گلاسگو اور واپسی

اب اچھا بھلا آٹھ دس گھنٹے کا سفر پورا دن اور رات لے جاتا ہے


Amjad Islam Amjad October 13, 2022
[email protected]

ایبرڈین (Aberdeen) سے گلاسگو تک کل مسافت تھی تو تین گھنٹے کی مگر دیر سے روانگی اور راستے میں رکنے کی وجہ سے زبیر صاحب کے گھر تک پہنچتے پہنچتے چھ بج گئے، میرے اور خالد مسعود کے لیے ہوٹل میں کمرے بک کرائے گئے تھے جبکہ باقی ٹیم کو ان کے ساتھ ہی رہنا تھا، منتظمین کا ارادہ یہی تھا ہم یہیں سے جلسہ گاہ جائیں اور پھر ایک ہی بار فارغ ہوکر ہوٹل کا رُخ کریں۔

اب اس میں قباحت یہ تھی کہ میرا بھتیجا سلمان شاہدکئی دن سے انتظا ر کر رہا تھا کہ میں کچھ وقت اس کے نئے گھر میں ہی گزاروں گا اس سے ملاقات کا امکان بھی معدوم ہوتا چلا جار ہا تھا، سو میں نے عرض کیا کہ مجھے میرے ہوٹل تک پہنچا دیا جائے تاکہ میں عزیزی سے کچھ دیر کے لیے مل سکوں کہ ایسا نہ ہونے کی شکل میں مجھے بہت سی ایسی جوابدہیوں کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا تھا جس کی طرف اکبر الٰہ آبادی نے بہت پُرلطف اشارا کچھ اس طرح سے کیا تھا کہ

اکبر ڈرے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے

لیکن شہید ہوگئے بیگم کی نوج سے

ہوٹل دریائے کلائیڈ کے کنارے ایک بہت پُر رونق جگہ پر واقع تھا معلوم ہوا کہ اس علاقے میں تمام بڑے بڑے ہوٹلوں کے علاوہ بہت سے ایونٹ ہال بھی ہیں جہاں سارا سال کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے اور یوں یہاں ہمیشہ سیاحوں اور تماشائیوں کی بھیڑ رہتی ہے۔

سلمان مجھ سے پہلے پہنچ چکا تھا لیکن ہم نے لابی میں بیٹھنے کے بجائے اپنے کمرے میں بیٹھنا پسند کیا کہ وہاں تو ایسے لگتا تھا جیسے کسی میلے کا سیٹ لگا ہو۔

سجاد کریم کے گھر کی محفل میں ان کے یورپی یونین سے قریبی اور گہرے تعلق کی وجہ سے برطانیہ کی اس سے علیحدگی اور بریگزٹ کے مسئلے پر گفتگو نا گزیر تھی، کچھ کچھ اندازہ تو تھا کہ برطانوی قوم اس مسئلے پر بہت سے اختلافات کی شکار ہے اور عوام اور سیاستدانوں کی اکثریت بُری طرح سے اس پروپیگنڈے کا شکار ہو چکی ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت کی قیمت اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہے اور اس کی وجہ سے لوکل باشندوں کی نوکریوں۔

جائیدادوں کی قیمتوں، جرائم اورمعیشت پر منفی اثر پڑ رہا ہے لیکن اس سے علیحدگی کے نتیجے میں خود یو کے یعنی یونائیٹڈ کنگ ڈم کے اندرونی اتحاد پر نت نئے سوال بھی اُٹھ رہے ہیں اور اگرچہ چند برس قبل اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے بہت معمولی اکثریت کے ساتھ عظیم سلطنتِ برطانیہ کا حصہ بنے رہنا منظور کیا تھا لیکن اب پھر ایسے حالات پید ا ہورہے ہیں کہ شائد اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ اپنی مخصوص بین الاقوامی پالیسیوں کے مطابق یورپی یونین سے اس علیحدگی کے مسائل کی آڑ میںدوبارہ سے مرکز سے الگ ہو کر اپنی خود مختاری کا اعلان کردیں وہاں ہونے والی باتوں سے اندازہ ہوا کہ برطانیہ بہت تیزی سے ایک ایسے فیصلہ کن دور میں داخل ہورہاہے جہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

