ضمنی الیکشن
خان صاحب کواگلاوزیراعظم دیکھنا کسی دیوانے کاخواب تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا
کروڑوں روپے خرچ کرکے گیارہ نشستوں پر جو ضمنی الیکشن کروائے گئے اُن سے اس ملک اور قوم کوکیافائدہ ہوپایا،سوال تشنگی لیے ہوئے ہے۔اب تک تو انتخابات کے نتائج سامنے آ چکے ہوں گے، میں جب یہ کالم لکھ رہا تھا اس وقت الیکشن کی ابھی ووٹنگ بھی شروع نہیں ہوئی تھی۔
عمران خان ویسے ابھی بھی قومی اسمبلی کے حلف یافتہ رکن ہیں۔ اُن کا استعفی ابھی منظور بھی نہیں ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک شخص جو ابھی تک ممبر قومی اسمبلی بھی ہے اور وہ پھر بھی دوسری سات نشستوں پر انتخابات لڑا، آئین وقانون کی نظر میں یہ کیسے ممکن ہے ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
عمران خان کی جگہ کوئی اور یہ حرکت کر رہا ہوتا تو اس کے کاغذا ت نامزدگی کب کے مسترد کیے جاچکے ہوتے، مگر ہمارے یہاں کا سسٹم ہی نرالا ہے۔ نہ الیکشن کمیشن اورنہ کسی عدالت نے خان صاحب کو اس فضول حرکت سے روکا ۔ سب جانتے تھے کہ بالفرض خان صاحب تمام کی تمام سات نشستوں پر جیت بھی گئے تو وہ پھربھی قومی اسمبلی میں واپس نہیں جائیں گے، اگرانھوں نے جانا ہی ہوتاتو وہ کبھی بھی واپس جاسکتے تھے ۔اُن کا استعفی ابھی تک منظور بھی نہیں ہواہے ،لیکن وہ ایک شوق اور مشغلہ کے طور پرایسا کرکے اپنی مقبولیت پر ایک اور مہر تصدیق ثبت کروانا چاہتے تھے۔
اُن کاخیال تھا کہ ایسا کرکے اُن کی طرف سے جاری سیاسی دباؤ کو اور بھی تقویت ملے گی اوروہ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کرسکیںگے، ان کا اندازہ تھا کہ دوسری جانب وہ اگرسات نشستوں میں سے ایک دوسیٹوں پرہار بھی گئے تواُن کی موجودہ مقبولیت کاگراف اوپر جانے کے بجائے دھڑام سے نیچے آگرے گا،یہ جوا انھیں مہنگا بھی پڑسکتا تھا۔
بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی سیاست میںعمران خان ایک غیر سنجیدہ سیاستداں کے روپ میں ابھرکرسامنے آئے۔ ستر سال کی عمر میں بھی وہ خود کو ایک جوشیلا نوجوان ہی سمجھتے ہیں، ایسا نوجوان جو اپنے سوا کسی کو بھی اہمیت دینے کو تیار ہی نہیں۔وہ جو بات بھی کہتے ہیں اتنے اعتماداوریقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ جیسے یہی سچ ہے، حالانکہ ان کی معلومات اورجنرل نالج کا بھرم توایک بار نہیں کئی بار سرعام کھل چکاہے لیکن کیا مجال کہ انھیںاپنی اس ناقص معلومات کا کبھی خیال آیا ہو۔وہ چار موسموں کو بارہ موسم اورجاپان اور جرمنی کی سرحدوں کو آپس میں ملاکر بھی کبھی غلطی درست نہیں کرتے۔
ان کے اس کامل اعتمادہی کانتیجہ ہے کہ وہ جو بات بھی کہتے ہیں بڑے وثوق کے ساتھ ہی کہتے ہیں اور ماننے والے اس پر یقین بھی کرلیتے ہیں۔ وہ اپنے سواتمام سیاستدانوں کو چور اورڈاکو کہہ کرپکارتے ہیں حالانکہ ملکی سیاست میںکئی اچھے اورنیک سیاستداں بھی موجود ہیںجن سے اگر وہ چاہتے توسمجھوتہ بھی کرسکتے تھے لیکن اُن کامزاج سولوفلائٹ کا ہے وہ اپنے ساتھ کسی کو بھی ساتھ ملانے کوتیار نہیں ہیں۔
2014 دھرنے میں وہ علامہ طاہرالقادری کے ساتھ تحریک چلانے کے لیے شایداس لیے راضی اورتیار ہوگئے تھے کہ اس وقت اُن کواس کی ضرورت تھی اوریہ سارا سرکس منعقد کرنے والوں نے لانگ مارچ اوردھرنے میں مطلوبہ نفری اورکمک فراہم کرنے کے لیے یہ اتحاد ترتیب دیاتھا۔ڈی چوک پر 126 دنوں کے دھرنے میںسو دنوں تک تو علامہ کے لوگ اورمرید ہی وہاں پڑاؤڈال کے بیٹھے تھے،ورنہ تحریک انصاف کے لوگ توصبح ہوتے ہی غائب ہوچکے تھے۔
خود خان صاحب بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ دھرنے کو کامیاب بنانا کوئی آسان نہیں ہوتا۔ سوائے مذہبی افراد کے کوئی اوریہ کام سرانجام نہیں دے سکتا۔یہی وجہ کہ آج اتنی زبردست مقبولیت کے باوجودخان صاحب ابھی تک نئے مجوزہ لانگ مارچ اوردھرنے کی حتمی کال نہیں دے پارہے ہیں۔
انھیں دھڑکا لگا بیٹھا ہے کہ کہیں یہ پھر 25مئی والے دھرنے کی طرح ناکامی سے دوچار نہ ہوجائے،جب کہ دوسری طرف دھرنے کے حوالے سے شیخ رشید انتہائی بے چین اورمضطرب ہوتے جارہے ہیں ،وہ یہ معرکہ فوراً کھیلنا چاہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ جتنی دیرہوگی نقصان خان کو اورخود اُن کو بھی پہنچ سکتا ہے۔ گذرتے وقت کے ساتھ مقبولیت کے گراف کو قائم رکھنا اوربھی مشکل اورناممکن ہوتاجائے گا۔
ہاں تو بات ہورہی تھی ضمنی انتخابات کی اہمیت وافادیت کی۔ اگر تمام نشستوں سے خان صاحب کی کامیابی کے بعد خان کی مقبولیت میں مزید کتنااضافہ ہوتا، یہ سوال ایسا تھا جس کاجواب اب خان کے پاس بھی نہیں ہے ۔ وہ آج اپنے آپ کومقبولیت کی آخری حدوں پر دیکھ رہے ہیں اس کے بعد اس میں کمی تو ہوسکتی ہے لیکن اضافہ ہرگز ممکن نہیں ہے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ خان کاایک یادو سیٹوں پرہارجانا اُن کی شخصیت کے سحر کاجادو توڑنے میں کارگر ثابت ہوگا۔وہ تمام کی تمام نشستوں سے جیت کربھی کچھ حاصل نہیں کر پائیںگے جتنا وہ ایک نشست سے ہار کر کھو دیں گے۔ تمام نشستوں سے خود کو نامزد کرنے کا یہ حربہ خود اُن کے لیے نقصان دہ ثابت ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا، وہ یہ حربہ استعمال کرکے اپنے مخالفوں کودباؤ میں لاناچاہتے تھے۔
ابتدا میں وہ سمجھتے تھے کہ وہ عوامی دباؤ ڈال کر حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پرمجبور کردینگے اورفور ی الیکشن کرواکے دوتہائی سے اگلاالیکشن جیت جائیں گے،مگر یہ ممکن نہ ہوسکا۔اب تو وہ اپنی مقبولیت کے گراف کو بچانے کی فکر میں ہیں۔ انھیں دھڑکا لگا بیٹھاہے کہ جیسے جیسے وقت گذرتاجائے گاوہ عوام میں غیرمقبول ہوتے جائیں گے اوردوبارہ برسراقتدار آنے کاخواب کہیں چکناچور نہ ہوجائے۔
عدم اعتماد کی تحریک کے بعدجوعوامی ہمدردی اور پذیرائی انھیں ملی تھی وہ شایددیر تک قائم نہ رہ سکے،جس تیزی سے وہ اچانک مقبول ہوگئے تھے اُسی تیزی سے غیرمقبول بھی ہوسکتے ہیں۔پاکستانی سیاست کی غیریقینی کا حال تو ہم سب کو پتاہے۔ یہاں کچھ دنوں اور کچھ مہینوں میں کیاہوجائے کسی کو پتا نہیں ہوتا۔
2022کاسال ملکی سیاست کی اس ناپائیداری اورعدم استحکام کی خوب عکاسی کررہاہے۔سوچنے اور سمجھنے والوں کے لیے اس ایک سال کی تغیرپذیری میں بہت کچھ سامان عبرت ہے۔ اگلے چھ ماہ بھی اس لحاظ اسے بہت اہم ہیں، کسی کوکچھ پتا نہیں کہ اگلے چھ ماہ میں کیاکیا ہونے والا ہے۔ خودسیاسی بساط کے تانے بانے بننے والوں کوبھی نہیں معلوم کہ اگلاحکمراں کون ہوگا۔
عمران خان چاہے کتنے لانگ مارچ کرلیں اورکتنا ہی بڑا دھرنا دے ڈالیں لیکن دوبارہ برسراقتدار آنا اب شایداتنی جلدی ممکن نہیں ہے۔نئے الیکشن تواس سال ہوتے دکھائی نہیں دیتے ۔اگلے سال اگر ہوئے تو کب ہونگے یہ بھی کسی کوپتا نہیں۔ مگر اتنا وثوق سے کہا جاسکتاہے کہ عمران خان اپنی مقبولیت کا موجودہ گراف برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔
PDM چاہے برسراقتدار رہے یا نہ رہے لیکن خان صاحب کواگلاوزیراعظم دیکھنا کسی دیوانے کاخواب تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا۔ یہ میرااندازہ یااندیشہ ہی نہیں بلکہ ملک کی سیاسی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کی ممکنہ تصویرکشی ہے۔ ہمیں یہاں یہ نہیں بھولناچاہیے کہ محمد خان جونیجو کی طرح کوئی اور نیاچہرہ بھی وزیراعظم کے روپ میں سامنے آسکتاہے۔