول دستے نے اس جزیرے کو دریافت کیا تھا وہ پرتگالی مہم جو فرڈی نانڈ میگیلن (Ferdinand Magellan) کی قیادت میں چھ مارچ 1521ء کو یہاں پہنچا۔ لہٰذا1561ء تک یہ اسپین کے قبضے میں رہا۔ پھر 1898ء میں اسپین امریکا جنگ کے بعد اسپین اس سے دستبردار ہو گیا اور اس وقت سے یہ امریکا کی تحویل میں ہے۔ 2009ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی1,78,000تھی۔ اس کے قریب بحرالکاہل کا ماریانہ ٹرینج نامی وہ مقام ہے جسے سمندر کی سب سے پست ترین جگہ قرار دیا جاتا ہے۔



بحراوقیانوس کے جزائر:
براعظم یورپ کے شمال مغربی ساحلوں پر جزائر برطانیہ واقع ہے، جو دو بڑے اور 50 ہزار سے زائد جھوٹے جزائر کا مجموعہ ہے۔ سیاسی طور پر یہ علاقہ دو علاقوں پر منقسم ہے، برطانیہ عظمٰی اور جمہوریہ آئرستان (آئر لینڈ)۔ برطانیہ عظمٰی چارحصوں پر مشتمل ہے، انگلستان' ویلز' اسکائستان (اسکاٹ لینڈ) اور شمالی آئر ستان ۔ جغرافیائی طور پر جزائر برطانیہ شمال اور مغرب کے بالائی علاقوں اور جنوب اور مشرق کے زیریں علاقوں میں تقسیم ہیں۔ چھوٹی پہاڑیاں' وسیع بنجر علاقے اور بڑے احاطوں میں چھوٹے قطعات زمین جزائر برطانیہ کے روایتی مناظر ہیں۔ آئرستان کو اپنی سرسبزی و شادابی کے باعث جزیرہ زمرد کہا جاتا ہے۔ اسکاٹ لینڈ اور ویلز پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہیں۔ انگلستان کے زیریں علاقے کی وسیع اور ہموار زمین اسے برطانیہ میں زراعت کا اہم ترین مرکز بناتی ہے۔ اگرچہ ملک خوراک کے حوالے سے خود کفیل نہیں لیکن گندم' آلو اور دیگر سبزیاں وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہیں۔ آئرستان اور وسطی انگلستان میں گلہ بانی بھی کی جاتی ہے جبکہ پہاڑی علاقوں میں بھیڑیں پالنا معمول ہے۔ آئرستان کی بیشتر آبادی دیہات میں رہتی ہے اور اکثریت زراعت کے شعبہ سے منسلک ہے۔

کینری جزائرکو عربی میں جزائر خالدات کہتے ہیں۔ بحر اوقیانوس کا یہ جزیرہ آج کل اسپین کے ماتحت ہے لیکن مغربی ممالک اس پر اپنا حق جتاتے رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ 4 جزائر کا مرکب ہے۔ بڑاکنیریا جزیرہ(Grand Canaria)، تنزیفی (Tenerife)، لانزروتی (Lanzarote) اور لاپالما(Lapalma) جبکہ چھوٹے سینکڑوں جزائر بھی موجود ہیں ۔ اس کا دارالحکومت سانٹا کروز (Cruzsanta) ہے۔ ان جزائر کی دنیا کی تاریخ میں بڑی اہمیت ہے۔ یہ امریکا کی دریافت تک دنیا کے انتہائی مغرب میں خشکی کا آخری حصہ سمجھے جاتے تھے۔ ان کے بعد واقع سمندر کو بحر ظلمات کہا جاتا ہے۔

سینٹ ہیلینا (Saint Helena) جنوبی بحراوقیانوس میں برطانیہ کے زیر قبضہ ایک جزیرہ ہے۔ سینٹ ہیلینا مشہور فرانسیسی فاتح ''نپولین بوناپارٹ'' کے آخری ایام کی قیام گاہ کے طور پر پوری دنیا میں مشہور ہے۔ نپولین کو 1815ء میں جلا وطن کر کے یہاں بھیج دیا گیا تھا جہاں 1821ء میں اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ سینٹ ہیلینا کی آبادی چند ہزار نفوس پر مشتمل ہے جس میں سے بیشتر افراد مغربی اور جنوبی افریقہ' جزائر برطانیہ اور اسکینڈے نیویا سے تعلق رکھتے ہیں۔



21مئی 2002ء کو جزیرے کی تمام آبادی کو باقاعدہ برطانوی شہریت دی گئی۔ جزیرہ کا کل رقبہ 410 مربع کلو میٹر ہے جس میں تینوں جزائر کے مجموعے شامل ہیں ۔ صرف سینٹ ہیلینا کا رقبہ 122مربع کلو میٹر ہے اور دارالحکومت جیمز ٹاؤن ہے۔ اپریل 2005ء میں برطانوی حکومت نے سفر کی سہولت کو آسان کرنے کے لئے ہوائی اڈے کے قیام کا اعلان کیا تاہم اس کی تکمیل کی تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا۔

بحیرہ کیربیئن سے ملحقہ جزائر اور ساحلوں کا علاقہ کیربیئن کہلاتا ہے۔ یہ علاقہ شمالی امریکا کے جنوب مشرق' وسطی امریکا کے مشرق اور جنوبی امریکا کے شمال اور مغرب میں واقع ہے۔ کیربیئن پرت کے اوپر واقع یہ علاقہ 7 ہزار سے زائد جزائر پر مشتمل ہے، یہ علاقہ غرب الہند بھی کہلاتا ہے جو 28 آزاد و محکوم علاقوں کا مجموعہ ہے۔ اس علاقے کا نام کیربیئن 15 ویں صدی کے اواخر میں یورپینز کی آمد کے موقع پر یہاں کے ایک گروہ (کیرب) سے موسوم ہے جو یہاں کی اصل آبادی تھی جبکہ دوسرا نام غرب الہند کرسٹوفر کولمبس کے اس نظریے کے باعث وجود میں آیا کہ وہ مرتے دم تک اس علاقے کو ہندوستان ہی سمجھتا رہا۔ یہ علاقہ اپنے خوبصورت ساحلوں اور تفریح گاہوں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں میں معروف ہے، اس لئے سیاحت یہاں کی اہم ترین صنعتوں میں سے ایک ہے۔ برصغیر میں اس کی شہرت کی سب سے بڑی وجہ کرکٹ کا کھیل ہے کیوں کہ ویسٹ انڈیز دو مرتبہ عالمی اعزاز حاصل کر چکا ہے۔



گوانتانامو کیوبا کے پندرہ صوبوں میں سے انتہائی مشرق میں واقع صوبہ ہے، اس کے صدر مقام کا نام بھی گوانتانامو ہی ہے۔ امریکا افغانستان جنگ کے بعد جنگی قیدیوں کو امریکا نے گرفتار کر کے یہاں پر عقوبت خانوں میں رکھا ہوا ہے، اسی وجہ سے اس کو عالمی شہرت ملی۔ گوانتانامو کی تہذیب اور طرز تعمیر بقیہ کیوبا سے مختلف ہے۔ اس کی اصل صورت گری 1786ء میں اسپین کے علاقے کیٹالین کے شمال مشرقی علاقے ایمپرڈن کے کیٹلین خاندانوں کے ہاتھوں ہوئی۔ 1959ء کے کیوبا کے انقلاب سے قبل گوانتا نامو عیسائیوں کی مذہبی رسومات کی تقریبات کے حوالے سے مشہور تھا۔ یہ صوبہ ہیٹی سے صرف 80 کلو میٹر دور ہے۔

برمودا بحراوقیانوس میں واقع چند جزائر کے مجموعے کا نام ہے، جو ریاست ہائے متحدہ امریکا کے مشرقی ساحل کے قریب واقع ہے۔ اس ملک کا دارالحکومت ہملٹن ہے۔ یہ 53.2 مربع کلو میٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے 123جزیروں پر مشتمل ہے۔ یہ جزائر 9 بڑے حصوں پر منقسم ہیں جن میں سے اہم ہملٹن ہے اور سینٹ جارج ہے۔ 2009ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 67837 ہے۔ ان جزائر کو 1503ء میں ایک ہسپانوی مہم جو ''جوان ڈی برمودیز'' نے دریافت کیا تھا لہٰذا اسی کے نام پر ان جزائر کو برمودا جزائر کہا جاتا ہے۔ برمودا سے بہاماس نامی جزائر کے بیچ میں سطح سمندر پر وہ پراسرار تکونی خطہ ہے جس میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن کی کوئی عقلی تشریح یا سائنسی توجیہہ اب تک نہیں کی جا سکی لیکن اگر اس امر کو دیکھا جائے کہ یہ خطہ حیرت انگیر طور پر مربع یا مخمس نہیں مثلث مانا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں