پیپلزپارٹی معاہدے پر عمل درآمد نہیں کررہی ایم کیو ایم کا وزیراعظم سے شدید تحفظات کا اظہار
آصف زرداری اور بلاول سے خود بات کروں گا، وزیر اعظم کی ایم کیو ایم وفد کو تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی قیادت نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور سندھ حکومت کی جانب سے معاہدوں پر عمل درآمد نہ ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اسلام آباد میں ایم کیو ایم وفد کی خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں وزیراعظم شہباز شریف سے اہم ملاقات ہوئی، جس میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری وسیم اختر ، فیصل سبزواری شریک تھے جبکہ وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ ، سعد رفیق اور ایاز صادق بھی ملاقات میں موجود تھے۔
گورنر سندھ نے ایم کیو ایم کے تحفظات سے وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ ایم کیوایم نے واضح کیا کہ حلقہ بندیوں کے بغیر بلدیاتی الیکشن بے مقصد ہوں گے لہذا پہلے حلقہ بندیاں کرائی جائیں پھر الیکشن کی طرف جایا جائے، ہمارے معاہدے میں حلقہ بندیاں اہم نکتہ ہے، اسکے بغیر الیکشن میں جانا کراچی اور شہری سندھ کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
ایم کیو ایم کے وفد نے پیپلز پارٹی کی جانب سے معاہدے پر عمل نہ کرنے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا اور وزیر اعظم سے بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم نہ کرنے اور 140 اے پر عمل نہ کرنے کا بھی شکوہ کیا۔
ایم کیو ایم رہنماؤں نے وزیر اعظم کو مخاطب کرکے کہا کہ 'آپ اور مولانا فضل الرحمان پیپلز پارٹی معاہدے کے ضامن تھے اب آپ فیصلہ کریں کیا کرنا چاہیے، 6ماہ گزرنے والے ہیں، بہت وقت گزر چکا معاہدوں پر عمل درآمد نہہں ہورہا، اب ہمیں جلد فیصلہ کرنا ہے ،اگر پیپلز پارٹی نہیں مان رہی تو ہمیں بتایا جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ ویر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ آپ اہم اتحادی ہیں ،وفاق اور صوبے میں جو معاہدے کیے گیے ہے پورے ہوں گے ، کراچی کو ایسے تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔
وزیر اعظم نے ایم کیو ایم وفد کو یقین دہانی کرائی کے آصف زرداری اور بلاول سے خود بات کروں گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خالد مقبول صدیقی، فیصل سبزواری اسلام آباد میں ہی موجود ہیں جبکہ گورنر سندھ ملاقات کے بعد کراچی واپس روانہ ہوگئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بلدیاتی ایکٹ میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کو گورنر سندھ نے تمام تفصیلات سےآگاہ کیا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ اگر سندھ میں بلدیاتی ایکٹ میں ترامیم واپس نہیں لی جاتیں تو ایم کیو ایم کی جانب سے بڑے فیصلہ کیے جانے کا امکان ہے اس سلسلے میں تمام اہم رہنماؤں کے اعتماد میں لیا جائے گا۔