عزیزی سلمان سمیت عام شہری اس صورتِ حال کی سنگینی سے بہت کم واقف نظر آئے لیکن میڈیا اور سیاست سے تعلق رکھنے والے شعبوں میں اس ضمن میں خاصی تشویش پائی جارہی ہے دوسری اہم بات جو وہاں کی فضا میں محسوس ہوئی وہ آنجہانی ملکہ الزبتھ کی وفات اور آخری رسومات کی ادائیگی تھی۔

معلوم ہوا کہ وفات سے کچھ دن پہلے ان کو اسکاٹ لینڈ میں ہی ان کے ایک آبائی محل میں رکھا گیا تھا اور وہیں ان کی وفات ہوئی بہت سی رسومات کی ادائیگی کے بعد اور عوام کی بھرپور شرکت کی فضا میں ان کا تابوت ایڈنبرا کے ہوائی اڈے تک لایا گیا جہاں سے بذریعہ ہوائی جہاز یہ لندن پہنچا اور پھر ان کی تدفین تک ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انھیں شاندار خراج عقیدت پیش کیا گیا اور یہ سلسلہ مختلف شکلوں میں ابھی تک جاری ہے کہ غزالی ٹرسٹ کی ہر تقریب میں بھی ان کی یاد اور احترام میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی ۔

گلاسگو سے واپسی کے سارے رستے میں یہ خیال بار بار میرے ذہن میں اُبھرتا رہا کہ کس طرح متمدّن ، مہذب اور تعلیم یافتہ قومیں انتہائی جذباتی نوعیت کی صورتحال میں بھی شور شرابے ، لڑائی جھگڑے ، گالی گلوچ اور مخالفین کی کردار کشی کے بجائے ٹھنڈے دل و دماغ سے اچھے انسانوں کی طرح ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں اورہر حال میںاپنے قومی مفاد کو اپنی اپنی عقل کے مطابق محفوظ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اب اسی بریگزٹ کے معاملے کو لیجیے غالباً تین وزیراعظم اس کے حوالے سے اپنی سیٹوں سے محروم ہوچکے ہیں مگر نہ کسی نے کسی پر غدّاری کا ٹھپہ لگایا ہے اور نہ بدنیّتی کا۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کے متاثرین بھی اب اپنی غلطی کو نہ صرف محسوس کرنا شروع ہوگئے ہیں بلکہ وہ اس سے پیدا شدہ صورت حال میں اپنے غلط اور شدید روّیے کا انکار بھی کرنا شروع ہوگئے ہیں ۔

واپسی پر ہم تینوں کی پروازیں الگ الگ تھیں کہ جہاں عامرجعفری کو کچھ انتظامی اور مالی معاملات سمیٹنے کے لیے وہاں دو تین دن مزید رکنے کی ضرورت تھی وہاں خالد مسعود نے اپنے بچوں کو برطانیہ گھمانے کے لیے بلا رکھا تھا اور اسے کوئی پندرہ دن بعد واپس آنا تھا۔ مانچسٹر سے دوحہ قطر تک کی فلائٹ وہاں کے وقت کے مطابق سہ پہر سوا تین بجے تھی مگر میزبانوں کا مشورہ یہی تھا کہ ہمیں سوا بارہ بجے تک ائیر پورٹ پہنچ جانا چاہیے کہ کسی بھی غیر متوقع صورت حال سے دیر سویر ہوسکتی ہے۔

نصر اقبال ، عامر جعفری ، خالد مسعود اور کاشف محمود کی مدد کی وجہ سے ہر کام آسانی سے ہوتا چلا گیا ۔ مانچسٹر سے دوحہ اور دوحہ سے لاہور تک نسبتاً بہتر سیٹیں بھی مل گئیں اسٹار بک کی الوداعی کافی سے بھی ہولیے اور آخر میں سیکیورٹی ایریا کی طرف جاتے ہوئے اس بزرجمہر قسم کے وزیر کو بھی یاد کیا گیا جس کی مہم جوئی نے پی آئی اے کی کم و بیش ساری بین الاقوامی فلائٹیں کینسل کرا دی ہیں اور اب اچھا بھلا آٹھ دس گھنٹے کا سفر پورا دن اور رات لے جاتا ہے جبکہ فیملی ٹکٹ کے ساتھ تھکن مفت میں ملتی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