وڈیرے کا بیٹا اور انصاف میں تاخیر

اعلیٰ طبقے کے چشم و چراغ کو رہا کرنے میں ہماری عدالتیں اتنی ’’تاخیر‘‘ کس طرح کرسکتی ہیں؟


Shayan Tamseel October 20, 2022
سپریم کورٹ نے شاہ رخ جتوئی کو قتل کے مقدمے سے دس سال بعد بری کردیا۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں انصاف واقعی تاخیر کا شکار ہے۔ ایک ''معصوم'' سے لڑکے کو قتل کے جرم سے بری کرنے میں پورے دس سال لگادیے۔ مزید تاخیر ہوتی تو اس کی جوانی جیل میں ہی ختم ہوجانی تھی۔ اور پھر لڑکا بھی کوئی ''للو پنجو'' نہیں بلکہ وہ جسے عرف عام میں ''وڈیرے کا بیٹا'' بولتے ہیں۔ بھلا ایسے اعلیٰ طبقے کے چشم و چراغ کو رہا کرنے میں ہماری عدالتیں اتنی ''تاخیر'' کس طرح کرسکتی ہیں؟

ہمارے ملک میں ایسا تو نہ ہوتا تھا۔ یہاں تو اعلیٰ طبقے کے لوگ، یہ امرا، وڈیرے اور سردار اور ان کی اولاد، اول تو جرم کرنے کے بعد بھی مجرم قرار ہی نہیں دیے جاتے، اور شومئی قسمت اگر کبھی کسی مقدمے میں نامزد ہو بھی جائیں تو صرف ''ملزم'' ہی کہلاتے ہیں۔ مجرم تو کبھی قرار پائے ہی نہیں تو پھر سزاوار کیسے ہوتے۔ گرفتاری بھی چند گھڑی، چند ایام تک محدود رہتی ہے اور پھر وہی آزاد فضائیں اور وہی رام لیلا۔ لیکن یہ پہلی بار سننے میں آیا ہے کہ وڈیرے کے بیٹے شاہ رخ جتوئی کو قتل کے مقدمے سے دس سال بعد بالآخر بری کردیا گیا۔

آخر جرم اتنا سنگین بھی نہیں تھا شاہ رخ کا، ایک لڑکے کی جان ہی تو لی تھی۔ اور واقعہ بھی کتنا معمولی سا تھا۔ شاہ رخ کے دوست مرتضیٰ لاشاری نے شاہ زیب کی بہن سے ذرا سی چھیڑ چھاڑ ہی تو کی تھی، اس پر اتنا سیخ پا ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ وڈیروں کے بچوں کےلیے لڑکیوں کی عزت لوٹنا تو ایک کھیل ہوتا ہے، یہ تو ہلکی سی چھیڑ چھاڑ تھی۔ پھر نتیجہ کیا ہوا اس تکرار کا۔ آخر کو شاہ زیب اپنی جان سے گیا ناں؟ اور صرف اٹھارہ سال کی عمر میں شاہ رخ جتوئی کو قاتل بنادیا گیا۔

اس ملک میں روزانہ کتنے ہی لوگ مارے جاتے ہیں، 24 دسمبر 2012 کی رات ہونے والے اس قتل کو بھی لوگ چند دن بعد بھلا ہی دیتے، لیکن برا ہو اس سوشل میڈیا کا، ہر طرف ''جسٹس فار شاہ زیب خان'' کا شور بپا کردیا گیا اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ازخود نوٹس لینا پڑگیا۔ اسی وجہ سے تو شاہ رخ جتوئی کو گرفتار کرنا پڑا جو قتل کے بعد سکون سے دبئی میں گھوم رہا تھا۔ ہمیں تو لگتا تھا کہ گرفتاری کے کچھ عرصے بعد یعنی 2013 میں ہی شاہ رخ کو بری کردیا جاتا۔ اسی وجہ سے تو اُس وقت بھی ریمنڈ ڈیوس کیس سے تقابل کرتے ہوئے شاہ رخ جتوئی کیس کا حوالہ دیا تھا۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: خون کا سودا؟

لیکن پھر نجانے کیا ہوا، شاید ''بات بنی نہیں'' اور 2013 میں ہی جون کے مہینے میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے شاہ رخ جتوئی کو سزائے موت کا حکم جاری کردیا۔ شریک جرم ایک ساتھی کو بھی سزائے موت اور دو ساتھیوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ لیکن پاکستان کے قوانین میں جو جھول موجود ہیں ان سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا جاتا۔ کوئی راہ تو پیدا کرنی ہی تھی، مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی تھیں، اور جو پاکستان میں ایسے ہائی پروفائل مقدمات کی ریت رہی ہے کہ بااثر افراد کے ہاتھوں ہوئے قتل کے مدعی کو ''اسلامی قانون'' دیت کے تحت سزا معاف کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے، دہشت گردی کی یہ دفعہ اس دیت کے باعث بریت میں رکاوٹ ڈالتی، اس لیے سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کو ختم کرکے ماتحت عدالت کو مقدمے کی دوبارہ سماعت کی ہدایت کی تھی۔

عام لوگوں کا خدشہ ویسے درست ہی تھا کہ شاہ رخ کو دیت کے قانون سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رہا کردیا جائے گا۔ ایک تو یہ عام لوگ بھی ناں، سمجھتے ہی نہیں کہ دیت کا یہ ''اسلامی قانون'' امرا کو سہولت دینے کےلیے ہی تو متعارف کروایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کسی غریب کی کیا اوقات کہ اپنے جرم پر سزا سے خلاصی کےلیے مدعی کو رقم دے سکے۔ یہ اضافی دولت صرف امیروں کے پاس ہی ہوتی ہے جسے پہلے عیاشی اور پھر جرم کرنے کے بعد ''دیت'' کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ افواہیں تو سنی تھیں کہ شاہ زیب کے والد کو 25 کروڑ دیت کی آفر کی گئی تھی۔ اب کتنی رقم دی گئی اس کا تو علم نہیں لیکن انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں جب اس مقدمے کی سماعت ہوئی تو شاہ زیب کے والدین نے عدالت میں ''ملزمان'' کو معاف کرنے کا حلف نامہ پیش کیا تھا۔ اس وقت چونکہ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل تھیں اس لیے معافی تو نہیں مل سکی تھی لیکن بعد ازاں جب یہ دفعات ختم کردی گئیں تو جرم بھی قابل معافی بن گیا۔ مذاق بنانے یا اڑانے کی قطعی اجازت نہیں، کچھ ایسا ہی ہے ہمارا قانون۔ اور اسلامی قوانین پر بالکل بھی انگلی نہ اٹھائیے گا، آپ کا ایمان جو خطرے میں پڑ جائے گا۔ بہرحال 2017 میں قصاص اور دیت کے قانون کے تحت صلح نامے کے بعد شاہ زیب کے والدین نے شاہ رخ جتوئی کو معاف کردیا جس کے بعد شاہ رخ کو رہا بھی کردیا گیا تھا۔

اب جبکہ رہائی ہوہی گئی تھی تو معاملہ بھی ختم ہوجانا چاہیے تھا۔ لیکن فروری 2018 میں سپریم کورٹ کے اس مقدمے سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے بعد چاروں مجرموں کو دوبارہ گرفتار کرنے کے حکم پر پھر سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔

عوام کو پھر بھی چین نہیں ملا، نجانے کیوں شاہ رخ کے پیچھے پڑے تھے۔ کبھی اسپتال میں شاہ رخ کو ''عیاشی'' کرتے ہوئے دکھانے کےلیے ویڈیو جاری کردیتے تو کبھی افواہیں اڑاتے کہ یہ شہزادہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی گھر کے آرام کے مزے لوٹ رہا ہے۔ بھئی کچھ بھی کررہا تھا، آخر کو وہ ایک وڈیرے کا بیٹا ہے۔ دولت ہے، طاقت ہے، اوپر تک پہنچ ہے، عیاشی کرنا بھی اس کا حق ہے۔ تم جیسے غریب عوام کو تو اعتراض کا بھی حق نہیں ہے۔ اپنی محرومیوں کا بدلہ کیوں اس معصوم سے لینے پر تلے ہوئے ہو۔ اور اب جبکہ سپریم کورٹ نے بھی شاہ رخ اور اس کے ساتھیوں کو مقدمے سے بری کردیا ہے تو پھر یہ واویلا کیوں ہے؟ اب یہی دیکھ لو وفاقی حکومت نے اپنی سیاست چمکانے کےلیے شاہ رخ جتوئی کی بریت کے فیصلے پر نظرثانی پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے؟

آخر کیا ہوگا اس نظرثانی پٹیشن سے؟ جو آپ کے قوانین میں اسقام ہیں انھیں تو دور کیا نہیں۔ عدالتیں تو وہی فیصلہ دیتی ہیں ناں جو قوانین کی رو سے جائز ہوں۔ کیا اس نظرثانی پٹیشن سے دیت کا وہ قانون ختم ہوجائے گا جو صرف امرا کو سہولت فراہم کرتا ہے۔ جب والدین نے ہی مجرم کو معاف کردیا تو پھر کس بات کی سزا۔ اگر اتنا ہی درد تھا تو پھر مدعی مقدمہ حکومت کو ہونا چاہیے تھا ناں۔ تاکہ دیت اور معافی کا معاملہ ہی پیش نہ آتا۔ اور پھر یہ جو مقدمے کو کمزور بنانے کےلیے ابتدائی مراحل سے ہی ''سازشیں'' شروع کردی جاتی ہیں، مقدمے میں کمزور نکات شامل کیے جاتے ہیں، ایسی دفعات جو مجرم کو قرار واقعی سزا دلا سکیں، انھیں خود عدالتوں کے ذریعے ختم کرادیا جاتا ہے، کیا آپ کی اس نظرثانی پٹیشن سے وہ سب خامیاں بھی دور ہوجائیں گی؟ نہیں جناب! ان ڈراموں کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے اپنے قانون کو مضبوط اور اداروں کو کرپشن سے پاک کیجئے، انصاف اور قانون کو غریب اور امیر، سب کےلیے یکساں بنائیے، تب ہی بہتر نتائج کی امید کی جاسکتی ہے۔

اور یہ عوام بھی اپنی اوقات یاد رکھیں۔ آپ کی اتنی حیثیت نہیں کہ اونچے طبقے سے اپنا مقابلہ کرسکیں۔ یہ ملک ہمیشہ سے بالائی طبقے کے مفادات کو ڈھال فراہم کرتا آیا ہے۔ اس لیے یہ مت دیکھیے کہ امیر طبقہ کیا کررہا ہے، یہ جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں کی اولاد کس ڈگر پر چل رہی ہے اور کیا جرائم کررہی ہے، بلکہ احتیاط کیجئے کہ کوئی چھوٹا موٹا جرم سرزد ہونا تو درکنار، جرم ہوتا ہوا بھی نہ دیکھیں، ورنہ اس ملک کا قانون آپ کی گردن ہی دبوچ لے گا۔ ہاں آپ اس ملک کے کرتا دھرتاؤں سے گڑگڑا کر گزارش ضرور کرسکتے ہیں کہ عوام پر بھی رحم کیا جائے۔ انھیں بھی معافی دی جائے۔ سہولت دی جائے۔ اگر کوئی غریب قتل کے مقدمے میں قید ہے تو حکومت ''دیت'' ادا کرکے اسے آزاد کرائے، بے گناہ برسوں قید رہنے والوں کی دادرسی کرے۔ اور جب تک ایسا نہیں ہورہا، عوام اپنی حیثیت یاد رکھیں اور ''وڈیرے کے بیٹے'' کی برابری کا نہ سوچیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں