زباں فہمی ’گلاس‘ کی اردو
فرہنگ آصفیہ کے دور میں بھی چشمے یعنی عینک کو Glass/Glasses کہنے کا رواج ہوچلا تھا جو آج عام ہے
کبھی کبھی ہماری واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں ایسی بحث چھڑ جاتی ہے کہ کئی دن تک جاری رہتی ہے اور احباب کی علمیت کا اظہار بھی خوب خوب ہوتا ہے، اس ہیِچ مَدآں کی علمی آزمائش ہوجاتی ہے اور کہیں کہیں معلومات میں اضافہ بھی ہوتا ہے جو بعض اوقات حیران کُن ہوتا ہے۔
ایسا ہی ایک شگوفہ آپ کی نذر کرتا ہوں۔ کسی نے استفسار کیا کہ یہ ''گلاس'' کی اُردو کیا ہے (کیوںکہ یہ تو اِنگریزی لفظ ہے)، مجھ سمیت کئی ایک کا فوری جواب یہی تھا کہ جناب یہ لفظ اب اردو کا ہے ، اس لیے اس بابت چنداں فکر نہ فرمائیں، مگر پھر سلسلہ چل نکلا۔ اچھا ہوتا یوں ہے کہ جب ہم تحریروتقریر میں کوئی ایسی بات کرتے ہیں۔
خواہ دوسروں کو شامل کریں یا یک طرفہ بیان ہو تو دیگر اقسام کے علاوہ، ایک عام رَدِعمل یہی ہوتا ہے کہ ''بڑا فارغ ٹائم ہے بھئی.....بہت فارغ ہو بھئی....بہت فرصت ہے بھئی کہ اتنی تفصیل سے لکھتے ہو''۔ کسی صاحب نے گزشتہ دنوں میرے ایک کالم پر یہی تبصرہ فرمایا تو خاکسار کو لکھنا پڑا کہ 'وقت نکالنا پڑتا ہے'۔ دیگر یہ کہ بندہ اپنے جنون کے اظہار کے لیے لکھتا ہے، کسی ''پیرِمغاں'' یا ''ادبی وَڈیرے'' کی طرح کسی اور قسم کا معاملہ نہیں (ادبی وڈیرہ بھی خاکسار کی وضع کردہ اصطلاح ہے۔
کوئی پندرہ سترہ برس پہلے کی)، جس قسم کا یہ جنون ہے اسے عرفِ عام میں پاگل پن کہہ کر ہی جان چھڑالی جاتی ہے کہ ''اس کی خستہ حالت دیکھو اور شوق دیکھو''۔ بہرحال ''وہ اپنی خُو نہ بدلیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں''۔ بات ہورہی تھی 'گلاس' کی تو اگلا سوال یہی تھا کہ اگر ہم نے انگریزی سے یہ لفظ لیا تو کیا اس سے قبل یا اِس وقت بھی اس کے متبادل یا مترادف الفاظ موجود ہیں۔ گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ہرچند کہ یہ لفظ ہمارے یہاں ایسا مروَج ہے کہ اس کے متبادل ومترادف، فراموش ہوگئے ہیں، مگر یہ نہیں کہ ان کا وجود ہی نہیں۔
اردو اِتنی بھی تہی دامن نہیں۔ گلاس کی آمد سے قبل، اس وضع کا یا دیگر مماثل یا مختلف کوئی ظرف /برتن اگر کوئی شئے پینے کے لیے زیرِاستعمال تھا، یقیناً تھا تو اُسے کہتے تھے : شیشہ، پیمانہ، جام، آب خورہ اور ہئیت کے فرق سے پیالہ، کاسہ۔ اب یہ الفاظ متروک تو نہیں ہوئے، البتہ ادبی زبان خصوصاً شاعری تک محدود ہوگئے ہیں اور اکثر ایک خاص مفہوم کی ادائی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
اس سے پہلے زباں فہمی اور ماقبل سخن شناسی میں یہ بات کی جاچکی ہے کہ ہم مغرب زدگی میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ خواب گاہ کی جگہ بیڈ روم، بیٹھک/مہمان خانے کی جگہ ڈرائنگ روم، غسل خانے کی جگہ باتھ روم، بیت الخلاء کی جگہ واش روم/ٹوائلیٹ /ریسٹ روم کہنے لگے ہیں (امریکی انگریزی کو سلام!)، باورچی خانہ تقریباً معدوم ہوچکا ہے اور اب ہر گھر میں کچن ہے یا ہندوستانی ڈراموں کے اثر سے 'رسوئی' بھی کہا جانے لگا ہے۔
بستر یا مسہری کی جگہ بیڈ لے چکا ہے، میز کو اَب ٹیبل اور کرسی کو چئیر کہنا عام ہے، گھڑیال (بڑی دیواری گھڑی) کو اَب ہر کوئی وال کلاک ہی کہتا ہے ، کلائی کی گھڑی کو رِسٹ واچ کہہ کر کام چلایا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب ایک مخلوق ایسی پیدا ہوچکی ہے جو پوچھتی ہے، ''Sir!آپ کونسا Subject teach کرتے ہیں؟، یا ''آپ کونسی Book، read کرتے ہیں''، ''بیٹا! اپنے Hand washکرو''، ''آپ نے اپنے Teeth clean کیے؟'' {......یہ کھچڑی، مخلوط، بے تکی بولی بولنے والے اب 'کلفٹن پُل کے اُس پار' ہی نہیں، بلکہ ہر جگہ رہتے ہیں۔
'برگروں' کی ایک نئی پود اُگ چکی ہے جو ہم ایسوں کے درمیان یہ ''برگرش'' بولتی ہے۔ (یہ اصطلاح خاکسار نے آج سے چند سال پہلے بطور مدیراعلیٰ لائیوروسٹرم نیوزایجنسی، ایک طنزیہ ومزاحیہ نثرپارہ، بزبان انگریزی لکھتے ہوئے وضِع کی تھی;ماقبل صحافت اور دیگر شعبوں میں، مِنگلش، ہِنگلش، زِنگلش اور اُردِش رائج تھیں)}۔ صاحبو! الفاظ ایک مدت تک بول چال اور تحریر میں نہ استعمال ہوں تو پھر خود اہلِ زبان ہی بھول جاتے ہیں کہ اُن کے یہاں فُلاں چیز کو کیا کہتے ہیں یا کیا کہنا چاہیے۔
اب ہم بات کرتے ہیں، گلاس کی تو جناب! پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ لفظ اُردو میں کب سے دَخِیل ہے۔ فرہنگ آصفیہ جلدچہارم ، مطبوعہ جنوری 1901ء (مطبع رفاہ عام پریس، لاہور) میں اس لفظ کا اندراج یوں ملتا ہے:
''گلاس (انگلش:GLASS)، اسم مذکر:۔ ۱) آبگینہ، شیشہ، کانچ، زجاج، کاچ ۲)آئینہ، درپن، مرٔ ۃ، آرسی ۳) جام، پیالہ، ایاغ، ساغر، ایک قسم کا لمبا آب خورا جو شیشے کا ہوتا ہے، مگر اَب اُس کی وضع پر جو دھات سے بنایا جاتا ہے، وہ بھی اسی نام سے موسوم ہے ۴) عینک، چشمہ''۔ اب یہ دیکھیے کہ شیشہ، کانچ، آئینہ اور یہ پینے کا برتن سمیت تمام معانی اُسی دورکی اردولغت میں شامل ہوگئے تھے جو آج بھی مروج وکارآمد، البتہ ایک وضاحت ضروری ہے کہ ہمارے یہاں عموماً گلاس شیشے ہی کا بنا ہوا سمجھا جاتاہے، جبکہ آج سے نہیں، زمانہ قدیم سے دھات اور پلاسٹک سمیت کسی بھی چیز سے تیار کیا جاتا رہا ہے۔
خاکسار کی کتابی وآن لائن تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ انگریزی کی مستند لغات (بشمول آکسفرڈ، چیمبرز ودیگر) میں لفظ گلاس کے ماخذ کی بحث اسی پر منتج ہوئی کہ یہ قدیم انگریزی لفظ ''گلیس'' [Glaes] سے بنا ہے جو ماقبل اینگلو سیکسون او ر اس سے پیشتر متعدد یورپی وایشیائی وافریقی زبانوں میں کسی نہ کسی شکل میں صدیوں سے موجود تھا اور اس سے ہم رشتہ الفاظ کے مفاہیم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس لفظ کو شیشے، کانچ اور چمک، نیز سنہری، زرد اور دیگر رنگوں سے بنیادی تعلق ہے۔
گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ رنگوں کے نام بنانے کے معاملے میں، کہیں نہ کہیں اس لفظ کی جڑیں ہماری مشرقی زبانوں فارسی (قدیم)، پہلوی اور اُس کی بہن سنسکِرِت سے ملتی ہیں۔
فرہنگ آصفیہ کے محّولہ بالا (یعنی جس کا اوپر حوالہ دیا گیا) بیان کی مزید وضاحت کے لیے عرض کرتا ہوںکہ المنجد (عربی اردو لغت) میں زجاج کے معانی یوں درج ہیں: الزَجَاجُ والزُجاجُ والزِجاجُ۔ شیشہ (زِجَاجَۃ'،) شیشے کا ٹکڑا، شیشے کا برتن۔ فرہنگ آصفیہ سے بھی مدت پہلے (1879) کی لغت، اے نیو ہندوستانی۔ انگلش ڈکشنری[A new Hindustani-English dictionary] میں نہ صرف 'گلاس موجود ہے، بلکہ اسی سے مشتق اردو (مؤنث) لفظ ''گلسیا''[gilasya] (یا ہمارے گھرانے میں رائج ایک اور اِملاء کے ساتھ، گلیسیا) بمعنی دوا کے لیے استعمال ہونے والا چھوٹا گلاس، پیالی/مگ (mug)۔ یہ شاندار لغت کارنامہ ہے ممتاز انگریز محقق S. W. Fallon (1817-1880) کا۔ ایک قدم آگے بڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ''گلسیا''، فرہنگ آصفیہ کی ''کچھ سال چھوٹی بہن'' ، نوراللغات میں بھی شامل ہے۔
ذرا غور کیجئے کہ اردو نے نہ صرف ایک غیرزبان کا لفظ بحسن وخوبی اپنایا، اپنے آپ میں ضم کیا، بلکہ اُس سے ایک اور ایسا لفظ بنالیا جو بہت تیزی سے رائج ہوگیا اور خود فرنگی ماہرلسان بھی نظرانداز نہ کرسکا۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو اُردو کی 'لفظ سازی' کی صلاحیت پر شک کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ عربی جیسی ترقی یافتہ زبان کے ماہرین مدتوں پہلے ہی یہ اصول طے کرچکے ہیں کہ جو لفظ اپنالیا، سو ہمارا ہی ہوگیا۔ ''امام قرطبی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں; چاروں اَئمہ میں اتفاق ہے کہ غیرعربی الفاظ اور قرآن میں آئے ہوئے ناموں میں کوئی فرق نہیں ہے، جیسے نوح، لوط، عمران اور جِبرئیل۔ اس کے برعکس الطہری اور الباقلانی جیسے علماء انھیں عربی الفاظ ہی ماننے کے قائل ہیں، کیونکہ یہ عربی گرامر کی پابندی کرتے ہیں......آج ہم یہ دیکھتے ہیں دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں نے اسی قرآنی اصول کواَپنا کر اپنے آپ کو عالمی اور بین الاقوامی زبانیں بنالیا۔ وہ زبانیں جنھوں نے اس پر عمل نہیں کیا، آج لسانی مشکلات کا شکار ہیں.....قرآن کے غیرعربی الفاظ پر عرب مفسرین کے ہاں جو بحث موجود ہے۔
اس کا ایک اور پہلو قابل ِتوجہ ہے۔ عبدالرحمن بن ابی بکر، علامہ جلال الدین سیوطی جیسے مفسرین کے نزدیک قرآن میں نازل ہونے والے غیرعربی الفاظ اُس وقت تک کی عربی میں رچ بس چکے تھے اور عربی انھیں اپنا چکی تھی ''۔ (''سیرت ِ رسول ِ عربی اور ریاست مدینہ میں قومی زبان کا مقام'' از محترم اسلام نشتر، جہان سائنس، اسلام آباد: 2016ئ)
اردو کی طرح جدید ایرانی فارسی میں بھی 'گلاس' کے معانی اس طرح مروج ہیں:
اسم، فعل متعدی و غیرمتعدی: شیشہ، آبگینہ، لیوان، گیلاس، جام، استکان، آئینہ، شیشہ ٔ دُوربین، شیشہ ٔ ذرّہ بین، عدسی (عدسے: عدسہ)، شیشہ آلات، آلت شیشہ ای، عینک، شیشہ گرفتن، عینک دارکردن، شیشہ ای کردن، صیقلی کردن۔ (فرہنگ ِ انگلیسی فارسی از عباس آریان پورکاشانی و منوچہر آریان پور کاشانی، تہران: 1989ئ)۔ دَری یعنی افغانستان کی فارسی (جو قدیم اور اصل فارسی کی زندہ شکل ہے) اس معاملے میں قدرے مختلف ہے، گلاس خصوصاً پانی کا گلاس،''شیشہ ٔ آب'' کہلاتا ہے۔
تاجیک بھی اسی کی اتباع کرتی ہے، البتہ اُن کے یہاں تلفظ ''گول'' الف کی آواز کے ساتھ ''اَوب'' ہوجاتا ہے۔ بعینہ فرینچ کا معاملہ ہے جس میں شیشے کو ''ویغ''(Verre) اور پانی کو 'او'(eau) کہتے ہیں، جبکہ پانی کا گلاس ویغ دو (Verre d'eau) کہلاتا ہے۔ اس سلسلے میں بعض فارسی اور فرینچ لغات بھی کھنگالی تھیں، مگر یہاں اُن کا ذکر غیرمتعلق ہے۔ ایک لفظ 'جام' بھی بہت مشہور ہے۔ البانوی زبان میں گلاس کو ''ژام'' [Xham] کہتے ہیں جو ظاہر ہے کہ اسی لفظ کی متبدل شکل ہے۔
فرہنگ آصفیہ کے دور میں بھی چشمے یعنی عینک کو Glass/Glasses کہنے کا رواج ہوچلا تھا جو آج عام ہے اور شمالی امریکا کی انگریزی میںEyeglasses بھی کہتے ہیں ۔ یہاں ایک لسانی قیاس یا شگوفہ ملاحظہ فرمائیں۔ ایک محقق کی رائے میں ہوسکتا ہے کہ لفظ گلاس، روسی زبان کے لفظ 'گلاز' [Glaz] بمعنی آنکھ سے ماخوذ ہو، جس کی جمع Glaza ہے۔ گویا وہی معاملہ ہے کہ بقول قتیل شفائی:
تمھاری بے رُخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی
تم آنکھوں سے پِلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے
(مجموعہ کلام، 'گَجَر'، سال اشاعت: 1949ئ)۔ اس شعر کا دوسرا مصرع بہت جگہوں پر یوں غلط لکھا گیا: ......تو میخانے کہاں جاتے۔
لغوی تحقیق بتاتی ہے کہ پینے کے لیے مستعمل، گلاس کا استعمال تیرویں صدی سے مختص ہوا ہے، ورنہ اس کے مختلف معانی بھی رائج تھے۔ قدیم انگریزی ودیگر یورپی زبانوں میں آج بھی گلاس اور اس کے ہم رشتہ الفاظ کہیں نہ کہیں، شیشے اور آئینے کے مترادف ہیںیا انھی معانی میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
یہاں بوجوہ، متعدد مستند انگریزی لغات کی بجائے ایک آن لائن انگریزی لغت سے اقتباس نقل کررہا ہوں جو تمام معتبر لغات سے ہم آہنگ ہے:
Glass (n.)
Old English glæs "glass; a glass vessel," from Proto-Germanic *glasam "glass" (source also of Old Saxon glas, Middle Dutch and Dutch glas, German Glas, Old Norse gler "glass, looking glass," Danish glar), from PIE root *ghel- (2) "to shine," with derivatives denoting bright colors or materials. The PIE root also is the ancestor of widespread words for gray, blue, green, and yellow, such as Old English glær "amber," Latin glaesum "amber" (which might be from Germanic), Old Irish glass "green, blue, gray," Welsh glas "blue."
Restricted sense of "drinking glass" is from early 13c. and now excludes other glass vessels. Meaning "a glass mirror" is from 14c. Meaning "glass filled with running sand to measure time" is from 1550s; meaning "observing instrument" is from 1610s.
[https://www.etymonline.com/word/glass]
اردو میں پانی پینے کے گلاس کو گلاس کہنے پر معترض حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ برا ہوئی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی اور سندھی میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں موجود ہے۔
(۹ زبانی لغت از پروفیسر عبدالعزیز مینگل)۔ اس ضمن میں اردو کو طعنے دینے والے حضرات کو اطلاع دی جاتی ہے کہ پانی یا کوئی بھی مایع پینے کے لیے مستعمل گلاس کو اِن زبانوں میں بھی گلاس کہتے ہیں: افریکانس، آسامی (گِیلاس)، بنگلہ، ڈینش، ولندیزی یعنی Dutch میں گلاس، فَروزی (Faroese) (یعنی Faroe Islands کی زبان)، جرمن (اور پانی کا گلاس، انگریزی ہی کی طرح Wasserglas)، گجراتی (پانی کا گلاس: پانی نو گلاس)، ہندی، انڈونیشیائی [Indonesian] (گیلاس:Gelas)، کنڑ (آخری حرف ساکن کے ساتھ) [Kannada]، ملیالَم، نیپالی (پانی کا گلاس: پانی کو گلِاس)، ناروئین [Norwegian]، اُڑیا، سُوندانی (Sundanese: گیلاس: Gelas)، سوئیڈش، تیلگو (گلاسُو)۔
اس فہرست سے ہٹ کر ایک اور زبان کا بھی ذکر کردوں; استونیائی [Estonian] میں تھوڑے فرق سے یہ نام کلاس (Klaas) ہے۔
آئس لینڈک [Icelandic] میں گلاس کو Gler اور Glasi کہا جاتا ہے، جبکہ یورُوبا [Yoruba] میں Gilasi کہا جاتا ہے۔
ویسٹرن فریزئین [Western Frisian]میں Wetterglês کا مطلب ہے پانی کا گلاس، یہودیوں کی زبان یِدِّش [Yiddish] میں Vaser glazکا مطلب بھی یہی ہے۔ افریقی زبان اِکزوسا [Xhosa] میں اِگلاسی کہا جاتا ہے، ایک اور افریقی زبان زُولو [Zulu]ُ میں Ingilazi۔ اس سے بالکل ہٹ کر مثال یہ ہے کہ ہنگیرین (Hungarian) اور سلوواک زبان میں گلاس کو 'پوہار' [Pohár] کہتے ہیں، جسے سن کر، ذہن خود بخود، اردو لفظ پھُوہار/پھُوار کی طرف جاتا ہے۔ ہمارے یہاں لفظ 'کاسہ' ابھی اپنے معنوں میں متروک نہیں ہوا۔
محض اتفاق ہے کہ مَلائی [Malay] زبان میں یہ گلاس کے معنوں میں Kaca ہی کہلاتا ہے، ترکی سے مستفیض ہونے والی زبان بشناق [Bosnian] میں پانی کے گلاس کو ''کاشا ۔زا۔پیِس'' [Caša za pice] اور ترکی ہی سے استفادہ کرنے والی ایک اور زبان، بُلغاری [Bulgarian] میں ''چاشا۔زا۔پائین'' [Chasha za piene] کہا جاتا ہے، گویا ہم اسے اپنے حساب سے 'پانی کا کٹورا' کہہ سکتے ہیں۔ ترکمن زبان میں گلاس کو ''آئینہ سی'' کہتے ہیں۔
ابھی اس موضوع میں شامل دیگر الفاظ کی تحقیق بھی باقی ہے۔ شیشہ ان زبانوں میں شیشہ کہلاتا ہے: اُزبک، اردو، پشتو، فارسی، سندھی، پنجابی۔ آئینہ ان زبانوں میں آئینہ کہلاتا ہے: اردو، آذربائیجانی (نیز güzgü)، ترکی، البتہ ہندی اور بنگلہ میں آئینہ، درپن کہلاتا ہے اور یہ لفظ ہماری اردو میں بھی مستعمل رہا ہے۔
اوپر 'شیشہ' بطور 'گلاس' کا ذکر ہوا تو چلتے چلتے یہ بھی جان لیں کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے زیراہتمام مرتب ہونے والی Urdu-English Dictionary میں بھی اس کے تمام قدیم وجدید مفاہیم شامل ہیں:
Shishah, n. m. : 1)- Glass; glassware; a looking glass. 2)- A bottle; a wine glass