روپے کی شدید بے قدری اور برآمدات
مالی معاملات میں اس وقت بگاڑ پیدا ہوتا ہے جب برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہوں
عالمی مالیاتی ادارہ اپنے ممبر ممالک کو قرضوں کے اجرا سے قبل، ان کی معیشت کو سدھارنے کے نتیجے میں آئی ایم ایف وجود میں آیا ہے۔ اس وقت سے اسے تشکیل دینے والی عالمی قوتیں اس ادارے کے ذریعے بیشتر ملکوں کے مالیاتی نظام پر اپنے پنجے گاڑے جا رہی ہیں۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے دنیا کی بڑی طاقتوں کو یہ واضح پیغام دیا تھا کہ اب افریقہ ایشیا کے ممالک بیدار ہو رہے ہیں اور 1940 کے بعد سے 1970 تک افریقہ اور ایشیا کے بہت سے ممالک بتدریج آزاد ہوتے چلے گئے۔ آزادی کے فوراً بعد ان ملکوں نے ترقی کا راستہ اپنایا۔ آئی ایم ایف کی بنیاد ڈالنے والے امیر صنعتی ممالک بخوبی آگاہ تھے کہ نوآزاد ممالک اپنے مالی معاملات سلجھانے کی خاطر آئی ایم ایف سے رجوع کریں گے۔
مالی معاملات میں اس وقت بگاڑ پیدا ہوتا ہے جب برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہوں اور نئے آزاد ہونے والے ممالک کا سب سے اہم مسئلہ ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی معاشی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر تیزی کے ساتھ معاشی فلاحی منصوبے شروع کریں جس کے لیے مالیات، تکنیکی معاونت، منصوبہ بندی کے لیے مشاورت اور دیگر بہت سی باتوں کے لیے امیر صنعتی ممالک اور آئی ایم ایف، عالمی بینک وغیرہ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
بعد میں یہ ممالک جوکہ ترقی پذیر ممالک کہلائے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مصنوعات ہوں، مشینریاں ہوں، ٹرانسپورٹ ہو یا اور بہت سی اشیا وہ سب کی سب امیر صنعتی ممالک سے درآمد کرنے لگے۔ دوسری طرف عالمی مارکیٹ میں ایسی دخل اندازیاں ہوئیں کہ ترقی پذیر ممالک کی مصنوعات ہوں یا زرعی برآمدات ان سب کی قیمت کم کی گئی۔
لہٰذا ترقی پذیر ملکوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی رہا کہ ان کی برآمدی مالیت کم اور درآمدی مالیت زیادہ ہونے کے باعث وہ ایک عرصہ دراز سے مالیاتی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس طرح طاقتور ممالک اپنی مصنوعات کی قیمت زیادہ بٹورنے لگے اور غریب ترقی پذیر ممالک کی برآمدات کی قیمت کم ہونے پر ان کی آمدن کم رہی۔
اگر 1950 اور 1960 کی دہائیوں کا مطالعہ کیا جائے تو جس طرح مالی معاملات طے ہوتے تھے وہ بدل کر 1970 کی دہائی تک پہنچے پہنچتے بہت سے غریب ملکوں کے مالی معاملات کو عالمی سیاست کے ساتھ جوڑ دیا گیا ، جس طرح پاکستان کو کبھی گرے لسٹ کبھی بلیک لسٹ کا خطرہ اور دیگر شرائط کے ساتھ نتھی کردیا گیا۔
جہاں تک آئی ایم ایف کی بات ہے تو وہ پاکستان کو 70 کی دہائی سے اپنے برآمدات میں اضافے کی خاطر ایک اہم مشورہ جوکہ پاکستان کے لیے غیر موثر ہے اپنے روپے کی کم قدری کا دیتا چلا آیا ہے جس پر ہر پاکستانی حکومت زیادہ انحراف نہ کرتے ہوئے کم و بیش اپناتی رہی ہے لیکن برآمدات میں اضافہ حسب توقع کبھی نہیں ہوا بلکہ روپے کی کم قدری اپنے ساتھ بہت سارے مالی اور معاشی مسائل لے کر آتی رہی یہاں تک کہ معیشت کو بیمار، نحیف اور کمزور کردیا۔
اس کے باوجود روپے کی کم قدری کا مشورہ یہی دیا جاتا رہا اور اب تو اس بات کے مطالبے ہو رہے ہیں کہ روپے کی کم قدری جتنی بھی ہوتی رہے حکومت یا اسٹیٹ بینک اس میں مداخلت نہ کرے۔ نتیجے میں برآمدی مالیت کم حاصل ہو رہی ہے اور درآمدی مالیت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق روپے کی تاریخی کم قدری کے باوجود یعنی چند روز قبل تک ایک ڈالر 240 روپے کا تھا۔ روپے کی کم قدری کا مشورہ دینے والے ڈی ویلیوایشن کرنے پر یہ بھاشن دیتے تھے کہ اس سے برآمدات میں زبردست اضافہ ہوگا۔
اب پاکستان کے معاشی حکام کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا پاکستان کی برآمدات 25 ارب ڈالر سے 50 ارب ڈالر تک پہنچ گئی؟ اگر 50 ارب ڈالر کی برآمدات ہو جاتیں تو 80 ارب ڈالر کی درآمدات کے ساتھ تجارتی خسارہ محض 30 ارب ڈالر تک محدود رہتا اور پاکستان اس وقت جن شدید مالی مسائل سے گزر رہا ہے ایسا نہ ہوتا۔