قدیم زمانے کا جدید آدمی

دنیا میں سب سے زیادہ تراجم انگریزی زبان میں ہوتے ہیں، کیونکہ اسے عالمی سطح پر رابطے کی زبان سمجھا جاتا ہے۔


خرم سہیل March 24, 2014
[email protected]

دنیا میں سب سے زیادہ تراجم انگریزی زبان میں ہوتے ہیں، کیونکہ اسے عالمی سطح پر رابطے کی زبان سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے تمام ممالک کی مقامی زبانوں میں تخلیق ہونے والی کتابیں اس زبان میں بھی منتقل کی جاتی ہیں تا کہ دنیا بھر میں ان کی کتاب کا پیغام پہنچ سکے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں دارالترجمہ نامی کسی ادارے کو قائم ہی نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ دنیا ہمارے بارے میں بہت کم جانتی ہے اور ہمارے ہاں کی اکثریت بھی دنیا کے بارے میں کافی بے خبر ہے۔ یہ تشویشناک صورت حال ہے، مگر ہمارے معاشرے میں ابھی بھی افرادی سطح پر لوگ کوشش کرتے ہیں اور معاشرے میں اپنی نیکی سے بھلائی اور فلاح و بہبود کے کام کرتے ہیں، عبدالستار ایدھی اس کی ایک روشن مثال ہیں۔ ایسی ہی ایک نظیر کتابوں کی دنیا میں دکھائی دیتی ہے۔

لاہور کے رہائشی ''حسن دین'' کو کتابوں سے بے حد محبت تھی، اس محبت نے ان کو بہترین دوست نوازے، جن میں بہت سے لکھنے پڑھنے والے تخلیق کار بھی تھے۔ حضوری باغ اور پاک ٹی ہاؤس میں ان دوستوں کی محفلیں جما کرتی تھیں۔ ان کے بڑے بھائی نامور گلوکار محمد رفیع کے نہایت قریبی دوست تھے۔ اس ماحول کی یادیں حسن دین کے گھر کے در و دیوار پر نقش ہو گئیں اور ان کے تین بیٹے کتاب کی محبت میں کتاب پڑھنے سے کچھ قدم آگے آئے اور انھوں نے اچھی کتابوں کو چھاپنے کا بیڑا اٹھایا۔ انھی میں سے ایک بیٹے کا نام آصف حسن ہے، جنہوں نے عالمی ادب کو اردو میں روشناس کروانے کے لیے گزشتہ چند برسوں میں بے انتہا کام کیا ہے، جو کام اداروں کا تھا، اسے یہ فرد تن تنہا اپنے کاندھوں پر لیے نبھائے جا رہا ہے، اس کام کی تفصیل حیرت انگیز ہے۔

کراچی کے اردو بازار میں سٹی بک پوائنٹ کے نام سے قائم اس ادارے نے سب سے پہلے فلسفے اور نفسیات کے موضوع پر بے شمار کتابیں شایع کیں۔ ان میں سے اکثر کتابیں ترجمہ شدہ تھیں۔ عالمی فلسفے کے تمام بڑے فلسفیوں کے کام کو انھوں نے سمیٹ کر چھاپا، جن میں سقراط، افلاطون، ارسطو اور دور جدید کے کئی فلسفی شامل ہیں۔ اس ادارے سے حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب ''افکار فلسفہ اور یونانی تصورات'' فلسفیوں کی تاریخ کو بیان کرتی ہے۔ دور حاضر کے فلسفی ''فرانسز فوکویاما'' کی کتاب ''تاریخ کا خاتمہ'' ایک بہترین ترجمہ کی گئی کتاب ہے۔ ایک کتاب ''فلسفہ کیا ہے'' کے نام سے ترجمہ ہوئی، جو ''آس والڈ کلپے'' کی مشہور ترین کتاب ہے۔

اس ادارے کی طرف سے مزید چند اہم کتابوں کے تراجم کرا کے جو کتابیں شایع کی گئیں، ان میں جارج برکلے کی ''مکالمات برکلے'' برٹرینڈ رسل کی ''معنی اور صداقت'' جوسٹین گارڈر کی ''سوفی کی دنیا''۔ ول ڈیورانٹ کی ''حکایات فلسفہ'' ارسطو کی ''فلسفے کی اخلاقیات و نظریات'' سقراط کی ''زہر کے پیالے سے روشنی کے سفر تک'' افلاطون کی ''فلسفے کی تعلیمات اور حیات'' اور متعدد کتابیں ہیں۔ عمران شاہد بھنڈر جیسے فلسفے کے تناظر میں نئے قلم کاروں کی تصانیف کو بھی شایع کیا، ان کی ''فلسفہ اور سامراجی دہشت'' جیسی شاندار کتاب کو چھاپا۔

اسی ادارے سے نفسیات، تعلیم، مختلف تاریخی انقلابات اور مختلف تاریخی کتابوں کو بھی شایع کیا۔ عالمی کلاسیکی اور عصری ادب کے کئی بڑے لکھنے والوں کو بھی خوبصورت طباعت کے ذریعے اردو زبان کے قارئین تک پہنچایا، جن میں فیودر دستو فسکی، گوئٹے، ژاں پال سارتر، جارج آرویل، البرٹ کامیو، جیمز ہیڈلے، نجیب محفوظ، پائلو کوئیلہو، ایلف شفق، ایما گولڈمان، خالد حسینی، گائبریل گارشیا مارکیز اور دیگر شامل ہیں۔ پاکستان کے بھی کئی معروف نام اس ادارے کی فہرست میں شامل ہیں، ان میں معروف صحافی احفاظ الرحمن، کالم نویس اور افسانہ نگار زاہدہ حنا سمیت کئی بڑے نام شامل ہیں۔

ادب، شاعری، موسیقی، مصوری، تاریخ، سائنس، مذہب، سماجیات سمیت ہماری زندگی سے وابستہ ہر موضوع پر اس ادارے کی شایع کی ہوئی کتاب ہمیں دکھائی دے گی۔ اتنے قلیل عرصے میں اتنے موضوعات کا احاطہ کرلینا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ انھوں نے نہ صرف کتابیں شایع کرنے بلکہ قارئین کو اچھی کتابوں سے متعارف کروانا بھی ایک مقصد ہے۔ کتابوں کے تراجم کے علاوہ ان کے کریڈیٹ پر کئی نئے لکھنے والوں کو متعارف کروانے کا سہرا بھی ہے۔ اس کی سب سے پہلی مثال راقم خود ہے۔ میرے کیرئیر کی پہلی کتاب ''باتوں کی پیالی میں ٹھنڈی چائے'' کے دو ایڈیشن انھوں نے شایع کیے۔ زخمی کانپوری جن کی کتابیں فلم کے شعبے سے متعلق تھیں، اس موضوع پر تقریباً آٹھ کتابیں شایع کر چکے ہیں۔ تصوف پر کئی نئے لکھنے والے مصنفوں کو بھی متعارف کروانے کا سہرا انھیں کے سر جاتا ہے۔

ناشر کی ذمے داری صرف کتابیں چھاپنا ہی نہیں ہوتا، بلکہ انھیں چھاپ کر ملک کے کونے کونے میں پہنچانا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے بھی سٹی بک پوائنٹ کو یہ ملکہ حاصل ہے کہ ان کی کتابیں پاکستان کے تمام بڑے چھوٹے شہروں میں دستیاب ہوتی ہیں۔ ان کی کتابوں کے سرورق جاذب نظر ہوتے ہیں، البتہ ایک خامی ان کی کتابوں میں بارہا دیکھنے میں آئی، وہ ان کتابوں میں زبان کی غلطیوں کا ہونا ہے۔ باربار توجہ دلوانے کے بعد انھیں کافی حد تک درست کر لیا گیا ہے۔ پرانی کتابیں جنہیں چھپے ہوئے برسوں گزر گئے، ان میں کئی کتابیں پچاس اور سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہیں، اس ادارے کے توسط سے انھیں بھی دوباہ شایع کیا گیا اور یوں قارئین کی رسائی ایسی کتاب تک بھی ممکن ہو سکی، جسے حاصل کر کے پڑھنا مشکل تھا، کیونکہ وقت کی گرد تلے دبی یہ کتابیں مارکیٹ میں ناپید تھیں۔

دنیا کے بڑے واقعات، انقلاب فرانس، روس، متنازعہ کتابیں، بڑی شخصیات کی سوانح عمریاں، علاقائی زبانوں کا شعر و ادب، پاکستان کی تاریخ، شو بزنس، ناول، افسانے اور دیگر موضوعات پر دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس ادارے کی کتابیں بہت کشش رکھتی ہیں۔ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی یہ ادارہ اکثریت کے لیے مہربان ثابت ہوا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ذرایع ابلاغ کی کثرت نے مطالعے کے رجحان میں کمی پیدا کی ہے، میرے خیال سے یہ بات غلط ہے کیونکہ جس تواتر سے کتابیں اشاعت پذیر ہو رہی ہیں اور ان کی فروخت کا تناسب بھی خاصا بلند ہے، اس کو دیکھ کر بالکل ایسا نہیں لگتا کہ کتابیں پڑھنے کے رجحان میں کوئی کمی آئی ہے، بلکہ اب تو مختلف النوع موضوعات پر لکھنے اور پڑھنے کا رجحان پہلے سے بڑھا ہے، خاص طور پر نوجوان پوچھتے ہیں کہ کس طرح لکھنے پر دسترس حاصل کی جائے اور کہاں سے مطالعے کی ابتدا کی جائے۔ میرا انھیں مشورہ ہے کہ اگر وہ فلسفے، تاریخ، نفسیات اور ادب جیسے موضوعات پر پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ اس ادارے کی کتابوں کا ایک جائزہ ضرور لیں، شاید آسان اور عام فہم زبان میں لکھی یہ کتابیں ان کی مددگار ثابت ہوں۔

سٹی بک پوائنٹ پر بیٹھ کر آصف حسن سے گفتگو کرنے کے بعد نوجوان مزید بہتر انداز میں یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ انھیں کن موضوعات پر کتابیں پڑھنا چاہئیں اور یہی خوبی ہے اس ادارے کی جہاں بیٹھا ہوا اس کا مالک صرف ایک کاروباری شخص نہیں بلکہ علم سے محبت کرنے والا اور علم کے متلاشیوں کا قدردان بھی ہے، اور ان کی محفل کی ایک سب سے دلکش بات یہ ہے کہ کتابوں کی گفتگو میں یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کب چائے آ گئی، بس چائے کے گھونٹ لیتے جائیے اور کتابیں دیکھتے جائیے۔

پاکستان میں اگر کتاب فروشی میں کتاب کی محبت بھی شامل ہو جائے تو اس طرح کے کئی ادارے سامنے آ سکتے ہیں جو معاشرے میں علم بانٹنے میں معاون ثابت ہو سکیں گے۔ ہر ذی روح مسائل کا حل چاہتا ہے، شعور کی گرہیں کھولنے کی چاہ رکھتا ہے، ذہن کی کھلی کھڑکی سے زندگی کو نئے زاویوں سے دیکھنے کی آرزو رکھتا ہے اور حروف کی معنویت میں اترنے کی سعی کرتا ہے، یہ سب کچھ جب ہی ممکن ہے کہ سچے دل سے علم حاصل کیا جائے اور کتابوں کی صورت میں یہ سیڑھیاں چڑھی جائیں جو ہمیں تلاش کی اس منزل کی جانب لے جاتی ہیں جہاں شعور، وجدان، مشاہدہ، ریاضت اور لطافت ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہوتے ہیں۔ جس نے زندگی میں دلکش کتابیں نہ پڑھیں، اس نے زندگی میں کیا دیکھا۔

کتابوں کی ایسی خوبصورت دنیا تعمیر کرنے پر اس ادارے کے سربراہ آصف حسن بے حد مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہمیں کتاب دوست شخصیات کی خدمات کے اعتراف میں بخل سے کبھی کام نہیں لینا چاہیے۔ لہٰذا آج میں نے بھی لفظوں کی خوب سخاوت برتی ہے کیونکہ کتابوں کی محبت میں میرے کرسٹوفر کولمبس یہ صاحب ہیں، جنھوں نے تراجم کی صنف میں اپنا سکہ جمایا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں