امریکا کا پہلا پتھر
پاکستان کا وجود عالمی استعمار کے لیے ہمیشہ سے ناپسندیدہ اور ناقابل قبول رہا ہے
زیادہ پرانی بات نہیں ہم سب یہ اچھی طرح جانتے ہیں ہمارے سامنے ہی ایک سپر پاور سوویت یونین کا خاتمہ ہوا اور اس کے وجودکا نام و نشان تک مٹ گیا۔
سوویت یونین ایک بڑی فوجی طاقت کے علاوہ ایک نظریئے کی علمبردار بھی تھی، اس نظریئے کو دنیا بھر میں بہت پذیرائی بھی ملی لیکن کیمونسٹ ریاست اپنے خاتمے کے ساتھ کیمونزم کا خاتمہ بھی کر گئی۔
کیمونیزم کے بعد اب یوں لگتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی علمبردار واحد سپر پاور امریکا کی باری لگ چکی ہے ۔ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو بلاشبہ امریکا سپر پاور ہے جو دنیا میں کہیں بھی حشر برپا کر سکتی ہے۔ لیکن حال کے ساتھ ساتھ تاریخ پر بھی گہری نظر رکھنی چاہیے۔
تاریخ کی کتنی ہی طاقت ور اور بظاہر ناقابل تسخیر سلطنتیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور آج ان کی یادیں ان کی تعمیر کردہ پر شکوہ عمارتوں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں جو ان کی عظم رفتہ کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ عبرت کی وہ نشانیاں ہیں جن سے وہ پہچانی جاتی ہیں اور آج کی جدید دنیا ان کو تاریخی ورثہ قرار دے کر ان کی حفاظت کرتی ہے۔
امریکا کی بات کی جائے تو وہ علانیہ عام آدمی کے استحصال کے سرمایہ دارانہ نظام کا مرکز و منبع ہے لیکن اس کے باوجود وہ پوری دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے حکمرانی کا خواہاں اور بے چین ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں اس کا پہلا نشانہ مسلمان ریاستیں رہی ہیں، افغانستان سے شروع ہونے والا امریکی جارحیت کاسفر عراق سے ہوتا ہوا دوبارہ برصغیر کی جانب بڑھتا دکھائی دیتا ہے اور اس مرتبہ اس کا نشانہ ایٹمی پاکستان ہے۔
دراصل امریکا ہمارے خطے میں بھارت کو طاقت ور بنا کر اپنی ایک ذیلی ریاست کی داغ بیل ڈالنا چاہتا ہے لیکن اس کو اپنے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ جو نظر آتی ہے، وہ ایٹمی پاکستان ہے اور جس کی فوج میں جاں نثاری ، جہاد اور اسلام پر مرمٹنے کی تمنا جوان رہتی ہے۔
افغانستان کی طرح پاکستان پر حملہ نہیں کیا جا سکتا،کوئی عقل کا اندھا ہی پاکستان کے خلاف براہ راست جنگ کر سکتا ہے اور بھارت تو اس جرات کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔
گزشتہ دنوں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی برسی خاموشی سے گزر گئی، اعلیٰ سطح پر کوئی تقریب نظر سے نہیں گزری، شاید ہمارے حکمران امریکا سے خوفزدہ ہیں اور وہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس میں امریکی خوشنودی کو ٹھیس پہنچنے کا احتمال ہو اورمباداً نارضگی نہ مول لینی پڑ جائے لیکن اس کے باوجود امریکا کے صدر نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نہ صرف غیر محفوظ قرار دیا ہے بلکہ پاکستان کو ایک خطرناک ریاست کے درجے پر بھی فائز کرنے کی کوشش کی ہے۔
امریکی صدر کے اس بیان پر پاکستانی حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور پاکستان میں امریکی سفیر کو بلا کر رسمی احتجاج ریکارڈ کرایاگیا ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان پر عمران خان شادیانے بجا رہے ہیں اور حکومت مخالف اپنے امریکی بیانئے کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔
پاکستانی سیاست اپنی جگہ پر کہ کوئی بھی سیاست دان ملک کے لیے نہیں اپنی ذات کی سیاست کر رہا ہے لیکن ملک کی سلامتی کی بات کی جائے تو اسے کمزور کرنے میں انھی سیاست دانوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ہمارے ہاں کرپشن کو جس طرح پیدا کیا گیا اور اسے فروغ دیا گیا ہے، یہ ہمارے دشمنوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوا ہے اور وہ پاکستانیوں کو کرپٹ کر کے اپنا کام نکال لیتے ہیں۔
پاکستان کے یہ دشمن بھارت، اسرائیل اور امریکا ہیں ۔ جیسا کہ عرض کیا ہے کہ پاکستان کے خلاف جنگ ہو سکتی اور انھی کالموں میں بارہا یہ بھی عرض کیا ہے کہ اصل نشانہ ایٹم بم ہے۔
اس لیے معاشی میدان میں پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرکے اس کے امن امان کو ایک بار پھر تباہ کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں اور معاشی حالت پر مسلسل ایسی کاری ضربیں لگائی گئی ہیں کہ یہاں کاروبار ممکن نہ رہے ۔ ان بگڑتے حالات کا بے چین اور تباہ حال قوم کب تک مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس پر فوجی حملہ کرنے کے مقابلے میں یہ کام آسان اور کم خرچ تھا جو سرمایہ دارانہ نظام کی جانب سے کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کا وجود عالمی استعمار کے لیے ہمیشہ سے ناپسندیدہ اور ناقابل قبول رہا ہے اور اب اسی عالمی استعمار نے ہمیں اپنے شکنجے میں مضبوطی سے جکڑ لیا ہے۔
ابھی تو پہلا پتھر امریکی صدر نے پھینکا ہے اور وہ ردعمل کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو اصل خطرہ پاکستانی عوام سے ہے، پاکستانی حکمران اور سیاستدان تو ان کے دیکھے بھالے اور جانے پہچانے ہیں۔ دراصل یہ پاکستان کے عوام ہی ہیں جو ایٹمی اثاثوں پر انتہائی جذباتی ہیں ، امریکا صدر خاطر جمع رکھیں پاکستانی عوام متحد ہیں۔