چار سفر
سفر نامہ کو میں نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے ہر حصہ میں ایک سفر کی مکمل رُوداد بیان کی گئی ہے
کتاب کا نام تو ''پھر چلا مسافر'' ہے لیکن اصل میں یہ چار مختلف کتابوں کا یک نامی مجموعہ ہے کہ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ نے مختلف مواقع پر ایک ہی ملک یعنی بھارت کے چار علاحدہ علاحدہ سفر کیے اور ہر سفر کی رُوداد کو ایک مکمل کتاب کی شکل میں محفوظ کر دیا یعنی اب ہر کتاب اپنی جگہ مکمل بھی ہے اور ایک تسلسل کا حصہ بھی۔ انھوں نے ایسا کیوں اور کیسے کیا آیئے پہلے اُن ہی کی زبانی سنتے ہیں۔
''میں پہلی مرتبہ 1996میں ایک ہفتہ کے لیے بھارت گیا، دوسری دفعہ برادر وقاص انجم جعفری صاحب اور اپنے ایک قریبی دوست عمر فاروق شیخ کے ساتھ 1999 میں جانا ہوا تیسری بار 2000 میں وقاص انجم جعفری صاحب کے والد محترم جناب رفیق انجم جعفری صاحب اور ایک دوست ساجد منظور کے ساتھ ایک ہفتے کے لیے بھارت کا دورہ کیا اور آخری مرتبہ 2005 میں یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجیّ(یو ایم ٹی) کے طلبہ کے ایک وفد کو لے کر میں اور ڈاکٹر عرفان شیخ بھارت کے دورے پر گئے۔
اس سفر نامہ کو میں نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے ہر حصہ میں ایک سفر کی مکمل رُوداد بیان کی گئی ہے، پہلے سفر میں میں اکیلا ہی تھا اور میرا قیام دہلی ہی میں تھا دہلی کے علاوہ اور کہیں جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا دوسر ا سفر میں نے وقاص انجم جعفری اور عمرفاروق شیخ کے ساتھ کیا، یہ ایک طویل سفر تھا، اس سفر میں شمالی ا ور جنوبی بھارت میںچنائی ممبئی ، پونا اور راجستھان کے کچھ حصے دیکھنے کا موقع ملا۔
اس سفر نامہ کو لکھتے ہوئے جو مقاصد سامنے تھے، ان میں سب سے اہم یہ بات بھی کہ آپ لوگوں کے سامنے مختلف علاقوں میں رُونما ہونے والے تاریخی واقعات کا ذکر کیا جائے اور بتایا جائے کہ معاشی و معاشرتی ترقی کے لیے ان لوگوں نے کیا کیا اقدامات کیے۔ اس سے آپ کو مختلف علاقوں کی تاریخ اور ان میں ہونے والی معاشی و معاشرتی تبدیلیوںکو جاننے کا موقع بھی ملے گا۔''
اب اگر ان مقاصد میں مصنف کے آبائی گائوں واقع سرہند شریف اور بٹوارے یعنی تقسیم ہند کے بارے میں دونو ں طرف پیش آنے والے واقعات کے بارے میں اُٹھائے گئے سوالات کو بھی جمع کرلیا جائے تو یہ چاروں کتابیں آپ کو واضح طور پر ایک لڑی میں پروئی ہوئی نظر آئیں گی۔
اتفاق سے جن شہروں اور مقامات کا ذکر مشتاق مانگٹ صاحب نے اپنے ان اسفار میں کیا ہے، اُن میں سے بیشتر میں مجھے بھی جانے کا موقع ملا ہے (جس کا ذکر میرے کئی سفر ناموں میں ہے) اگرچہ میں ان کی تاریخ اور تاثرات کو اتنی مہارت اور جامعیت سے قلم بند نہیں کر سکا جیسا کہ مشتاق مانگٹ صاحب نے کیا ہے کہ میرا زیادہ تر رجحان مقامات کے بجائے افراد کو دیکھنے اور سمجھنے کی طرف رہا ہے لیکن جس سلیقے سے مانگٹ صاحب نے رستے میں آنے والے آدم ذادوں کو کھلے دل اور چشم بینا سے دیکھنے کی کوشش کی ہے وہ بہت تعریف کے قابل ہے کہ عام طور پر بھارت کے بارے میں لکھتے ہوئے لوگ طرح طرح کے دبائو کا شکار رہتے ہیں اور یوں تصویر ادھوری نہیں تو نامکمل ضرور رہ جاتی ہے۔
مانگٹ صاحب کا خاندان تقسیم اور فسادات کے دنوں میں بُری طرح سے تباہ و برباد ہوا، اس دوران میں انھوں نے اپنے غیر مذہب ہمسایوں کے اچھے ا ور بُرے دونوں طرح کے روپ دیکھے لیکن کہیں بھی توازن دیانت داری اور ہوش مندی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا البتہ یہ سوال جگہ جگہ اُٹھایا کہ آزادی کے اعلان کے بعد انسانی سفاکی درندگی اور لوٹ مار کے جو مظاہر سامنے آئے اور جو یک طرفہ ہونے کے بجائے ہمہ گیر تھے تو اس کی اصل وجہ کیا تھی اور انگریز حکومت اور مقامی اشرافیہ نے انھیں روکنے کی کوئی عملی کوشش کیوں نہیں کی، اس میں شک نہیں کہ دونوں طرف سے لوٹ مار کرنے والے بیشتر لوگ عملی طور پر کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے تھے کیونکہ کوئی بھی مذہب اس طرح کے ظلم و جبر اور ناانصافی کی حمائت نہیں کرتا البتہ اس میں کچھ ذاتی مفادات اور تاریخی دشمنیوں کا عمل دخل ضرور ہوسکتا ہے کہ ان کے اپنے آبائی گائوں کے نزدیک گوردوارہ فتح گڑھ میں سکھوں کے دسویں گُرو گووند سنگھ کے دو کم عمر بچوں کی سمادیاں ایک دیوار میں پیوست ضرور موجود ہیں جن کی وجہ سے سکھوں کے دلوں میں مسلمانوں کے لیے ایک نفرت صدیوں سے چلی آ رہی تھی، مبیّنہ طور پر یہ واقعہ اور نگ زیب عالم گیر کے دور میں رُونما ہوا، مجھے خود بھی یہ جگہ برادرم گروندر سنگھ عازم کوہلی کے ساتھ دیکھنے کا موقع ملا ہے مگر یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک طرف سکھ مذہب کے لوگ مجدّد الف ثانی اور اُن کی تعلیمات کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف ان کے مزار پر بھی حاضری دیتے ہیں۔
ایک ا ور بہت اہم گہری اور فکر انگیز بات ان سفر ناموں میں کئی جگہ دہرائی گئی ہے کہ پنجاب کے لوگوں نے کیوں اتنی بڑی تعدادمیں برٹش فوجوں میں حصہ لے کر دنیا بھر میں نہ صرف ان کے مفادات کی حفاظت میں جنگیںلڑیں، اس ضمن میں مشتاق مانگٹ صاحب کا یہ تبصرہ اور تجزیہ بہت اہم ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ اس علاقے کی غربت اور بے روزگاری تھی کہ معمولی ذمے داریوں کے باعث لوگوں کا گزارہ بہت مشکل تھا اور دوسری طرف انگریز تنخواہ اور رتبے کے ساتھ ساتھ اپنے لیے لڑنے والوں کا اُن کی زندگی میں اور بعد از مرگ بھی بہت خیال رکھتا تھا، گویا اس اعتبار سے اس سارے عمل کا کوئی تعلق مذہب سے نہیں تھا بلکہ یہ سب کچھ ایک معاشی جبر کی پیداوار تھی۔
مشتاق مانگٹ صاحب نے ان سوالوں کا جواب اپنے اکثر ہندواور سکھ ملنے و الوں سے بھی لینے کی کوشش کی ہے، اس ضمن میں ایک گفتگو کا کچھ حصہ پیش کر کے اس بات کو ختم کرتا ہوں کہ یہ کتاب ایک مختلف قسم کا مگر بہت عمدہ سفر نامہ ہے جو اپنے اندر کئی ایسے سوالات لیے ہوئے ہیں جو اکثر ہر سوچنے والے کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔
''انھوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ لوگ ہیں جنھیں آپ اپنا بہت بڑا ہمدرد سمجھتے ہیں جنھیں آپ اپنا ہیرو جانتے ہیں جن کی حکمرانی کے لیے آپ نے جنگیں لڑی ہیں ۔میں نے پوچھا کون ؟ تو جواب میں انھوں نے کہا آپ کے حکمران، نواب، راجے شہنشاہ ۔ میں یہ جواب سن کر خاموش ہوگیا، اس پر انھوں نے کہا ''مشاق جی تعلیم یافتہ قوم کسی بھی ڈکٹیٹر کو ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی، اسے جسمانی طور پر ایک طاقت ور اور عقل سے عاری سپاہی چاہیے ہوتا ہے جو اس کی خاطر اپنی جان دے دے ''
''میں نے پوچھا کوئی تو ہوگا جس نے تعلیم کو تھوڑا بہت پھیلایا ہوگا، ا س پر انھوں نے بتایا کہ آپ کے صوفیا کرام ، آپ کے دینی رہنما ، کچھ بھلائی کا کام کرنے اور دردِ دل رکھنے و الے لوگ۔''
''ایک سوال کا جواب میں ہمیشہ ڈھونڈتا رہا ہوں کہ کیا مسلم لیگ کا خدشہ درست تھا یا پھر ہندو اور انگریز قیادت مسلمانوں کو تقسیم کرکے ان کی طاقت کمزور کرنا چاہتی تھی ۔ کیا یہ درست ہے کہ نہیںیہ سوال تو بہرحال کیا جاسکتا ہے ۔''