سیاست نہیں ریاست ضروری ہے
قوم بے چینی اور پریشانی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، ان حالات میں دانشمندی یہی ہے کہ فوری الیکشن کاڈول ڈال دیا جائے
قیام پاکستان کے فوری بعد ہی یہ بحث شروع ہو گئی تھی کہ اس نوزائیدہ ملک کا اپنی آزادی اور خودمختاری برقرار رکھنا مشکل ہو گا۔
ہندوستان جیسے ہمسائے کے ساتھ زندگی گزارنا واقعی ایک مشکل کام تھا لیکن زیرک سیاسی قیادت نے مشکل حالات کے باوجود جیسے تیسے کر کے پاکستان کواپنے پاؤں پر کھڑا کر لیا اور پھروہ وقت بھی آگیا جب ایٹم بم کی بدولت پاکستان کا دفاع اس قدر مضبوط ہو گیا اب کسی دشمن کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات ہی نہیں ہوتی۔
ایک نوزائیدہ ریاست میں سیاستدانوں کے کردار پر زیادہ بحث نہیں کی جا سکتی کہ ہمیں پون صدی کے سفر میں ہر طرح کے سیاستدانوں سے واسطہ سے پڑا ہے جن میں قوم کے لیڈر کا کردار صرف ایک دو نے ہی ادا کیا ہے۔
جنرل ایوب خان کی حکومت کا سنتے ہیں کہ انھوں نے ملک میں صنعتوں کا جال بچھایا جس کی وجہ سے پاکستان کی ترقی کے سفر کا آغاز ہو گیا لیکن ان کی مشرقی پاکستان کے حوالے سے پالیسی اور سندھ طاس معاہدے نے جو کام دیکھایا، اس سے ابھی پردہ اٹھنا باقی ہے ۔ پھرہمیں ایوب خان کے بعد جاگیرداربھٹو صاحب مل گئے جنھوں نے صنعتوں کو قومیا لیا اور پھر ان صنعتوں کا جو حشر نشر ہم نے دیکھا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
قائد اعظم کے بعد ہمیں کوئی ایسا لیڈر نہیں مل سکا جس پر قوم اعتبار کرے اور اس سے متفق ہو۔ قیام پاکستان کے کچھ برس بعد فوجی حکمران ہماری قسمت کے فیصلے کرنے لگے اور یوں سیاسی عمل جمود کا شکار ہو گیا،ایک نئے ملک میں نئی سیاسی قیادت کے پروان چڑھنے کا عمل رک گیا اور جو چند ایک سیاستدان ان حالات میں ابھر کر سامنے آئے ان کو بھی فوج کی گھٹی پڑی ہوئی تھی ۔
ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کے ایک مقبول ترین لیڈر تھے جنھوں نے سوشل ازم کو پروان چڑھاتے ہوئے قوم کو روٹی، کپڑے اور مکان کا خوش کن نعرہ دیا جس پر آج بھی ان کی پارٹی سیاست کرتی نظر آتی ہے ۔گزشتہ کئی دہائیوں اور پارٹی کی حکومتوں کے باوجود یہ نعرہ نعرہ ہی رہا ہے۔
بھٹو صاحب کا سب سے بڑا ''جرم'' یہ ٹھہرا کہ انھوں نے پاکستان کے ایٹم بم کی بنیاد رکھ دی جس کے نتیجے میں ان کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا لیکن اگر آج ہماری سرحدیں محفوظ ہیں تو ان میں ذوالفقار علی بھٹو کاخون بھی شامل ہے، بھٹو صاحب کے بعد راقم نے جس حکومت میں ہوش سنبھالا ، وہ مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کی حکمرانی کا دور تھا ۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب ضیاء الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کا اعلان کیا تو وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے امیدواروں کے نام سامنے آئے تو میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ' یہ وزیر اعظم کیا ہوتا ہے' میرے اس معصوم سوال پر والد صاحب نے کالم بھی لکھا تھا کہ مارشل لاء کے سائے میں جوان ہونے نسل پوچھتی ہے کہ وزیر اعظم کیا ہوتا ہے ۔
1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جو سیاستدان منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچے وہی سیاستدان یا ان کی اگلی نسل آج ہماری قسمت کے فیصلے کررہے ہیں سوائے ایک عمران خان جنھوں نے نوے کی دہائی میں سیاست کے میدان قدم ر کھا اور تقریباً دو دہائیوں کی سیاسی جدو جہد کے بعد وزیر اعظم کے منصب تک پہنچ گئے۔
لیکن ان کے ساتھ بھی وہی کیا گیا جو ان سے پہلے کے وزرائے اعظم کے ساتھ ہوتا رہا کہ پاکستان کے کسی بھی وزیر اعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی اور یوں عمران خان بھی رخصت کر دیے گئے۔ ان سے پہلے میاں نواز شریف بھی تین مرتبہ بھاری مینڈیٹ کے ساتھ وزیر اعظم منتخب ہونے کے باوجود بھی اپنی وزیر اعظم کی مدت مکمل نہیں کر سکے تھے۔
ان وزرائے اعظم کو کرسی سے اتارنے کی کیا وجوہات تھیں قارئین کے علم میں یہ بات ہونی چاہیے کہ جب بھی پاکستان معاشی ترقی کی جانب سفر شروع کرتا ہے تو وہ عالمی طاقتیں جن کے لیے ایٹمی پاکستان کا وجود ناقابل برداشت ہے وہ اپنی سازشیں شروع کر دیتی ہیں۔وہ پاکستان کو بچتا اور پنپتا نہیں دیکھ سکتیں، آج بھی ان کی سازشیں عروج پر ہیں اور پاکستان زوال پر۔
قطع نظر سیاسی پسند ناپسند اور زندہ باد کے نعرے لگانے کے پاکستان میں بے روزگاری عروج پر، لوگ بے گھر اور بھوکے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس ملک کے شہریوں پر یہ کیفیت طاری ہوئی ہے ورنہ کھانا پینا پاکستانیوںکا مسئلہ نہیں رہا۔
آج کی پاکستانی زندگی کی تفصیلات بہت تکلیف دہ ہیں، اس لیے ان کا ذکر کرنے سے پرہیز ہی بہتر ہے، ویسے کون پاکستانی ہے جس کو اپنی حالت کا علم نہیں ہے۔ اس مشکل صورتحال سے نکلنے کا واحد حل صاف اور شفاف الیکشن ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں یہ سب جانتی ہیں لیکن اس کے باوجود الیکشن سے کنی کترا رہی ہیں، شاید وہ الیکشن سے ڈر رہی ہیں حالانکہ ایک سیاسی جماعت کی زندگی کا دارومدار الیکشن ہی ہوتے ہیں اور سیاست کے رنگ الیکشن سے ہی نکھرتے ہیں لیکن ہماری سیاسی جماعتیں بوجوہ ان رنگوں سے دور بھاگ رہی ہیں۔
قوم بے چینی اور پریشانی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، ان حالات میں دانشمندی یہی ہے کہ فوری الیکشن کاڈول ڈال دیا جائے اور ان انتخابات کے بعد جو جماعت بھی اکثریت حاصل کرے وہ اپنا حق حکمرانی ادا کرے ۔ نئی منتخب حکومت سے عالمی طاقتیں بھی تعاون کریں گی کیونکہ ان کو علم ہو گا کہ اگلے پانچ برس پالیسیوں کے تسلسل کے لیے یہی حکومت ذمے دار ہو گی۔
اگر پاکستان کو معیشت کو بچانا ہے تو سیاست سے بالاتر ہو کر سوچیں اور ایٹمی پاکستان کی مل جل کر حفاظت کریں، یہ نا ہو کہ ہماری سالمیت کے ضامن ایٹم بم کے بدلے ہمیں یہ عالمی ساہوکار اپنی کسی سازش میں پھنسا لیں ۔ ہمارے سیاست دان اس وقت سے ڈریں اور سیاست پر ریاست کو ترجیح دیں۔