ایک دلیر اورنڈر وزیرخزانہ وقت کی ضرورت

قوم نے دیکھ لیاہے کہ اسحاق ڈارنے کس طرح اُسے قابو کرناشروع کیااوروہ اپنے دعوے کے مطابق اُسے 200تک واپس بھی لے آئیں گے


Dr Mansoor Norani October 11, 2022
[email protected]

پاکستان جیسے ملک جس کی معاشی حالت ہمیشہ مشکلات سے دوچار رہتی ہے ،وہاں کی وزارت خزانہ کی ذمے داریاں باقی تمام وزارتوں سے زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ اس کے وزیر خزانہ کو بہت پھونک پھونک کر قدم بڑھانا ہوتے ہیں ، اس کا ایک غلط فیصلہ قوم کو کئی سالوں کے لیے نہ صرف مصائب سے دوچار کرسکتاہے بلکہ اُسے غیروں کا محتاج بھی بناسکتاہے۔

مضبوط معاشی حالات کے لیے سیاسی استحکام بھی ضروری ہواکرتاہے اورہماری معاشی بدحالی کی ایک بڑی وجہ بھی یہی رہی ہے۔ یہاں کبھی بھی سیاسی استحکام قائم نہیں رہا، جب کبھی حالات کچھ بہتری کی طرف جانے لگتے ہیں اورایسالگنے لگتاہے کہ یہ ملک اب شاید ترقی وخوشحالی کی راہ پر چل پڑاہے کہ اچانک پھر کہیں سے کوئی طوفان کھڑا کر دیاجاتاہے اورسارانظام مملکت ہی زمین بوس ہوجاتا ہے۔

ایک اچھی بھلی حکومت جسے پارلیمنٹ میں بھی دو تہائی اکثریت حاصل ہوتی ہے اور وہ قوم کے مسائل سے مناسب انداز میں نمٹ بھی رہی ہوتی ہے بناء کسی خاص وجہ کے لپیٹ دی جاتی ہے۔سیاسی عدم استحکام کا یہ سلسلہ زمانے سے ہماری خود کفالت اورخود انحصاری کی راہ میں روڑے اٹکاتا رہا ہے۔کرنے والے اپنا کام کرجاتے ہیں اورہم صرف لکیریں ہی پیٹتے رہ جاتے ہیں۔

یہ عدم استحکام کس عالمی طاقت کی شہ پر پیدا کیا جاتاہے، یہ ہم سب کو معلوم بھی ہے لیکن ہماری مجبوری دیکھیے کہ ہم اس کانام بھی نہیں لے سکتے ۔ وہ عالمی طاقت براہ راست کوئی کاروائی نہیں کرتی بلکہ ہمارے اندر ہی سے ایسے مہرے تلاش کرتی ہے جو اس کی اس سازش کو کامیاب و کامران کرتے رہتے ہیں۔

ہمارے یہاں جب بھی سیاسی استحکام پیدا ہونے لگتاہے اورملک انحطاط پذیری کے دور سے نکل کرترقی کی راہ پرگامزن ہونے لگتاہے کچھ خفیہ ہاتھ اپنا کام کرجاتے ہیں ۔ ہمارے بعد میں معرض وجود میں آنے والے ممالک آج ہم سے بہتر پوزیشن میں ہیں اورہم ابھی تک قرض اور امداد کے دلدل سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ بیسیوں مرتبہ آئی ایم ایف کے شکنجے میں کسے بھی گئے اور پھر کسی کی کوششوں سے اس شکنجے سے باہر بھی نکل آئے لیکن دوچار سال بعد پھر وہی شکنجہ پہلے سے زیادہ سخت ہوکر ہماری پسلیاں دبوچنے لگتاہے۔

2013 میں ہمارا یہ ملک انتہائی مشکلات سے دوچارتھا،جب میاں نوازشریف کو اس قوم نے زمام اقتدار سنبھالنے کے لیے جمہوری اختیار سے نوازا تھا۔ ملک بھر میںدہشت گردی کاراج تھا، ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی تھی، ہرروز کوئی نہ کوئی بم دھماکا یاخود کش حملہ ہمارے بے گناہ شہریوں کی جانیں لے رہاتھا۔ کراچی جیسے بڑے اہم شہر میں امن وامان کافقدان عروج پر تھا۔ تمام کاروباری لوگ اوربزنس مین یہاں کاروبار کرنے سے ہچکچارہے ہوتے تھے۔

توانائی اوربجلی کی لوڈ شیڈنگ سے اس ملک کے عوام پریشان تھے مگرمیاں نوازشریف نے اِن مشکل ترین حالات سے نمٹنے کے لیے ہمت سے کام لیااور پھرقوم نے دیکھاکہ ایک ایک کرکے یہ تمام مشکلیں ختم ہوتی گئیں اورسی پیک جیسے عظیم منصوبے سے یہ ملک ترقی وخوشحالی کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا، لیکن ہمارے عالمی دشمنوں کو میاں صاحب کی یہ کارکردگی ایک آنکھ نہیں بھائی اورانھوں نے بالآخرانھیں تخت سے بے دخل کرکے ہی دم لیا۔وہ دن ہے اورآج کادن ہمارا یہ ملک ترقی کے بجائے تنزلی کی راہ پر پھنستاہی چلاگیا۔ہمارا جو روپیہ 2017 میں ڈالرکے مقابلے میں 104 پر تھا آج 244تک پہنچ گیا۔میاں صاحب کونااہل کروانے کی جو قیمت اس قوم کواداکرناپڑی ہے وہ شاید ہی کسی اور قوم کوپڑی ہو۔

عمران خان صاحب کے چارسالہ دورحکومت میں چار وزراء خزانہ تبدیل ہوئے اورسب کے سب ناکام رہے ۔ اپریل 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں جب میاں شہباز شریف نے حکومت سنبھالی تو اُن کے پاس بھی سوائے مفتاح اسمعیل کے کوئی اوردوسرا نعم البدل موجود نہیں تھاجسے اِن مشکل حالات میں وزارت خزانہ سنبھالنے کی دعوت دی جاتی۔

مفتاح صاحب کی باتوں سے تو ایسالگ رہا تھا کہ جیسے وہ قوم کو اس معاشی دلدل سے چند مہینوں میں نکال باہر کرلینگے ، لیکن اُن کی چھ ماہ کی کارکردگی کے نتیجے میں قوم مزید مشکلات اوربے یقینی کی کیفیت میں غرق ہونے لگی۔ ڈالرکی اُڑان کو بھی وہ قابونہیں کرسکے اور صرف دلاسے ہی دیتے رہے کہ ڈالر اب نیچے آیاکہ تب آیا۔ساتھ ہی ساتھ انھوں نے IMF سے جن شرائط پرمعاہدہ کرڈالا وہ شوکت ترین کے معاہدے سے بھی زیادہ سخت شرائط پرمبنی تھا۔پٹرول پرلیوی کی مد میں شوکت ترین نے 30 روپے فی لٹر پرآمادگی ظاہر کی تھی جب کہ مفتاح صاحب اُسے 50روپے پر مان گئے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اُلٹاوہ موجودہ وزیرخزانہ اسحاق ڈارکو جو اُن کی اپنی جماعت سے ہیں تنقید کانشانہ بنارہے ہیں کہ یکم اکتوبر کو پٹرول پرلیوی میں اضافہ کیوں نہیں کیا۔

مفتاح اسمعیل بلاشبہ ایک اچھے ماہر اقتصاد یات ہونگے لیکن کسی ادارے یاملک سے ایگریمنٹ کرنے میں وہ شاید اتنے مشاق یاماہر نہ ہوں ۔ جناب اسحاق ڈارجیسے بھی ہیں لیکن وہ ایک اچھے بارگینر ہیں ۔

IMF سے انھوں نے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ معاہدے کیے اورپھر ثابت بھی کردکھایاکہ وہ اُسے کامیابی سے مکمل کرکے انھیں خیرباد بھی کر پائے۔ مفتاح اسمعیل نے قوم کو مشکلات سے نکالنے کے بجائے انھیں قربانی کا بکرا بنانے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی ۔وہ پہلے دن سے قوم کوقربانی دینے پرراضی اورراغب کرتے رہے اوراپنی چھ ماہ کی وزارت مکمل ہونے پربھی وہ یہی چاہ رہے ہیں۔

اسحاق ڈار نے درست فرمایا ہے کہ اب میں وزیر خزانہ ہوں ، IMF سے بات چیت اب میں کروںگا، مفتاح صاحب فکرکرناچھوڑدیں۔ پیڑول پر صرف دوماہ میں 37روپے فی لٹر لیوی لگانے کے باوجود مفتاح صاحب پریشان ہیں کہ IMF کہیں ناراض نہ ہوجائے۔ یہی ڈر اورخوف انھیں قوم کے حق میں بولنے سے بھی روکتارہااوروہ ہماری تاریخ کاسب سے خراب اوربدترین معاہدہ کربیٹھے جس کاخمیازہ اب اس قوم کو اداکرناپڑیگا۔

ڈالر کو قابو کرنے میں وہ بری طرح ناکام رہے۔ قوم نے دیکھ لیاہے کہ اسحاق ڈار نے کس طرح اُسے قابو کرناشروع کیااوروہ اپنے دعوے کے مطابق اُسے 200تک واپس بھی لے آئیں گے۔اُن کی باتوں میں آج بھی وہی اعتماد جھلک رہاہے جو ہم نے 2013 میں بھی دیکھاتھا۔ ایک اچھے، نڈر اوردلیر ماہرمعاشیات کی پاکستان کو بہت ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں