ایک ملٹی پر پزایجاد
مسلمان بنانے کاجذبہ اتنا شدید ہے کہ بیچارے خود اپنی طرف توجہ نہیں دے پاتے
کسی باہرکے ملک کا ایک وفد پاکستان کے مطالعاتی دورے پر آیاتھا، ایک ہفتے تک مختلف مقامات دکھائے گئے شخصیات سے ملوایاگیا اورجو بھی معلومات ان کو چاہیے تھیں وہ فراہم کی گئیں ،آخری دن وفد کے سربراہ نے مقامی گائیڈ یا ترجمان سے کہا کہ باقی تو سب کچھ سمجھ میں آگیا ہے لیکن ایک بات ابھی تک ہماری سمجھ میں نہیں آسکی ہے اوروہ یہ کہ ہمارے ہاں کی ڈیپارٹمنٹ کو چلانے کے لیے ایک تو وزیرہوتا ہے۔
اس کے بعد سیکریٹری ہوتا ہے لیکن تمہارے ہاں یہ جو تیسری جنس''معاون خصوصی'' کی ہوتی ہے، اس کی کیااہمیت یا ضرورت ہوتی ہے۔اس پر مقامی گائیڈ یا ترجمان نے کہا کہ یہ بات کمرے میں نہیں سمجھائی جا سکتی، باہرلان میں چلتے ہیں وہ اوروفد باہرلان میں نکل آئے تو ترجمان نے پہلے ایک وزیر کو بلایا اورآسمان کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا کہ میری انگلی کی سیدھ میں دیکھیے وہاں جو ستارہ ہے وہ آپ کو دکھائی دیتاہے یا نہیں؟
وزیرنے آسمان غورسے دیکھنے کے بعد کہا مجھے تو کوئی ستارہ دکھائی نہیں دیتا ۔گائیڈ نے وزیرکو رخصت کرکے سیکریٹری کو بلایا اورایسا ہی کرکے اس سے ستارے کی بابت پوچھا، سیکریٹری نے بھی اس کی انگلی کی سیدھ میں دیکھا، دیرتک دیکھا پھر بولامجھے تو کوئی ستارہ دکھائی نہیں دیتا، ترجمان نے اسے بھی رخصت کرکے معاون خصوصی کو بلایا اوراس سے بھی ستارے کے بارے میں پوچھا تو اس نے آسمان کو ایک ہی نظر دیکھتے ہوئے کہا۔ ہاں سر آپ کی انگلی کی سیدھ میں ایک ستارہ نظرآرہاہے، چمک رہاہے اورمیں اسے صاف صاف دیکھ رہاہوں۔
میں ابھی جاکر پریس کانفرنس بلاتاہوں اوراس کے سامنے بیان دیتاہوں کہ حضور نے آسمان میں دن کے گیارہ بجے ستارہ دیکھاہے۔ واہ جناب آپ کی بینائی تو غضب کی ہے، ویسے اگر آپ کہیں تو ستارے کے ساتھ چاند بھی دکھادیتاہوں یا دوچار اورستارے بھی۔ گائیڈ نے کہا نہیں ایک ہی ستارہ کافی ہے۔
اسے رخصت کرنے کے بعد اس نے حیران وپریشان وفد کے سربراہ سے کہا، یہی افادیت ہے معاون خصوصی کی ،یہ بڑے کام کی چیزہے، میرامشورہ تو یہ ہے کہ آپ بھی اپنے ملک میں اس تیسری جنس کو استعمال کرناشروع کردیں۔ وفد کے سربراہ نے کہا، نہیں جناب! ہم اپنے عوام کو دن میں تارے نہیں دکھاتے۔
دوسرے دن اخبارات میں معاون خصوصی کا بیان تفصیل سے آیا تھا کہ کس طرح ملک کی دوراندیش قیادت نے دن کو ستارے دریافت کرلیے اوراب حکومت کی کوشش ہے کہ عوام کو بھی دن کے وقت تارے دکھاناشروع کردے، بیان کے ساتھ معاون خصوصی کی تصویر بھی تھی جس میں وہ آسمان کی طرف انگلی اٹھائے ہوئے تھا۔اس وفد کاسربراہ بہت ہی اچھا آدمی تھا چنانچہ اپنے وطن واپس جاکر پاکستان پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں پاکستانیوں کی بہت تعریف کی گئی ہے۔
کتاب میں ان معاون خصوصیوں پر ایک پوراباب لکھا گیاہے کہ یہ بڑے باکمال لوگ ہوتے ہیں اور لاجواب ''سروس'' دیتے ہیں، یہ سرابوں میں نہ صرف کشتیاں چلاتے ہیں بلکہ مچھلیاں بھی پکڑ کرعوام کو کھلاتے ہیں ،ایک خشخاش کے دانے پر پوری کالونی بساسکتے ہیں اورلوگوں کو جیتے جی جنت پہنچاسکتے ہیں۔
کتاب میں ایک خصوصی باب پاکستان کے عوام پر لکھاگیاہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ پاکستانیوں کی یہ خصوصیت ہے کہ سب کو یہ تو معلوم ہے کہ ''دوسروں'' کو کیاکرنا چاہیے اوراس کام میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کو ذرابھی پتہ نہیں کہ انھیں خود کیاکرناچاہیے چنانچہ دن رات دوسروں کو سیدھی راہ پر لانے میں مصروف ہوتے ہیں، صبح اٹھتے ہی اس کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ دوسروں کو سیدھے راستے پر لائیں۔
دوسروں کو راہ راست پر لانے ،جنت الفردوس پہنچانے،مسلمان بنانے کاجذبہ اتنا شدید ہے کہ بیچارے خود اپنی طرف توجہ نہیں دے پاتے یعنی دوسروں کے کھیت میں گوڈی ،نلائی کرتے ہوئے اپنے ''کھیت'' کو بھول جاتے ہیں جو بنجر رہ جاتا ہے۔
یعنی وہی قصہ ہوجاتاہے کہ ایک ایسے ہی پرجوش مسلمان نے ایک کافرکو پکڑ کر ،اس کی چھاتی پر بیٹھ کر گلادباتے ہوئے کہا،کلمہ پڑھ، نیچے پڑے ہوئے کافرنے کہا، آپ بتائیں، میں پڑھتاہوں، دوسروں کو مسلمان بنانے میں اسے اتنی فرصت کہاں تھی کہ ''کلمہ'' یاد رکھتا۔چنانچہ اس نے دوچار تھپڑ اس کافرکو رسید کرتے ہوئے کہا۔ کیسے کافرہوتم ،کلمہ پڑھنابھی نہیں آتا ۔پاکستانیوں کی اوربھی بہت ساری صفات اس نے بیان کی ہیں مثلاًیہ جنگ کوکھیل سمجھ کر کھیلتے ہیں اورکھیل کو خاص طورپر کرکٹ کو جنگ سمجھ کر لڑتے ہیں۔
لیکن زیادہ تعریف اس نے پاکستانی ایجاد ''معاون خصوصی'' کی لکھی ہے ،لکھا ہے معاون خصوصی ایک ایسی ملٹی پرپز ایجاد ہے جس کی دنیا میں کہیں بھی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ ہر روز بیان کاانڈہ دیتی ہے جس سے چوزہ نکلتاہے اوراس چوزے کو ''پہلی ترجیح'' کہاجاتاہے۔