انسانی لاشوں کی بے حرمتی

اس واقعے کی معلومات لینے کے دوران جتنی بار لاوارث کا لفظ سنا مجھے اس لفظ سے نفرت ہوگئی


[email protected]

روئے زمین ہی نہیں، زیر زمین سے لے کر آسمانوں کی بلندیوں تک، اللہ رب العزت نے اپنی قدرت سے کروڑوں مخلوقات پیدا کی ہیں، ان مخلوقات کا شمار کسی کے بس کی بات نہیں تاہم اللہ نے انسان کو تمام مخلوقات پر فوقیت دی، سب سے اعلیٰ و ارفع بنایا۔

سورۃ التین میں جب اللہ رب العزت انسان کی تخلیق کا ذکر فرمانے لگے تو پہلے قسمیں کھائیں، تین کی قسم، زیتون کی قسم، طورِ سنین کی قسم اور اس شہرِ امین (مکہ) کی قسم، ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔

انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کر نے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو وہ اعلیٰ درجے کا خوبصورت اور متوازن جسم عطا کیا گیا، جو کسی دوسری جاندار مخلوق کو نہیں دیا گیا اور اسے فکر و فہم اور علم و عقل کی وہ بلند پایہ قابلیت بخشی گئیں، جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں بخشی گئیں۔ خداداد صلاحیتوں اور اہلیتوں کی بنیاد پر انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا۔

اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا فرما کر اسکی تعظیم و تکریم کے کچھ ضابطے بھی مقرر فرما دیے، رحم مادر سے قبر کی گود میں جانے تک حتیٰ کہ تدفین کے بعد انسانی قبر کی تکریم و احترام کے قواعد و ضوابط مقرر فرمائے۔

رب العالمین ہمیں تکریم انسانیت کا حکم دیتا ہے اور رحمت العالمینﷺ نے عملی نمونہ پیش کر کے اسکے حقوق بتا دیے۔ اسلام ہمیں مرنے کے بعد میت کو باوقار اور شریعت مطہرہ کے مطابق سفر آخرت پر روانہ کرنے کا درس دیتا ہے۔

اللہ رب العزت نے تو انسان کو تمام حقوق دیے لیکن معاشرہ یہ حقوق چھیننے کے ساتھ انکے منہ کا نوالا چھینے اور جسم سے گوشت نوچنے سے بھی باز نہیں آتا۔ افسوس کہ کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان میں انسان کو جیتے جی کیا حقوق ملیں گے یہاں تو مرنے کے بعد بھی انسانوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں ملتان کے نشتر اسپتال میں لاوارث لاشوں کو چھت پر پھینکنے اور بے حرمتی کرنے کا افسوس ناک واقعہ رونما ہوا ہے۔ کسی دوست نے مجھے ویڈیو بھیجی جس میں اسپتال کی چھت پر کئی لاشیں انتہائی خراب حالت میں دکھائی دے رہی تھیں۔

جب اس انتہائی افسوسناک واقعہ کا پس منظر اور پیش منظر جاننے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر چوہدری زمان گجر نشتر اسپتال کے دورے کے دوران اسپتال کی چھت پر پہنچ گئے، جب وہ چھت پر پہنچے تو کئی انسانی لاشیں چھت پر بکھری پڑی تھیں۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد یقینناً ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک گیا ہوگا، میں تو اللہ رب العزت کو گواہ کر کے کہتا کہ انسانی لاشوں کی یہ تذلیل نہ کبھی دیکھی نہ سوچی۔

رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد پورے ملک میں کھلبلی مچ گئی، اسپتال انتظامیہ اس دل دہلانے والے واقعہ کا ذمے دار پولیس کو قرار دینے لگی اور پولیس اسپتال انتظامیہ پر ڈالتی دکھائی دے رہی ہے۔

مقامی اور صوبائی سطح پر کئی تحقیقاتی کمیٹیاں بن چکی ہیں، ریاستی ادارے تحقیقات میں مصروف ہیں۔ پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے کہ یہ کیسا اسلامی ملک ہے جہاں زندہ لوگ بھی ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں اور مرنے کے بعد بھی انھیں ان کے حقوق نہیں مل رہے۔

