شہباز شریف اور حمزہ شہباز باعزت بری

شہباز شریف نے کوئی غیر معمولی ریلیف نہیں لیا۔ انھوں نے کسی خاص قانون سے کوئی رعایت نہیں لی


مزمل سہروردی October 15, 2022
[email protected]

وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کو عدالت نے منی لانڈرنگ کے مقدمے سے با عزت بری کر دیا ہے۔

عمران خان اور ان کی ٹیم نے اس مقدمے پر بہت محنت کی تھی اور ملک میں ایک ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی تھی کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔

عمران خان کے مشیر شہزاد اکبر جو ملک سے فرار ہیں، یہ مقدمہ بنانے میں پیش پیش تھے اور انھوں نے اس حوالے سے درجنوں پریس کانفرنسز کی تھیں، لیکن مقدمہ عدالت میں آیا اور وہاں کچھ نہیں نکلا۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف ایف آئی اے کے چالان میں ایسا کوئی ثبوت ہی موجود نہیں تھا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس خاص مقدمے کے لیے شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد سپریم کورٹ نے سو موٹو نوٹس بھی لیا جس میں ایف آئی ا ے کو پابند کیا گیا تھا کہ شہباز شریف کے اس مقدمے میں نہ تو پراسیکیوٹر تبدیل کیا جائے اور نہ ہی تفتیشی کو تبدیل کیا جائے۔

یوں اس مقدمے میں عمران خان کے تعینات کردہ پراسیکیوٹر اور تفتیشی ہی تعینات رہے۔ شہباز شریف کی ضمانت پر بھی سپریم کورٹ کے ریمارکس سامنے آئے تا ہم شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے اس مقدمہ کا خندہ پیشانی سے سامناکیا۔ تقریبا ہر پیشی پر شہباز شریف روسٹرم پر آکر جج صا حب سے کہتے کہ اس مقدمے میں مجھ پر ایک روپے کی کرپشن کا الزام نہیں ہے، آپ اسے ختم کریں۔ لیکن ہمارے نظام انصاف میں تاخیر ایک معمولی بات ہے۔

اس لیے میری رائے میں یہ مقدمہ ایک پیشی میں ہی ختم ہوجانا چاہیے تھا۔ صرف شہباز شریف اور حمزہ کی وجہ سے اتنا لمبا چل گیا۔

شہباز شریف اس مقدمے میں سات ماہ جیل میں رہے اور اس مقدمے کی ضمانت کے حکم میں جج صاحب نے لکھا تھا کہ شہباز شریف کے کسی بھی اکاؤنٹ میں ٹی ٹی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لندن کی تحقیقاتی ایجنسی این سی اے نے بھی شہباز شریف اور سلمان شہباز کو اسی قسم کے الزامات سے بری کیا ہے۔ وہاں بھی شہزاد اکبر اور ان کی ٹیم مدعی تو تھی لیکن وہ ثابت کچھ نہیں کر سکے۔

عمران خان اور ان کی ٹیم کو بھی معلوم تھا کہ اس مقدمے میں کچھ نہیں ہے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ ایک جھوٹا مقدمہ ہے۔ اسی لیے جان بوجھ کر تیرہ ماہ تک چالان روکا گیا تا کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان کا نہ صرف میڈیا ٹرائل کیا جا سکے بلکہ اس مقدمے کو ایک سیاسی لیور کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکے ورنہ تیرہ ماہ تک چالان روکنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ صرف ایک ہی کوشش تھی کہ شہباز شریف کو گرفتار کر لیا جائے، ان کی ضمانت منسوخ کرا ئی جائے اور میڈیا ٹرائل کا جتنا بھی موقع مل جائے اسے استعمال کیا جائے۔

حیران کن بات ہے کہ شہزاد اکبر اور تحریک انصاف کی ترجمانوں کے جتھے نے درجنوں پریس کانفرنسیں کی ہیں۔ بار بار کہا گیا کہ شہباز شریف نے ایک سیاستدان سے ٹکٹ کے لیے رشوت لی۔ ان کے اکاؤنٹ میں رشوت کی رقم آئی ہے۔ تا ہم کبھی اس سیاستدان کا نام نہیں لیا گیا۔

