نومبر سے مارچ 2023 تک پنجاب و کے پی سی این جی سے محروم رہیں گے

موسم سرما کے دوران دونوں صوبوں میں سی این جی اسٹیشنز کیلیے ایل این جی دستیاب نہیں ہوگی


Zafar Bhutta October 18, 2022
گیس فراہم کرنیوالے ادارے کیپٹیو پاور پلانٹس کو گیس فراہمی میں 50 فیصد کمی کردیں گے (فوٹو : فائل)

سردیوں کے موسم میں مطلوبہ ایل این جی کی عدم دستیابی کی وجہ سے گیس کا بحران مزید سنگین ہونے کے باعث پنجاب اور پختونخوا سی این جی اسٹیشن نومبر 2022 سے مارچ 2023 تک گیس سے محروم رہیں گے۔

حکومت کو ہر ماہ 12ایل این جی کارگو درآمد کرنے کی ضرورت ہے،صوبہ پنجاب بھی گیس کی کم مقامی پیداوار کے باعث گیس بحران سے گزر رہا ہے،تاہم حالیہ موسم سرما کے دوران پنجاب اور پختونخوا میں سی این جی اسٹیشنز کے لیے ایل این جی دستیاب نہیں ہوگی۔

سرکاری حکام نے کہا کہ ایس این جی پی ایل سسٹم پر کھاد کے شعبوں کو گیس کی فراہمی میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔RLNG پر سبسڈی کے عوض حکومت سے SNGPL کی وصولی تقریباً 199بلین روپے ہے۔

حکومت اور سوئی کمپنیاں تیسرے فریق کے لیے گیس کی مارکیٹ کھولنے میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں کیونکہ طویل کیلیے ملک کی گیس ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نئے ایل این جی ٹرمینلز کا قیام بہت ضروری ہے۔

فی الحال 1200 ایم ایم سی ایف ڈی کی ری گیسیفیکیشن کی کل صلاحیت کے ساتھ 2 ایل این جی ٹرمینلز کام کر رہے ہیں تاہم ان کا مکمل استعمال نہیں کیا جا رہا۔نئے منصوبوں پر بڑے پیمانے پر فنڈز خرچ کرنے کے بجائے، ترمیم کے بعد پی جی پی سی ٹرمینل کو آسانی سے اینگرو ٹریمینل پر ایف ایس آر یوکے ساتھ 600 سے 900 تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

ایس این جی پی ایل ای سی سی اور حکومت کے فیصلے مطابق RLNG کو گھریلو اور تجارتی شعبوں میں موڑ رہا ہے۔ گیس فراہم کرنے والے اداروں نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن (نارتھ ساؤتھ پائپ لائن) کو آگے بڑھائے۔

کراچی سے شمال تک 1200 ایم ایم سی ایف ڈی کی موجودہ نقل و حمل کی گنجائش ہے جسے بڑھا کر 1900 ایم ایم سی ایف ڈی کیا جا سکتا ہے جو زیادہ کھپت کی طلب کو پورا کرنے کے لیے اب بھی ناکافی ہوگی۔

انھوں نے حکومت پر زور دیا کہ تاپی یا آئی پی پائپ لائن کے منصوبے ملک کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں سستی قیمت پر گیس کا اضافی حجم حاصل ہو گا۔قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اوگرا آرڈیننس ترمیمی بل منظور کیا جو ایک تاریخی اصلاحات ہے جو پاکستان کی توانائی کی حفاظت کو یقینی بنائے گی۔

WACOG کے نفاذ سے حکومت کو گیس کی قیمتوں کے تعین کے ڈھانچے میں اصلاحات، بے ضابطگیوں کو دور کرنے اور درآمدی گیس کی فراہمی کو بڑھانے کی اجازت ملے گی۔

ایل پی جی اس وقت ملک میں کل بنیادی توانائی کی فراہمی کا تقریباً 1-1.5 فیصد ہے۔مالی سال 2019-20کے دوران ایل پی جی کی کھپت تقریباً 1.4 ملین ٹن تھی۔ مالی سال 2019-20کے دوران ایل پی جی کی اوسط کھپت تقریباً 3,950 ٹن یومیہ تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں