ایبرڈین ۔۔۔آگے سمندر ہے

یونیورسٹی کی بیشتر عمارتیں اور سڑکیں اب بھی صدیوں پرانے پتھروں سے اپنی قدامت اور عظمت کا اظہار کر رہی ہیں


Amjad Islam Amjad October 09, 2022
[email protected]

عجیب اتفاق ہے کہ گزشتہ 38برس میں سولہ سترہ مرتبہ برطانیہ جانے کا موقع ملا اور تقریباً 12مرتبہ گلاسگو شہر کی زیارت بھی ہوئی لیکن برطانیہ اس سے آگے بھی ہے، اس کا بوجوہ پتہ نہ چل سکا کہ پروگرام میں شمال کی طرف آخری اسٹیشن گلاسگو ہی ہوا کرتا تھا۔

ابتدا میں ہمارے میزبان ڈاکٹر شفیع کوثرہوا کرتے تھے جن سے بہت اچھی یادیں وابستہ ہیں، اس کے بعد برادرم احمد ریاض ، عزیزہ راحت زاہد اور زبیر ملک سمیت بہت سے میزبانوں کی محبت سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا اور ہربار گلاسگو یاترا کا تاثر پہلے سے زیادہ خوشگوار اور گہرا ہوتا چلا گیا۔

تین چار سال قبل عزیزی فخر اقبال ہمارے قافلے کا حصہ بنے تو معلوم ہوا کہ وہ اور ان کے بھائی نذر عباس ''ڈنڈی'' شہرمیں رہتے ہیں جو گلاسگو سے کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر اُوپر کی طرف واقع ہے لیکن یہ بات شہر کے نام کے انوکھے پن سے محفوظ ہونے تک رہی، سو جب عامر جعفری نے یہ بتایا کہ ایبرڈین جاتے ہوئے ہم ''ڈنڈی'' سے بھی گزریں گے تو سب سے پہلی پریشانی یہی دامن گیر ہوئی کہ یہ اتنا لمبا سفر ایک دن میں کیسے ہوگا کہ اسی شام کو ایبرڈین میں غزالی والوں کی فنڈ ریزنگ بھی ہے جس کے لیے یہ سارا سفر کیاجائے گا۔

طے پایا کہ ہم مانچسٹر کی پریمیئر ان سے صبح سات بجے روانہ ہوں، ناشتہ راستے میں کسی سروس میں کریں اور دوپہر کا کھانا ''ڈنڈی'' میں فخر عباس کے گھر پر کرنے کے بعد اس کو بھی ساتھ لیں اور کوشش کرکے چھ بجے تک ایبر ڈین پہنچ جائیں جہاں عزیزی خالد ہمارے منتظر ہوں گے، معلوم ہوا کہ ایبرڈین نامی اس ساحلی شہر کو غیر معمولی شہرت نصف صدی قبل اس کے سمندر میں تیل کی دریافت سے ملی کہ اب یہ علاقہ برطانوی تیل کے مرکز کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

کل تین لاکھ کی آبادی میں پاکستانیوں کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے مگر یہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ، ڈاکٹر اور بالخصوص انجینئرز ہیں اور یہاں کی کمیونٹی خوش حال بھی ہے اور اپنی روایات کی پاسدار بھی لیکن لندن سے بہت زیادہ دُوری کی وجہ سے ( کہ اس کے بعد دُور تک بس سمندر ہی سمندر ہے) یہاں باہر سے بہت کم لوگ آتے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ غزالی ایجوکیشن کا یہ فنڈریزر اس علاقے میں اس طرح کی ہونے والی پہلی تقریب تھی مقامی پاکستانی کونسلر کے خوش آمدیدی کلمات کے دوران ہال میں لگائی ہوئی تمام میزیں بھر گئیں اور وہاں کے دوستوں نے نہ صرف تقریب میں بھر پور حصہ بھی لیا بلکہ اپنی سخن فہمی کا بھی جی کھول کر ثبوت دیا۔

عین ممکن ہے کہ ایبرڈین کا یہ تاثر یہیں تک رہتا مگر گزشتہ روز صبح ہمارے مقامی میزبان عزیزی خالد نے (جن سے پہلی ملاقات مانچسٹر ائیر پورٹ پر اُترتے ہوئے ہوئی تھی کہ وہ وہاں اپنی والدہ کو پاکستان کے لیے رخصت کرنے آئے تھے)ہمیں اپنا شہر، ساحل ، سمندر اور تاریخی یونیورسٹی دکھانے کا ایک مختصر مگر تیز رفتار پروگرام بنا رکھا تھا۔

ساحل سمندر پر ہوا خوری اور سیلفی گردی کے بعد جب یہ قافلہ یونیورسٹی کی طرف روانہ ہو اتو یہ محض ایک sight seeingکا حصہ تھا مگر یونیورسٹی ایریا میں داخل ہوتے ہی ایک دم جیسے سب کچھ بدل گیا جب یہ معلوم ہوا کہ اس کی بنیاد 1495ء میں رکھی گئی تھی یعنی 1492ء کے سقوطِ غرناطہ کے محض تین برس بعد اس خیال کے آتے ہی ذہن میں ایک عجیب سی فلم چلنا شروع ہوگئی کہ مسلمانوں نے دنیا کے مختلف حصوں اور بالخصوص اسپین یعنی اندلس میں سات سو برس تک نہ صرف حکومت کی بلکہ اس دوران میں علمی سطح پر ایسی ترقی کی جو اس وقت تک ایک ریکارڈ کا درجہ رکھتی تھی۔

یہاں کے علماء ، فلسفیوں اور سائنسد انوں نے کائنات اور کرہ ارض کے ایسے ایسے رازوں کی نقاب کشائی کی جن کی بنیاد پر آگے چل کر یورپ کی تمام تر ترقی کی بنیاد کھڑی ہوئی اور ایبر ڈین کی یہ یونیورسٹی گویا اس ''انتقال'' کی ایک زندہ مثال تھی کہ اس دور دراز اور اس وقت کے پسماندہ علاقے میں ایک ایسی بڑی اور شاندار یونیورسٹی کا آغاز ہوا جس کا تعلق علوم و فنون کی اس جدید لہر سے تھا جس نے آگے چل کر پرنٹنگ پریس کی ایجاد ، تحریک احیائے علوم، صنعتی انقلاب ، سائنسی انکشافات اور جدید ٹیکنالوجی پر دسترس کی وہ فضا پیدا کی جس کے باعث آج مغر ب اور سفید فام قومیں پوری دنیا پر فکری اور عملی دونوں اعتبار سے حکومت کر رہی ہیں۔

یونیورسٹی کی بیشتر عمارتیں اور سڑکیں اب بھی صدیوں پرانے پتھروں سے اپنی قدامت اور عظمت کا اظہار کر رہی ہیں، یہاں محترم ایس ایم ظفر کے قریبی ساتھی بشیر صاحب کے انجینئر بیٹے عباس سے بھی ملاقات ہوئی جو خاص طور پر ہمارے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے لیے آئے تھے، وہ ہمیں ایک قدیم طرز کے کافی ہائوس میں لے گئے جو اند رسے توجدید تھا مگر اس کی بیرونی دیواریں اور ارد گرد کا ماحول اب بھی صدیوں پرانی فضا کی نمایندگی کر رہا تھا، سامنے نظر آنے والی پرانی عمارت کی کھڑکیاں پتھرو ں سے بند کر دی گئی تھیں، معلوم ہوا کہ کسی زمانے میں گھروں کی کھڑکیوں کے حوالے سے ٹیکس عائد کیا جاتا تھا، اس لیے لوگ ان کو بند کر دیتے تھے۔

ہمارا اگلا ٹھکانہ گلاسگو تھا جہاں اس سلسلے کا آخری پروگرام طے تھا، برادرم زبیر نے اپنے گھر پر چائے کے لیے سب دوستوں کو روک لیا لیکن میری فرمائش پر مجھے ہوٹل Crown Plazaپہنچا دیا گیا تھا یہاں میرا عزیز بھتیجا سلمان شاہد میرا انتظار کر رہا تھا کہ اس مختصر قیام میں اس سے ملنے کے لیے اور کوئی وقت نہیں نکل رہا تھا،اس کو خوش،مطمئن اور خوش حال دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اس نے ماشا اﷲ وہاں اب اپنا ذاتی گھر بھی خرید لیا ہے، میرے کمرے کی کھڑکی سے دریا ئے کلائڈ اپنے پورے جمال کے ساتھ بہتا ہوا نظر آرہا تھا اوراِرد گرد روشنیاں ہی روشنیاں تھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