لیکن ڈھول پیٹا گیا کہ رشوت کا ثبوت مل گیا۔ اس بات کا شہباز شریف کے خلاف ایف آئی اے میں درج ایف آئی آر میں بھی ذکر ہے لیکن وہاں بھی کسی کا نام نہیں۔ کوئی ثبوت نہیں۔ عدالت نے بار بار ایف آئی اے سے کہا کہ آپ نے ایف آئی آر میں مذکورہ سیاستدان کا نام نہیںلکھا، اکاؤنٹ کی تفصیل نہیں، اس کا کوئی بیان نہیں نہ ہی کسی کو گواہ بنایا گیا ہے اور نہ ہی کسی کو ملزم بنایا گیا۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسے کسی سیاستدان کا وجود ہی نہیں تھا۔

یہ صرف ایک الف لیلی کی کہانی تھی۔ صرف میڈیا ٹرائل ہی مقصود تھا۔ شاید ایف آئی اے اور عمران حکومت کے لوگوں کا خیال تھا کہ ٹرائل کا موقع آئے گا ہی نہیں۔ وہ سالہا سال اس کو ایسے ہی چلاتے رہیں گے۔ پریس کانفرنسیں جاری رہیں گی اور لوگ پراپیگنڈہ کی وجہ سے یقین کر لیں گے۔

اس مقدمہ میں شہباز شریف اپنی بیٹی کے ساتھ بھی عدالت میں پیش ہوتے رہے۔ ان کے سارے خاندان کو انتقامی احتساب کا نشانہ بنایا گیا۔ کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیاہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت نے ثابت کیا ہے کہ یہ مقدمات ٹارگٹڈ احتساب اور سیاسی انتقام کی بد ترین مثال بن کر سامنے آئے ہیں۔

ناقص تفتیش اور قصہ کہانیوں کے سوا کچھ سامنے نہیں آیا۔ اس مقدمہ میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف فرد جرم بھی عائد نہیں ہو سکی۔ فرد جرم عائد ہونے سے پہلے شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے عدالت میں بریت کی درخواست دائر کی۔ ایسے بریت صرف تب ہی ممکن ہوتی ہے جب چالان اور تفتیش میں کوئی ثبوت موجود نہ ہو۔اس لیے عدالت نے دونوں کو بری کر دیا ہے۔

بہر حال شہباز شریف او رحمزہ شہباز کی بریت نے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی سمت دی ہے۔ شہباز شریف کے مخالفین گزشتہ چار سال سے انھیں سیاست میں مائنس کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

عمران خان انھیں پہلے دن سے اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے شہباز شریف کو نا صرف جیل میں رکھا بلکہ مقدمات بھی بنائے۔ شاید عمران خان جانتے تھے شہباز شریف ہی ان کے متبادل ہیں۔ اس لیے ان کی کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح شہباز شریف کو مائنس کر دیا جائے ۔ لیکن وہ یہ نہیں کر سکے۔ وہ پراپیگنڈہ تو کر سکے لیکن عدالت میں کچھ ثابت نہیں کر سکے۔

شہباز شریف نے کوئی غیر معمولی ریلیف نہیں لیا۔ انھوں نے کسی خاص قانون سے کوئی رعایت نہیں لی، کوئی دوسرا چالان جمع نہیں کرایا۔ وہ قانون کے اصولوں کے تحت بری ہوئے ہیں۔

انھوں نے ایک مثال پیدا کی ہے کہ آپ وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی عدالت میں پیش ہوسکتے ہیں۔ کیا کوئی شرمندہ ہوگا کہ شہباز شریف کے اکاؤنٹس سے کوئی ٹی ٹی نہیں نکلی۔ کسی نے ان کے خلاف کوئی گواہی نہیں دی۔ ایف آئی اے کا چالان ان کی بے گناہی کی گواہی دے رہا تھا۔ جو عمران خان کی ٹیم کے لیے ایک سوال ہے۔

پاکستان میں ملزم اپنی بے گناہی ثابت بھی کر دے تب بھی اس کا جو نقصان ہوجائے اس کا کوئی ازالہ نہیں۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی بری ہو گئے ہیں لیکن ان کااس عرصہ میں جونقصان ہوا ہے اس کا کوئی ازالہ نہیں۔مقدمہ بنانے والوں کی کوئی قانونی گرفت نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں