جیل کے شگوفے
عموماً جیل کے حوالے سے یہ تاثر قائم ہے کہ یہاں سوائے ’’جرم‘‘ کے کوئی اور معاملات نہیں ہوتے ہیں
NEW DEHLI:
عموماً جیل کے حوالے سے یہ تاثر قائم ہے کہ یہاں سوائے ''جرم'' کے کوئی اور معاملات نہیں ہوتے ہیں۔ ''جرائم کی یونیورسٹی'' کہلانے والی جیل کے حوالے سے قیدیوں کی زندگیوں پر سنجیدگی سے کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ قیدی کس حال میں ہے، کس طرح اس کی زندگی بسر ہو رہی ہے اور اس کے خاندان پر کیا اثرات رونما ہو رہے ہیں؟ اس سے آزاد دنیا کے دانشوروں کو بھی تعلق نہیں ہے۔
قید خانے کی دیواریں کاٹنے کو دوڑتی ہیں، اگر کوئی قیدی خود کو مصروف نہ رکھے۔ اس لیے زیادہ تر قیدی جیل میں آزادانہ گھومنے پھرنے اور وقت گزارنے کے لیے مشقت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح وہ سارا دن مصروف بھی رہتے ہیں اور تھک ہار کر رات بھر سو جاتے ہیں۔ بعض قیدی سکون کے لیے نشہ آور ادویات یا منشیات کی جانب راغب ہوتے ہیں اور ان کا یہ ماننا ہوتا ہے کہ نشے کے بغیر جیل کاٹنا ناممکن ہے۔ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ منشیات کے استعمال کے بغیر جیل نہیں کاٹی جا سکتی اور یہ تاثر بھی درست نہیں ہے کہ جیل میں اسیر قیدی درشت مزاج اور سخت گیر کیفیت کے حامل ہوتے ہیں۔ بظاہر ایسا سمجھا جاتا ہے کہ خطرناک قیدیوں کی آنکھوں میں خون اترا ہو گا، کوئی بات کرے گا تو وہ اس کی جان لے لے گا، بے ضرر قیدی کی روح قبض کر لی جاتی ہو گی۔ وغیرہ وغیرہ۔ جیل میں شگوفے بھی نہیں پھوٹتے کہ ہر قیدی خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہو گا لیکن بعض اوقات بڑے دلچسپ واقعات یادگار بن جاتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ جیل ملیر لانڈھی میں ایک بیرک فیضان قرآن کے نام سے قائم ہے۔ مختلف جرائم میں گناہ گار اور بے گناہوں کی بڑی تعداد یہاں موجود ہے۔ یہاں قیدیوں کو پانچ وقت کی نماز، صلوٰۃ و سلام، درود، اور حق اﷲ ہو کی محافل میں شرکت کرنا ضروری ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مدرسہ خالصتاً بریلوی اہلسنت مسلک کا ہے، چونکہ یہ بیرکیں صاف ستھری ہیں اس لیے جنھیں جیل کی دوسری بیرکوں سے بچنا ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی طور پر کوشش کر کے مدرسے میں جگہ پانے کی تگ و دو کرتا ہے۔
محرم الحرام کے عاشورہ کے دنوں میں انکشاف ہوا کہ یہاں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے قیدی موجود تھے جنھوں نے جیل سپریٹنڈنٹ کو درخواستیں دیں کہ انھیں مجالس میں شرکت کے لیے جیل میں قائم بارگاہ جانے کی اور جلوس عزا داری میں جانے کی اجازت دی جائے۔ انھیں حیرانگی سے دیکھا کہ وہ پانچ وقتہ نمازیں پابندی سے پڑھ رہے تھے، درود و سلام و حق اللہ ہو کی مجلس میں بھی باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ سب سے زیادہ حیران کن لمحہ جب سامنے آیا جب ایک کرسچین کی رہائی کی ریلیز آئی، پتہ چلا کہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والا بھی باقاعدہ نمازیں پڑھتا رہا تھا۔ اسی مدرسے میں منسلک دیوبند سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے لیکن کبھی بھی درود و سلام، نعت خوانی وغیرہ پر ان کی جانب سے اعتراضات یا تنازعات سامنے نہیں آئے۔
ان باتوں کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ قیدی، کسی بھی جرم میں آیا ہو اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتا ہے۔ کسی کا دباؤ برداشت نہیں کرتا۔ مذہب کے معاملے میں بھی بڑا حساس ہوتا ہے۔ لیکن ان کے درمیان باہمی اتفاق کا مظاہرہ بھی بڑا متاثر کن ہوتا ہے۔ اسے کسی ڈر و خوف سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ بیرک آؤٹ نہ ہو لیکن بہرطور یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر جیل کے اندر ایسا ماحول بنا کر دیدیا جائے تو مذہب اور مسلک بھی فروعی بن جاتے ہیں۔ جیلوں کے اندر، مختلف جہادی، مذہبی، فرقہ وارانہ تنظیموں و سیاسی گروپوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کی بڑی کثیر تعداد بھی ہوتی ہے۔ لیکن سب ایک نظم و ضبط کے قاعدے اور لڑی میں میکانکی طور پر جڑے ہوتے ہیں۔ چند واقعات کا تذکرہ کروں گا، جو قیدیوں کی حس مزاح کی عکاسی کرتے ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جیل میں اسیر قیدی توجہ کے طلب گار ہیں۔
ایک بار دوران تدریس قاری صاحب نماز کی شرائط یاد کروا رہے تھے، جن میں 1۔ طہارت۔ 2۔ ستر عورت (ناف سے لے کر گھٹنے تک کے حصے کو ڈھکا ہوا)۔ 3۔ استقبال قبلہ۔ 4۔ وقت۔ 5۔ نیت۔ 6۔ تکبیر تحریمہ۔ اس حوالے سے جب مشق کے بعد قیدیوں سے پوچھا گیا تو ایک قیدی بھول گیا اور اس نے ''ستر عورت'' کے بجائے ''دوسری عورت'' کہہ دیا۔ قاری صاحب اچھل پڑے کہ کیا، دوسری عورت؟ قیدی سمجھ گیا کہ غلطی ہو گئی ہے تو برجستہ کہا کہ دوسری نہیں تو ''تیسری عورت'' ہو گی۔
عموماً مختلف بیرکوں میں امامت کے فرائض قیدی ہی سرانجام دیتے ہیں۔ چونکہ وہ وقتی امام ہوتے ہیں اس لیے کچھ نہ کچھ غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ باقاعدہ سرکاری امام مساجد کے لیے ہوتے ہیں۔ ایک بار بیرک میں قیدی امام، دوران سجدہ غائب ہو گئے۔ تمام مقتدی تکبیر کا انتظار کرتے رہے لیکن کافی دیر جب جواب نہ ملا تو ایک قیدی سر اٹھا کر چلایا کہ ''ارے امام تو غائب ہے''۔ سب نے تلاش کیا تو پتہ چلا کہ کسی دوسرے قیدی کے گھر کے کھانے کی خوشبو اس سے برداشت نہ ہوئی تو وہ کھانا کھانے چلا گیا۔
ایک بار غسل خانے میں نہاتے ہوئے ایک قیدی کے کپڑے چرا لیے گئے۔ وہ قیدی پہلے شور شرابا کرتا رہا، گالیاں بکتا رہا، لیکن دوسرے قیدی اس کا مذاق اڑاتے رہے اور اسے ویسے ہی باہر آنے کا کہہ کر ہنستے رہے۔ ان کا بنیادی مقصد صرف ہنسی مذاق تھا اور اس سے اپنی شرائط منوانے کی ضد کی گئی، لیکن قیدی بھی چالاک نکلا اور اس نے کہا کہ چلو میرے کپڑے رکھ لو، میں دوسرے کپڑے پہن لیتا ہوں۔ وہ ننگ دھڑنگ نکل آیا جس پر تمام قیدی بھاگ کھڑے ہوئے اور اس نے بیرک میں جا کر دوسرے کپڑے بدل لیے۔
اسی طرح ایک قیدی کو اتنا تنگ کیا گیا کہ اسے رات بھر سونے نہیں دیا جاتا۔ وہ روہانسا ہو کر ہاتھ جوڑتا کہ خدا کے لیے بھائی! اسے سونے دو۔ زیادہ تر قیدی، اپنے ساتھی قیدیوں سے اس قسم کا مذاق بھی کرتے نظر آئے کہ شام کے وقت کسی اہلکار کو کہہ دیا کہ فلاں کا نام لو کہ اس کی ریلیز آئی ہے۔ وہ قیدی خوش ہو کر جب بیرک سے باہر نکلتا اور پوری بیرک ہنس پڑتی اور وہ جھینپ جاتا کہ اسے بے وقوف بنا دیا گیا ہے۔
بعض قیدی مشہور گانوں کی پیروڈی کر کے اسے پولیس پر منسوب کر دیتے اور بعض قیدی، بیرک میں آنے والے نئے قیدی کے ہاتھ میں جگ تھما دیتے کہ فلاں فلاں راستے سے جاؤ اور بھینسوں کے واڑے سے دودھ لے آؤ۔ وہ بچارا جگ لے کر گھومتا گھومتا جیلر کے آفس کے سامنے پہنچ جاتا، پھر ظاہر ہے کہ اس کا کتنا مذاق بن جاتا۔ بعض قیدی کورٹ جانے والی گاڑی کی جالیوں سے باہر شہریوں کو تنگ کرتے۔ وجہ یہ بناتے کہ وہ غصہ ہو گا اور کہہ اٹھے گا کہ ''سالے! تو باہر نکل میں دیکھ لوں گا''۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ اﷲ ہماری نہیں ان کی سن لے اور ہماری ریلیز آ جائے۔ ایک بار برسوں سے قید ایک قیدی نے غلطی سے قبلہ رخ کے برخلاف نماز پڑھ لی، شام کو وہ اچانک ریلیز ہو گیا۔ اگلے دن دیکھا کہ پوری بیرک الٹی نماز پڑھ رہی ہے۔ پوچھا یہ کیا؟ تو جواب ملا کہ فلاں قیدی الٹا قبلہ رخ ہونے پر برسوں بعد رہا ہو گیا۔ ہم بھی اس طرح نماز پڑھ رہے ہیں تا کہ ہم بھی رہا ہو جائیں۔
لاتعداد قصے و شگوفے ثابت کرتے ہیں کہ ان قیدیوں میں انسانیت زندہ ہے کیونکہ ان میں سادگی اور حس مزاح موجود ہے انھیں صرف توجہ کی ضرورت ہے۔