قحط زدگان کی بحالی
صحرائے تھر نہ صرف انسانوں بلکہ چرند و پرند کے لیے موت کی وادی بن گیا ہے ۔۔۔
بنیادی طور پر پاکستان ایک زرعی ملک ہے، ایشیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہمارے ہاں ہے، غذائی پیداوار میں خود کفیل ممالک میں پاکستان کو قابل اعتبار مقام حاصل ہے، گندم اور چاول وطن عزیز کی اہم اجناس ہیں، جو نہ صرف 18 کروڑ عوام کی غذائی ضروریات پوری کرتی ہیں بلکہ یہ دونوں جنس برآمد کر کے قیمتی زر مبادلہ بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ اس خوش کن حقیقت کے باوجود وطن عزیز کبھی کبھی غذائی اجناس کی قلت کا شکار ہو جاتا ہے۔ کہیں آٹے کی قلت کا بحران سر اٹھاتا ہے، تو کہیں چینی کی کمیابی کا شور برپا ہو جاتا ہے۔ وقتاً فوقتاً اٹھنے والے ایسے بحرانوں کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں، کبھی ملک میں بارشوں کی کمی سے غذائی پیداوار متاثر ہوتی ہے تو کبھی غذائی اجناس کی ملک بھر میں بروقت ترسیل کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے، کبھی متعلقہ حکام کی روایتی لاپرواہیاں مسائل کو جنم دیتی ہیں اور کبھی ذخیرہ اندوزوں کی چیرہ دستیاں غذائی بحران کو جنم دینے کا سبب بنتی ہیں، غرض کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی عمل دیوار راہ بن جاتا ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں سے سندھ کے ضلع تھرپارکر کو بھی ایسی ہی تکلیف دہ اور پریشان کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اخباری اطلاعات کے مطابق تھر میں گندم کی بروقت ترسیل نہ ہونے کے باعث قحط کے آسیب نے ڈیرے ڈال لیے، بھوک، پیاس اور افلاس کے باعث تھر کے فاقہ زدگان کو بیماریوں نے آن گھیرا اور دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں میں درجنوں افراد لقمہ اجل بن گئے جن میں معصوم بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے متاثرہ علاقے تھر کے ہنگامی دورے کیے اور تھر کے قحط زدگان سے نہ صرف اظہار ہمدردی کیا بلکہ ان کی پریشانیوں کو دور اور مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانیاں بھی کرائیں۔ ملک کی غیر سرکاری تنظیموں اور فوجی جوانوں کی جانب سے تھر کے متاثرہ خاندانوں کی بھرپور مدد کی جا رہی ہے۔ حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کی جانب سے بھی لاکھوں روپے دینے کے اعلانات کیے گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا صحرائے تھر میں قحط اور خشک سالی پہلی مرتبہ آئی ہے؟ کیا یہاں موت نے پہلی مرتبہ ڈیرے ڈالے ہیں؟ کیا تھر کے لوگوں پر بھوک اور بیماریوں نے پہلی مرتبہ حملہ کیا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صحرائے تھر میں تقریباً ہر سال دو سال بعد خشک سالی اور قحط کا خونخوار درندہ نمودار ہوتا ہے اور بھوک، پیاس، بیماری اور افلاس سے بے حال بچوں، عورتوں اور مردوں کو نگل جاتا ہے، یہاں تک کہ پرندے اور جانور بھی اس کی خوراک بن جاتے ہیں اور ارباب اقتدار کو خبر تک نہیں ہوتی۔ اس سال بھی یہی کچھ ہوا لیکن اس مرتبہ پاکستان کے تیز رفتار میڈیا نے تھر کے حرماں نصیبوں پر رقصاں موت کی پرچھائیوں کو ''بریکنگ نیوز'' بنا دیا، بس پھر کیا تھا پورے ملک میں بھونچال آ گیا، پورا میڈیا اور حکمران تھر کی طرف چل دیے، متعلقہ حکام کی نیندیں اڑ گئیں کہ اب باز پرس ہو گی، انکوائریاں ہوں گی اور ذمے داروں کو سزا وار ٹھہرایا جائے گا جیسا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ تھر میں گندم کی ترسیل میں کوتاہی برتی گئی۔
ذمے دار افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، لہٰذا یہ توقع کرنا غلط نہ ہو گا کہ تھر میں جنم لینے والے انسانی المیے کے ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں حکومت کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی، تا کہ آنے والے برسوں میں صحرائے تھر قحط و خشک سالی سے محفوظ رہ سکے۔ یہاں یہ امر بھی خوش آیند ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے سندھ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم تھر کو مستقل بنیادوں پر ایسی ترقی دینا چاہتے ہیں کہ جہاں روزگار کے علاوہ زندگی کی تمام سہولتیں میسر ہوں۔ بقول وزیر اعلیٰ حکومت تھر کول پروجیکٹ کے ساتھ ساتھ تھر ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کر کے وہاں انفرا اسٹرکچر کی تمام سہولتیں بہم پہنچانے کا پروگرام بنا رہی ہے۔
سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل میمن نے واضح طور پر کہا ہے کہ تھرپارکر کے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے اگر ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرنا پڑی تو کریں گے، انھوں نے ایک خوش آیند بات یہ بھی کہی کہ آیندہ مالی سال کے بجٹ میں تھر کے عوام کے لیے خصوصی پیکیج رکھا جائے گا۔ بلاشبہ یہ ایک نہایت عمدہ تجویز ہے کہ ہر سال کے بجٹ میں تھر کے عوام کے لیے خصوصی گرانٹ کا اعلان کیا جائے اور پھر پوری دیانت داری اور اخلاص نیت کے ساتھ تمام رقم کو تھر کے مصیبت زدگان کی بحالی پر خرچ بھی کیا جائے، تھر کے عوام کے لیے ایسی طویل المدت پالیسیاں بنائی جانی چاہئیں کہ ہر سال دو سال بعد تھر کے لاکھوں غریبوں پر مسلط ہونے والا خشک سالی اور قحط کا عذاب مستقل بنیادوں پر ختم ہو جائے اور لوگ سکھ کا سانس لے سکیں اور ملک کے دیگر لوگوں کی طرح خوش حال، مطمئن اور آسودہ زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائیں۔
صحرائے تھر نہ صرف انسانوں بلکہ چرند و پرند کے لیے موت کی وادی بن گیا ہے، چند ماہ پیشتر تھر میں جگہ جگہ رقص کرتے خوب صورت مور ایک مخصوص موذی مرض میں مبتلا ہو کر درجنوں کی تعداد میں جان کی بازی ہار گئے، غذائی اجناس کی قلت کے ساتھ ساتھ تھر میں جانوروں کے چارے کا بھی شدید بحران پیدا ہو گیا ہے، جس کے باعث اب تک لاتعداد جانور ہلاک ہو چکے ہیں، یہ مال مویشی تھر کے لوگوں کی آمدنی کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں ان کی اموات نے بھی تھر کے لوگوں کو مزید صدمے سے دو چار کر دیا ہے، گزشتہ تین برس سے تھر میں بارشیں نہ ہونے کے باعث زیر زمین پانی کی سطح بھی مزید نیچے چلی گئی ہے یہاں تک کہ تھر میں پینے کے پانی کے کنویں بھی خشک ہو چکے ہیں، لوگ بھوک بیماری اور افلاس کے ہاتھوں پہلے ہی پریشان تھے، اب حلق سے نیچے اترتی پیاس نے انھیں حال سے بے حال کر دیا ہے، نتیجتاً لوگوں نے تھر سے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
یہ صورت حال یقیناً افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے، حالات کی سنگینی کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت تھر میں ہنگامی بنیادوں پر بحالی کا کام شروع کرے اور ایک ایک مصیبت زدہ تک امداد پہنچانے کو یقینی بنائے۔ تھر میں مجموعی طور پر 14 سے 15 لاکھ افراد رہتے ہیں، یہ ایک بڑا انتخابی حلقہ ہے، شوکت عزیز یہاں سے منتخب ہو کر وزیر اعظم بن چکے ہیں لیکن انھوں نے پلٹ کر تھر کی جانب نہیں دیکھا اور وزیر اعظم میاں نواز شریف صحرائے تھر اور صحرائے چولستان کا تقابل کر کے اپنی حکومت کی کارکردگی ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن چولستان کی بیشتر حقیقتوں کا انھیں بھی علم نہیں۔ بہرحال یہ موقع سیاست چمکانے کا نہیں مصیبت زدگان کی داد رسی کا ہے۔ اس حوالے سے پی پی پی سندھ میں جنم لینے والے اختلافات کی خبر میں بھی انتہائی افسوسناک ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام تر توجہ تھر کے قحط زدگان کی بحالی کی طرف مرکوز رکھی جائے۔