اسلام تکریم انسانیت کی تعلیم دیتا ہے مرنے کے بعد اگرچہ اس کا رابطہ اس عالم ارضی سے کٹ جاتا ہے مگر اس کے حقوق ہرگز ختم نہیں ہوتے بلکہ اس کی تکریم، تعظیم اور میت کے وقار کا لحاظ معاشرہ کے دوسرے افراد پر لازم ہوتا ہے لیکن یہاں یہ سارے حقوق سلب کرلیے گئے ہیں۔

اس ملک میں لاکھوں لوگ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آکر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، ان میں سے کئی موت کو گلے لگا لیتے ہیں، اور یہی غریب اور نادار لوگ حکمرانوں اور اداروں کی نظروں میں، شاید لاوارث کہلاتے ہیں۔ میری نظر سے ایک تصویر گزری جس میں دوبچے نظر آرہے ہیں۔

ان کے بدن پر کپڑے اتنے بوسیدہ ہوچکے ہیں کہ ان کی ٹاکیاں لٹک رہی ہیں، ان کے پاؤں میں جوتے تک نہیں، انکی بھوک ان کے چہروں سے عیاں تھی ایک ویڈیو نظر سے گزری اور دماغ میں اٹک گئی، دو ننھے منے خوبصورت بچے کسی نجی اسکول کا یونیفارم پہنے ہوئے، اپنے اسکول بیگز کے ساتھ کسی راہگزر میں ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔

ویڈیو بنانے والے نے پوچھا اسکول نہیں گئے، کہنے لگے نہیں، میرے پاپا ایک سرکاری ادارے میں ملازم ہیں ان کے پاس فیس جمع کرانے کے پیسے نہیں تھے اسکول انتظامیہ نے فیس کی عدم ادائیگی پر نکال دیا ہم کئی روز سے صبح اسکول کے لیے نکلتے ہیں اور یونہی باہر وقت گزار کر چھٹی کے وقت گھر واپس چلے جاتے ہیں۔ ویڈیو بنانے والے نے استفسار کیا کہ آپ لوگوں نے پاپا کو نہیں بتایا ؟ بچے کہنے لگے پاپا کو اس لیے نہیں بتایا کہ وہ پریشان ہوں گے۔

آپ اندازہ کیجیے کہ ملکی حالات کا، موجودہ حکمران اقتدار کے جھولے جھول رہے ہیں، مستقل حکمرانی کا خواب دیکھنے والا عمران خان عوام کو سڑکوں پر لا کر ایوان اقتدار پہنچنے کے لیے جلسے کرنے میں مگن ہے۔ لاوارث عوام کو جیتے جی حقوق مل رہے ہیں نہ مرنے کے بعد۔

نجانے کتنے ٹیچنگ اسپتالوں میں انسانی لاشوں کی اس طرح بے حرمتی ہو رہی ہوگی۔ لاوارث لاش تو غریب کی ہی ہوتی ہے حکمران اور مالدار تو نہ زندگی میں لاوارث ہوتے ہیں نہ مرنے کے بعد۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق لاوارث لاشوں کو چھت پر پھینک دیا جاتا ہے تاکہ چیل کوے انھیں نوچ نوچ کر کھا لیں، پھر ان کی ہڈیوں کو اناٹومی کی تعلیم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر اسکی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔

انسانی ہڈیاں حاصل کرنے کے لیے اس قدر غیر انسانی طریقہ دنیا کے کسی اور ملک میں اختیار نہیں کیا جاتا ہوگا۔ آج دنیا اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ مصنوعی اعضا انسانوں کو بذریعہ آپریشن لگائے جاتے ہیں، مکمل انسانی ڈھانچہ ایک ایک جوڑ کے ساتھ بالکل اصلی شکل میں مل جاتا ہے جس پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔

آج سائنس نے اتنی ترقی کی ہے کہ بہترین مکمل مصنوعی انسانی جسم کے ماڈل اور ایک ایک ہڈی اور جوڑ دستیاب ہے تو پھر ہڈیوں کے حصول کے لیے انسانی لاشوں کی شرمناک چیر پھاڑ اور چیل کوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑنا کہاں کی انسانیت ہے۔

مصنوعی اعضا کی موجودگی اور دستیابی کے باوجود انسانی جسموں کے ساتھ غیر انسانی، غیر اخلاقی، غیر اسلامی اور غیر قانونی برتاؤ کیوں ہورہاہے۔ یہ سلوک لاوارث لاشوں یعنی غریبوں اور مفلسوں کے ساتھ ہورہا ہے۔

اسپتال انتظامیہ کا موقف ہے کہ''پورے جنوبی پنجاب سے لاوارث لاشیں نشتر اسپتال لائی جاتی ہیں، جنھیں رکھنے کے لیے ان کے پاس گنجائش نہیں، قانونی طور پر ہم کسی لاش کو رکھنے سے منع بھی نہیں کرسکتے۔

لاوارث لاشیں جب ہمارے پاس لائی جاتی ہیں تب تک ان کی ڈی کمپوزنگ کا عمل شروع ہوجاتا ہے، جس سے لاش میں ایک خاص قسم کا کیڑا پیدا ہوچکا ہوتا ہے جو دوسری لاشوں کو بھی متاثر کرتا ہے اس لیے ہم لاوارث لاشوں کو سرد خانے میں نہیں رکھتے چھت پر موجود کمروں میں رکھتے ہیں۔

پولیس کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ لاوارث لاش کو لے جائے اور قانونی کارروائی کے ذریعے اس کی تدفین کرائے لیکن پولیس اپنی یہ ذمے داری پوری نہیں کرتی۔ پولیس کا موقف ہے کہ''اسپتال کی چھت پر جو لاشیں موجود تھیں ان کو اناٹومی کی ریسرچ کے لیے استعمال میں لانے کی اجازت اسپتال انتظامیہ نے باقاعدہ محکمہ صحت سے ایک لیٹر کے ذریعے لی تھی، ان لاشوں پر تجربات مکمل ہونے کے بعد ان کی تدفین پولیس کی نہیں اسپتال انتظامیہ کی ذمے داری ہے۔''

شرعی احکامات بھی واضح ہیں، قانون میں بھی کوئی سقم موجود نہیں، اس کے باوجود مرنے والوں کی اتنی بے حرمتی ناقابل برداشت ہے۔ حکومت اس واقعہ پر جے آئی ٹی بنائے، جو واقعہ کے ذمے داروں کا تعین کرے اور انھیں کیفر کردار تک پہنچائے۔

حکومت پاکستان اناٹومی کے تجربات کے لیے پورے ملک میں انسانی ہڈیوں کے استعمال پر فوری طور پر پابندی لگائے اور تمام میڈیکل کالجز کے لیے مصنوعی انسانی ڈھانچوں اور ہڈیوں کا بندوبست کرے تاکہ اللہ نے جس انسان کو بنا کر اس کے لیے قسمیں کھائیں، اس انسان کی اتنی بے توقیری نہ ہو، چاہے وہ لاوارث ہی کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ جسکا کوئی نہیں ہوتا اسکا خدا ہوتا ہے۔

آخر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس واقعے کی معلومات لینے کے دوران جتنی بار لاوارث کا لفظ سنا مجھے اس لفظ سے نفرت ہوگئی، بھائی مہذب معاشروں میں لاوارث کوئی نہیں، جسکا وارث نہیں ہوتا اسکی وارث ریاست ہوتی ہے، ریاست ماں ہوتی ہے وہ اپنی مدعیت میں تمام ذمے داران کے خلاف ایف آئی آر کا اندارج کرے، مگر ریا ست تو بھنگ پی کر سو رہی ہے، حکمرانوں! یہ یاد رکھیں کہ جسکا کوئی نہیں ہوتا اسکا خدا وارث ہوتا ہے اور جب خدا اس کا جواب مانگے گا تو سارے سفید پوشوں کو لگ پتہ جائیگا کہ لاوارث ہوتا کیسا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں