سلگتا ہوا کشمیر اور اہلِ قلم کی بے حسی
بھارتی حکومت 05اگست 2019 کے بعد کشمیرکا مسلم کلچر،ان کی زبان اورآبادی کا تناسب بدل دینے کے خطرناک منصوبے پرعمل پیراہے
آج مجھ سے کہا جائے کہ کوئی سچا مردِ مومن دکھاؤ تو میں لاہور میں پروفیسر سلیم منصور خالد کا پتہ بتادوں گا۔ سچے مردمومن کی سب سے بڑی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ ہوسِ زر اور حب جاہ سے بے نیاز ہوتا ہے۔
اسے نہ ستائش کی تمنا ہوتی ہے، نہ صلے کی پرواہ! وہ جو کچھ بھی کرتا ہے، اپنی زبان اور قلم سے جو بھی جدوجہد کرتا ہے اس کا مقصد خالقِ کائنات کی خوشنودی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ سلیم منصور صاحب میرے بچپن کے دوست ہیں، میں انھیں کئی دہائیوں سے جانتا ہوں۔ وہ ذاتی، شخصی اور دنیاوی مفاد سے بے نیاز ہوکر راہِ حق پر چل رہے ہیں اور اس کٹھن راہ کی آبلہ پائی میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ ہم جیسے خطاکار اب انھیں حسرت سے دیکھتے ہیں۔
انھیں یہ غیر معمولی اعزاز بھی حاصل ہے کہ جو رسالہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جیسی بلند پایہ شخصیت کی زیرِ ادارت چھپتا تھا آج سلیم منصوراس کے مدیر ہیں اور معروف شاعر جناب انور مسعود سمیت بہت سے صاحبانِ علم و دانش کی متفقہ رائے ہے کہ انھوں نے رسالے کا معیار گرنے نہیں دیا بلکہ اس کا کینوس وسیع کرکے اس کے تنوع میں اضافہ کیا ہے۔ وہ عالمی سیاست اور معیشت پربھی نظر رکھتے ہیں اور رسالے میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے حالات اور مسائل پر بڑے معلومات افزاء مضامین شایع کرتے ہیں۔
بانی ٔپاکستان نے یہ کہہ کر اہلِ پاکستان کو بہت بڑی حقیقت سے آگاہ کیا تھا کہ ''کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے'' لیکن قائدؒ کے نام نہاد جان نشینوں اور وطنِ عزیز کے حکمرانوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیاہے، مگر سلیم منصور خالد نے کشمیر کا پرچم ایسے عزم اور ولولے سے بلند کیا ہے کہ اسے نیچے نہیں آنے دیا۔
ماہنامہ ترجمان القرآن میں وہ کشمیری دانشوروں اور لکھاریوں کی تحریریں بھی شایع کرتے ہیں اور قارئین کو وادی کے اصل حقائق سے آگاہ رکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب 'کشمیر 5 اگست 2019 کے بعد' مارکیٹ میں آئی ہے، جس میں ایک طرف اس جنت نظیر خطے کے رستے ہوئے زخم اور کشمیریوں کے لہولہان چہرے دنیا کو دکھائے گئے ہیں اور دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے مسلمان ادیبوں، شاعروں اور قلمکاروں کی مجرمانہ بے حسی کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے ۔
یہ کتاب کشمیر کے بارے میں اتنی مفصّل دستاویز ہے کہ یہ پاکستان کی سینیٹ اور اسمبلیوں کے تمام ارکان کے زیرِ مطالعہ اور یونیورسٹی کے ہر استاد اور ہر طالب علم کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ کتاب کا آغاز کشمیرکے سب سے مقبول، مدبر اور بہادر راہنما سید علی گیلانی مرحوم کے اس حیات آفریں پیغام سے ہوتا ہے کہ ''تاریخ گواہ ہے کہ حق و صداقت، یکسوئی اور یک جہتی کے سامنے تیروتفنگ، اسلحے، گولہ بارود اور فوجوں کے ٹڈّی دَل نے ہمیشہ مات کھائی ہے۔
حوصلہ، جرأت، نظم ونسق ایک نہتی قوم کے وہ ہتھیار ہیں جن سے وہ بڑی بڑی فوجی طاقتوں کو زیر کرسکتی ہے۔'' اسی صفحے پر سری نگر کے بزرگ دانشور ش م احمد کا موجودہ صورتِ حال پر جامع تبصرہ درج ہے۔ ''کوئی کشمیری یقین اور وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اگلا لمحہ اس کی زندگی میں کس عنوان سے نیا بھونچال ثابت ہوگا۔ کونسی نئی بربادیاں اس کی تقدیر میں رقم ہوںگی اور انسانی حقوق کی پامالیاں کس کس مہیب شکل میں سامنے آئیں گی؟''
ممتاز دانشور جناب فتح محمد ملک، کتاب میں شامل اپنے مضمون میں جناب اشفاق احمد خان کے ایک افسانے کی مرکزی کردار مظلوم کشمیری لڑکی شازیہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شازیہ اردوکے نامور ادیبوں، شاعروں اور کالم نگاروں کے پاس جا کر کشمیری مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ پیش کرتی ہے مگر وہ کچھ لکھنے سے گریز کرتے ہیں، اور مختلف حیلے بہانے بناتے ہیں۔
آخر مظلوم شازیہ افسانے کے واحد متکلم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ہے ''آپ کو اس بات کا خوف تو نہیں انکل ! کہ اگر آپ نے مظلوم کشمیریوں یا ستم رسیدہ افغانیوں کے حق میں کچھ لکھا تو لوگ آپ کو مذہب پسند سمجھنے لگیں گے اور آپ کو قدامت پسند،اور بنیاد پرست کہہ کر ''روشن خیال'' اداروں میں آپ کا داخلہ بند کردیں گے؟'' ملک صاحب نے اندر کی بات بتادی ہے کہ ''کشمیر میں بھارتی فوجوں کے جبرواستبداد کے آغاز ہی سے اردو ادیب اس انسانی المیے سے لاتعلق ہے۔
وہ سمجھتا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم کشمیری چونکہ مسلمان ہیں اس لیے ان سے یگانگت کا دم بھرنے سے اس کی ''ترقی پسندی'' اور ''آزاد خیالی'' پر حرف آئے گا۔'' ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر جناب شکیل رشید کا ایک چشم کشا مضمون بھی کتاب کا حصہ ہے۔ شکیل صاحب لکھتے ہیں ''کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35A کا خاتمہ ہوگیا، کشمیر میں کرفیو لگا، انسانی حقوق کی پامالیاں جاری رہیں۔
اس خطے کا رابطہ ساری دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا گیا مگر ہمارے ادیب اور دانشور اپنی ہی دنیا میں مگن رہے۔ اتنا بڑا دھماکا ہوا کہ ساری دنیا میں اس کی گونج سنائی دی مگر اردو میں لکھنے والے مسلمان رائٹر کو کوئی فکر نہیں۔ ان کے مقابلے میں ہندی، انگریزی، تامل، تیلگو، بنگالی گجراتی اور مراٹھی زبانوں کے ادیب اور دانشور حالتِ حاضرہ پر نہ صرف غور کرتے ہیں بلکہ پوری قوم کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔
وہ بڑے دردمندانہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ ''اردو کے ادیبوں اور دانشوروں کو اپنی اس بے حسی کا احساس کیوں نہیں ہوتا؟ آخر اردو میں کیوں کوئی اردن دھتی رائے، شیکھر گپتا، پنکج مشرا یا چندراگوہا پیدا نہیں ہوتے؟ جب حق بات کہنے کا وقت آتا ہے تو اردوخواں اہلِ قلم اور اہلِ دانش کی زبانوں پر تالے کیوں پڑجاتے ہیں اور قلم کی روشنائی خشک کیوں ہوجاتی ہے؟'' انھوں نے اروندھتی رائے، پنکج مشرا اور چندرا گوہا جیسے با ضمیر دانشوروں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے، جو کھل کر مودی سرکار کو ''نسل پرست'' اور ''فاشسٹ'' لکھتے ہیں۔
کتاب میں مجاہدِ اعظم سید علی گیلانیؒ اور کشمیر کے با خبر، با ضمیر اور جرأتمند صحافی افتخار گیلانی کے کئی مضامین شامل ہیں اس کے علاوہ طلعت عمران کا مضمون ''کشمیری عورت، مظلوم ترین ہستی'' عارف بہار کا مضمون ''کشمیر کی شناخت پر بھارتی حملہ'' غازی سہیل خان کا آرٹیکل''بیلٹ گن فائرنگ، عدالتی پابندی کا انکار'' شیخ عبداللہ کا مضمون ''ہندو ذہنیت اور محمد علی جناح'' اور افتخار گیلانی کے مضامین ''کشمیری بچے انصاف کی تلاش میں'' اور''غلامی اور بے بسی کے بکھرے یہ رنگ'' پڑھ کر بھارتی حکومت کی درندگی اور مودی سرکار کا شیطانی چہرہ عیاں ہوجاتا ہے۔
اب اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ بھارتی حکومت 05 اگست 2019 کے بعد کشمیر کا مسلم کلچر، ان کی زبان اور آبادی کا تناسب بدل دینے کے خطرناک منصوبے پر عمل پیرا ہے اور اس سلسلے میں اسرائیلی حکمتِ عملی پر گامزن ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستانی حکومت اور پاکستان اور ہندوستان کے مسلم رائٹر اور دانشور ایک طوفان کھڑا کردیتے اور پھر عالمی دباؤ کے تحت مودی کو یہ خطرناک فیصلہ بدلنا پڑتا مگر سب نے خاموشی اور بے حسی کی چادر تان رکھّی ہے، یہاں تک کہ بھارت میں بسنے والے علمائے کرام بھی مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز بلند نہیں کرتے بلکہ اپنی مصلحتوں کے تحت ظالموں کے ہمنوا بن گئے ہیں۔
بھارت کے مشہور مذہبی اسکالر مولانا وحید الدین خان مرحوم کے بارے میں کشمیر کے انتہائیcredible صحافی جناب افتخار گیلانی کا مضمون پڑھ کر تو روح تک لرز جاتی ہے، لکھتے ہیں ''مولانا وحید الدین خان سے میری پہلی ملاقات 1990کے عشرے میں ہوئی۔ پہلی ملاقات میں ہی اندازہ ہوگیا کہ وسعتِ علم کے باجود وہ ایک طرح کے معلوماتی تکبر (informative arrogance)کا شکار ہیں۔
اتوار کو صبح ان کا درس ہوتا تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار درس کے دوران انھوں نے حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں ہونے والی فتوحات پر نکتہ چینی کی تھی ، اسی طرح ان کا کہنا تھاکہ صلاح الدین ایوبی اور صلیبی جنگوں کی وجہ سے یورپ میں اسلام کے دعوتی پیغام کو نقصان پہنچا۔ اقبالؒ نے اسلام کی اسی طرح کی محکومانہ اور فدویانہ تعبیر کرنے والے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:۔
مسکینی و محکومی و نومیدیٔ جاوید
جسکا یہ تصوّف ہو وہ اسلام کر ایجاد
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
گیلانی صاحب نے لکھا ہے ''خان صاحب اپنی مجلسوں میں عراق اور افغانستان میں امریکا کی مسلط کردہ جنگ کو 'خدائی آپریشن' کا نام دیتے تھے۔ بھارت میں کہیں بھی ہندو مسلم فساد ہوتا تو مسلمانوں کو ظالم قرار دیتے۔ پھر ایک بار بابری مسجد کے روحِ رواں سید شہاب الدین کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ ''علامہ اقبال کی طرح شہاب الدین بھی مسلمانوں کا استحصال کرنے پر تلے ہوئے ہیں'' افتخار گیلانی مزید لکھتے ہیں'' مجھے یہ بات لکھتے ہوئے شدید دکھ اور تکلیف ہورہی ہے کہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ تو خان صاحب کو خدا واسطے کا بیر تھا، وہ کہا کرتے تھے کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازعہ کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں۔''
آر ایس ایس کی قیادت کے ساتھ ان کے خاصے دوستانہ تعلقات تھے۔ مودی حکومت نے مولانا وحیدالدین خان کو 2021 میں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ 'پدمابھوشن' سے نوازا۔''