جہاں کوئی کرتا نہیں بد زبانی
نعتیہ مجموعے اورانتخاب ہمارے شعری ادب کے ماتھے کا جھومرہیں لیکن خیال کے اعتبارسے یہ منفردمجموعہ ان سب پربازی لے گیا ہے
یہ ماہ مبارک شروع ہوا تو ایک آرزو جاگی اور ایک یاد نے دل میں انگڑائی لی۔ آرزو یہ تھی کہ ہم جو ریاست مدینہ کے داعی ہیں، کیوں اپنی منزل پر پہنچ نہیں پاتے۔ اس کے باوجود کہ ہم نعرے ریاست مدینہ کے بھی لگاتے ہیں، نظام مصطفی ﷺ کا دم بھی بھرتے ہیں اور آپ کے نام نامی پر دل و جان سے فدا بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے جسم و جاں اس برکت سے محروم رہتے ہیں جو اس ذات با برکات کا لازمہ ہے۔
یہ تو ہوئی آرزو۔ جہاں تک یاد کا معاملہ ہے، اس کا تعلق سلیم احمد مرحوم سے ہے۔ سلیم احمد مرحوم کی یاد نے کیوں سر اٹھایا، اس کاتعلق ان کے ایک انٹرویو سے ہے۔ ادب کے تعلق سے جیسے انٹرویو پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے کیے ہیں،قریب و دور ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سلیم احمد سے ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا کہ کیا شاعری آپ کا کمزور بچہ ہے؟ مرحوم یہ تبصرہ سن کر مسکرائے اور ترکی بہ ترکی جواب دیا: 'جی ہاں یہ میرا کمزور بچہ ہے لیکن ہاتھی کا بچہ ہے'۔
ان ہی سلیم احمد کا ایک نعتیہ شعر ہے ؎
طبیعت تھی مری بہت مضمحل کسی کام میں نہ لگتا تھا دل
زباں پہ محمد کا نام آ گیا، مجھے آج لطف کلام آ گیا
یہی شعر تھا جس کی برکت سے شہاب ظفر کی یاد تازہ ہوئی۔ شہاب ہمارے بالکل ساتھ کے تو نہیں ہیں۔ ہم جب جامعہ کراچی میں وارد ہوئے تو شہاب بھائی جامعہ کو نیا پرانا کر چکے تھے۔ ایک ذہین اور دل ربا شخصیت کے مالک جن کی مقبولیت جامعہ کے ہر طبقے میں تھی۔ مقبولیت بھی ایسی جسے دیکھ کر کچھ دل مچل اٹھتے اور کچھ حسد اور جلن میں مبتلا ہو جاتے۔
یہ اسی حسد اور جلن کا شاخسانہ تھا کہ ایک بار انھیں کچھ تکلیف کا سامنا بھی کرنا پڑا جس پر اپنے اور غیر سب دکھی ہوئے۔ شہاب ظفر کو پہنچنے والی تکلیف جامعہ میں ایک بڑی بحث کا نکتہ آغاز بن گئی کہ یہ جو ہمارے تعلیمی اداروں میں کچھ ہتھ چھٹ پائے جاتے ہیں، ان کو لگام دینے والا کوئی ہے کہ نہیں؟
سلیم احمد اور ان کے شعر کی یاد سے شہاب ظفر کی یاد کیسے پھوٹی؟ خود مجھے اس پر حیرت تھی لیکن ذرا سا غور کرنے کے بعد سمجھ میں آیا کہ وہ سوال شہاب ظفر کے تعلق سے جس نے مجھے ہمیشہ پریشان کیا، اس کا تعلق دراصل اس سوال سے جڑا ہوا ہے جس کا تعلق اس بات سے ہے جس کے ذکر سے اس گفتگو کا آغاز ہوا ہے۔
مزید وضاحت اس کی یہ ہے کہ ایک بار جب ہمیں یہ بتا دیا گیا کہ مسلمان وہ نہیں جس کے زبان اور ہاتھ سے کوئی دوسرا شخص محفوظ نہیں۔ اگر یہ حکم ہمارے ایمان کا حصہ ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ کوئی ہماری زبان سے محفوظ ہے اور نہ ہاتھ سے؟ہمارے عہد میں ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا سوال یہی ہے۔
یہ سوال میں نے ایک بار کسی دانا سے پوچھ لیا۔ ہم جیسے کم علموں کا روّیہ عجیب ہوتا ہے۔ ہاں اور نہ میں جواب چاہتے ہیں حالاں کہ ہماری روایت کا معاملہ مختلف ہے۔
ہماری روایت کیا ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے اس دہقان کو یاد کرنا چاہیے جو پیٹ میں درد کی شکایت لے کر حکیم صاحب کے ہاں پہنچے۔ بجائے اس کے کہ حکیم صاحب پیٹ کے درد کی کوئی دوا مریض کو دیتے، انھوں نے نظر کو جلا بخشنے والے سرمے کی ایک سلائی اس کی آنکھ میں پھیر دی کہ بندہ خدا،اگر تمھاری نظر ٹھیک تھی تو جلی ہوئی روٹی کیوں کھائی؟
ہمارا نظریاتی اور اخلاقی معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ میں اپنا سوال لے کر جس بزرگ کے پاس پہنچا تھا، انھوں نے ایک غضب کیا، مجھی سے ایک سوال پوچھ لیا کہ یہ جو ہمارا ملک پاکستان ہے، اسے کیوں بنایا گیا تھا؟ عرض کیا کہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟یہ ملک اس لیے بنایا گیا کہ ہمارا ایک نظریہ ہے۔
ہماری کچھ نظریاتی، تہذیبی، معاشرتی اور اقتصادی امنگیں ہیں۔ یہ امنگیں اور تقاضے تھے جن کی تکمیل کے لیے ہمارے بزرگوں نے یہ ملک بنایا۔
' شاباش، درست کہتے ہو'
بزرگ نے فرمایا مگر پلٹ کر ایک اور سوال داغ دیا کہ جن باتوں کا تم نے ذکر کیا ہے، اگر یہی حقیقت ہیں تو پھر ہماری قومی شاعری میں ان باتوں کا ذکر کیوں نہیں ہوتا یا کم کم ہوتا ہے؟میں احتراماً خاموش رہا کہ بزرگوں کوپلٹ کر جواب دینا بھی مناسب نہیں، بہتر ہے کہ وہ خود ہی لب کشائی فرمائیں اور اس معمے کو حل کریں۔
فرمایا کہ مٹی اور در و دیوار بھی کچھ کم اہم نہیں ہوتے بلکہ بہت اہم ہوتے ہیں لیکن اس در و دیوار کا کیا کرنا جن میں روح نہ ہو۔ یہی وجہ ہے پوری توانائی کے ساتھ پاکستان کا نعرہ لگانے کے باوجود پاکستانیت کی خوشبو ہمارے رگ و پے سے نہیں پھوٹتی۔ اپنے ملک کے بارے میں جو جتنی بلند آہنگ بات کرتا ہے، اسی ذوق و شوق کے ساتھ وہ ٹیکس چوری کرتاہے۔
سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتا ہے، بجلی اور گیس کی چوری کرتا ہے، لوگوں کو گالی دیتا ہے۔ مسجد نبوی میں خواتین کو نشانہ بنا لیتا ہے حتیٰ کہ توشہ خانے کو بھی ذاتی میراث سمجھ لیتا ہے پھر بھی دعوی کرتا ہے کہ جتنا بڑا وہ پاکستانی اور ریاست مدینہ کا دعوت دار ہے، شاید ہی کوئی ہو۔
کچھ ایسا ہی معاملہ مذہب کے بارے میں ہمارے رویوں کا بھی ہے۔ در و دیوار پر مر مٹنے کی بات ہم بہت کرتے ہیں۔ کہیں جانے کی تڑپ ہم میں سوا ہوتی ہے، اسی پاک مٹی میں مٹی ہو جانے کی آرزو کی سچائی میں بھی کوئی کلام نہیں۔ سبب یہ ہے کہ تعلق اور وسیلہ رشتے میں کچھ ایسی توانائی بھر دیتا ہے جس کا بدل کوئی اور تعلق اور واسطہ فراہم کر ہی نہیں سکتا۔ یہ ایسی طاقت ہے جو ہمیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔
ہمیں اس پر ناز ہے تو بجا ناز ہے۔ اپنے امتیاز اور انفرادیت پر اگر فخر نہ کیا جائے تو یہ غیر فطری ہو گا لیکن سوال پھر وہی ہے کہ یہ جذبہ بلکہ دعویٰ ہماری زندگی کو بدلتا کیوں نہیں، ہمارے روّیوں میں اس سے طہارت کیوں پیدا نہیں ہوتی؟ سبب ایک ہی ہے۔ ہمارے روّیوں میں جذبہ، سچائی اور شدت چاہے جتنی بھی ہو، اصل پیغام سے رو گردانی کی جائے تو زندگی کیسے بدلے گی؟
یہی سب تو ہے کہ ہم ریاست مدینہ کے احیا کے دعوے بھی کرتے ہیں اور ہماری زبان آگ بھی اگلتی ہے۔ کسی کو ہم میر جعفر قرار دیتے ہیں، کسی کو میر صادق۔ کوئی ہماری نگاہ میں جانور ہے اور کسی کو چور اور ڈاکو قرار دے کر ہمیں قرار آتا ہے۔
ہمارے ان ہی روّیوں کے بیچ سے ایک ایسی آواز اٹھی ہے جس میں محبت اور جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور ہماری روایتی وارفتگی اور تڑپ بھی اس میں پائی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس محبت اور تڑپ کی روح یعنی اس پیغام اور تعلیم کی بات بھی کی گئی ہے جس کے لیے وجہ تخلیق کائنات کو انسانوں کی طرف رحمت بنا کر اتارا گیا۔ اس آواز کا عنوان ہے:' مناجات مدینہ'مناجات مدینہ کیا ہیں، انھیں سمجھنے کے لیے ہمیں ان کے مرتب اور مدون شہاب ظفر کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ وہ لکھتے ہیں:'
میری ایک مدت سے دلی تمنا تھی کہ میں ایسے اشعار پر مبنی ایک مناجات مدینہ ترتیب دوں جس کو دعائیہ انداز میں پڑھا جاسکے'۔
ہمارے دوست اور بھائی کا یہی پاکیزہ خواب 'مناجات مدینہ'کے نام سے تعبیر پا چکا ہے۔ اس مجموعے میں انھوں نے دور حاضر کے اساتذہ اور متاخرین کے ان نعتیہ اشعار کا انتخاب پیش کیا ہے جس میں مدینہ منورہ کے پاکیزہ در و دیوار کو چھونے، بوسہ دینے اور اسی خاک میں خاک ہو جانے کی امڈتی ہوئی آرزو بھی موجود ہے اور اس ذات پاک کے پیغام کو حرز جاں بنا لینے کی جستجو بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔
نعتیہ مجموعے اور انتخاب ہمارے شعری ادب کے ماتھے کا جھومر ہیں لیکن خیال کے اعتبار سے یہ منفرد مجموعہ ان سب پر بازی لے گیا ہے۔ اس کے لیے بھائی شہاب ظفر کو دلی مبارک باد۔ مجھے قوی یقین ہے کہ یہ مبارک کاوش ان کے لیے تو ذریعہ نجات بنے گی ہی ، ان کے توسط سے ہم گناہ گاروں کے لیے بھی توشہ آخرت بن جائے گی۔ ان شااللہ۔آخر میں برکت کے لیے 'مناجات مدینہ' میں شامل مولانا منصور الحق ناصر کا ایک شعر ؎
کسی کو کسی سے نہیں بدگمانی، جہاں کوئی کرتا نہیں بد زبانی
وہ باشندے جس کے رکھتے نہیں کینہ، مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