معیشت کے لیے نیک شگون


Editorial October 21, 2022

چین ،پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) منصوبوں کی مقررہ مدت میں تکمیل قومی ترجیح ہے ، سی پیک کے تحت پاکستان میں صنعتی ترقی کے نئے دورکاآغاز ہونے جارہا ہے۔

ایم ایل ون منصوبہ پاکستان کی بندرگاہوں کو چین اور وسط ایشیائی ریاستوں سے جوڑ کر ملکی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا، حکومت گزشتہ چارسال سے سی پیک کے تعطل کا شکار منصوبوں میں نئی روح پھونک کر انھیں ترجیحی بنیادوں پر برق رفتاری سے مکمل کررہی ہے۔

ان خیالا ت کااظہار وزیراعظم شہبازشریف نے اپنی زیرصدارت منعقدہ اجلاس میں کیا۔اجلاس میں سی پیک اور دیگر چینی منصوبوں پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا ۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ موجودہ حکومت نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے دوسرے مرحلے کو اولین ترجیحات میں رکھا ہے اور اس کی بحالی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، حالانکہ بھار ت ہمارا پڑوسی ملک پاکستان اور چین کی دیرینہ دوستی سے ناراض ہے جس کا مرکز اب سی پیک ہے اور اب وہ اس دوستی کو کمزور اور سبوتاژ کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

وہ اس مقصد کے لیے معلوماتی جنگ کے ساتھ ساتھ اپنی مقامی پراکسیز کے ذریعے باقاعدہ روایتی جنگ بھی کر رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ بھارت ایسا کیوں کررہا ہے؟ جواب سادہ اور آسان ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری اربوں ڈالر کا ایک میگا منصوبہ ہے۔

جس سے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات نئی بلندی تک پہنچ جائیں گے بلکہ اس کلیدی منصوبے کی تکمیل سے پاکستانی معیشت کی تقدیر بدل جائے گی، لیکن مقام افسوس ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے سی پیک منصوبوں کو پونے چاربرس تک سرد خانے میں رکھا ، جس سے پاکستان میں ترقی کا عمل رک گیا۔وزیراعظم شہباز شریف کی ذاتی دلچسپی، لگن اور محنت سے سی پیک کا منصوبہ دوبارہ فعال ہونا ملکی معیشت کے لیے نیک شگون ہے ۔

ایک طرف تو معیشت کی بحالی کے لیے وزیراعظم شہبازشریف انتھک کوششیں اور ان کی ٹیم کاوشیں لائق تحسین ہے تو دوسری جانب ایک مخصوص گروہ پراپیگنڈا کررہا تھا کہ ہم ڈیفالٹ کر چکے ہیں لیکن اعلان نہیں کیا جا رہا ہے۔

ملک معاشی طور پر تباہ ہو چکا ہے ، پھرامریکا دشمنی کی آگ کو ملک میں ہوا دی جارہی تھی ،ان کا ٹارگٹ شہباز شریف اور اتحادیوں کی حکومت کو ناکام ثابت کرنا تھا۔ ادھر حکومت کے لیے مشکل یہ تھی اس نے آئی ایم ایف سے رکی ہوئی قسط کی وصولی کے لیے ان تمام شرائط پر عمل درآمد یقینی بنانا تھا جن پر سابق حکومت نے دستخط کیے ہوئے تھے۔

اصولی طور پرپاکستان کو یہ قسط نومبر 2021 میں مل جانی چاہیے تھی لیکن تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کی پالیسی کے باعث طے شدہ فریم ورک کے مطابق معاملات آگے نہ بڑھ سکے ۔

بہرحال موجودہ حکومت کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل آئی ایم پروگرام کو بحال کروانے میں کامیاب ہوئے اور اب وزیرخزانہ اسحاق ڈار ملکی معیشت کی بحالی کے لیے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں، ان کی کوششوں سے روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے اور وہ بار بار اپنی اس خواہش کو دہرا رہے ہیں کہ ڈالر کی قیمت دو سو روپے سے کم ہونی چاہیے ۔

کہا جاتا ہے کہ ترقی سڑک پر چل کر آتی ہے اور سڑک پاکستان اور چین جیسے دو برادر پڑوسی ممالک کے درمیان ہوتو ترقی کی رفتار اور معیار کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

چین، پاکستان اقتصادی راہداری سے ملک کے تمام صوبے بھی مساوی مستفید ہوں گے جب کہ بلوچستان، خیبرپختونخوا اورقبائلی اضلاع کو خصوصی فائدہ ہوگا۔پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت اہم منصوبوں میں گوادر پورٹ کی اپ گریڈیشن، گوادر پورٹ ایکسپریس وے کی تعمیر،گوادر انٹرنیشنل ائیر پورٹ اور کراچی سکھر موٹروے کی تعمیر شامل ہے، جس کی تکمیل سے ملک کی اقتصادی اور معاشی ترقی اور خوشحالی کے اہداف کے حصول میں مدد حاصل ہو گی اور پاکستان بین الاقوامی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن کر ابھرے گا۔

پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے فیز ٹو میں سیاحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور زراعت کو سی پیک میں شامل کیا گیا ہے، حکومت سستی بجلی بنانے کی طرف جا رہی ہے، بڑے ڈیمز نہ صرف زراعت کے لیے فائدہ مند ہوں گے بلکہ ہائیڈرل پاور جنریشن کے فروغ میں بھی معاون ثابت ہوں گے دوسری جانب چین کی بڑی کمپنیاں کارپوریٹ فارمنگ میں دلچسپی لے رہی ہیں ۔

زراعت کا شعبہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ زراعت قومی معیشت پر اثرانداز ہونے والاسب سے بڑا شعبہ ہے۔ زراعت میں پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے تکنیکی ترقی بہت ضروری ہے۔ چین نے سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت زراعت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی منتقلی پر اتفاقِ رائے کیا ہے۔

سی پیک کے تحت دوطرفہ زرعی تعاون سے کپاس کی پیداوار سے متعلق امور کو حل کیا جائے گا اور پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ملک میں توانائی کی ضروریات کوپورا کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات شروع کیے گئے ہیں تاکہ ملک کے ہر شہری کو سستی اور گرین انرجی مہیا کی جاسکے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت 7.603 ارب ڈالر کی لاگت سے پاکستان میں ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے ذریعے 3415 میگاواٹ گرین انرجی پر تیزی سے کام جاری ہے۔

سی پیک منصوبہ کے تحت کروٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سے 720 میگا واٹ بجلی حاصل کی جائے گی، جو 1.42 ارب ڈالر سے تعمیر کیا جارہاہے،جس کے کام کی پیش رفت جاری ہے، تکمیل ہونے پر 5 ملین کی آبادی کو کلین اینڈ گرین انرجی کی فراہمی یقینی ہوجائے گی، اس منصوبے سے تقریباً 4500 لوگوں کو روزگار کے مواقعے ملے ہیں۔پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت گوادر شہر کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔گوادر ائیر پورٹ کی تعمیر سے شہر ترقی کے نئے دور داخل ہوگا۔

وزیراعظم شہبازشریف نے ریلوے ایم ون منصوبے کی افادیت پر ضروردیا ہے ، اسی تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو سی پیک کے تحت 5.4ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والا مین لائن۔ ریلوے ایم ایل ون سے 90فی صد سے زائد پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ مین لائن ون ٹریک سے ریلوے حادثات پر قابو پانے اور ہزاروں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ کراسنگ فری ٹریک ہوگا جس سے کراچی سے لاہور تک کے سفری دورانیے میں سات گھنٹے کی کمی آئے گی جب کہ راولپنڈی سے لاہور کا سفر صرف دو گھنٹے میں طے ہوگا۔ پشاور سے کراچی تک منصوبے میں 1872 کلو میٹر طویل ریلوے ٹریک کی اپ گریڈیشن شامل ہے اور پشاور سے کراچی تک ریلوے ٹریک دو رویہ کرنا بھی منصوبے کا حصہ ہے۔

ایم ایل ون سے ریل گاڑیاں160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلیں گی جنھیں مزید بڑھا کر200 کلومیٹر فی گھنٹہ کیا جاسکتاہے۔ایم ایل ون ایک انقلابی منصوبہ ہے جس سے پاکستان ریلوے کا پورا ڈھانچہ بہتر ہوگا، اربوں ڈالر مالیت کا یہ منصوبہ چین کی مدد سے پانچ سے آٹھ سال کی مدت میں مکمل ہوگا۔

بلاشبہ سی پیک منصوبوں کی بحالی اپنی جگہ ہے لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان اس وقت جن حالات سے دو چار ہے، اگر تجارت کے درآمدی اور برآمدی فرق پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے مہینوں میں صورتحال موجودہ حالات سے زیادہ گمبھیر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت معیشت کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے جو کوششیں کررہی ہے، بہتر ہوگا کہ برآمدی شعبے کی صورتحال کا بنظر غائر جائزہ لیتے ہوئے وہ تمام نقائص دورکرے جو برآمدی اہداف پورا کرنے میں رکاوٹ ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ بہتر قومی معیشت کے عام آدمی کی معیشت پر اچھے اثرات کب مرتب ہونا شروع ہوں گے ، حکومت کو عوامی مشکلات کا حقیقی ادراک کرنا چاہیے، اگر مہنگائی کے معاملات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو پھر اکتوبر 2023 بہت دور نہیں ہے جب عوام ووٹ کے ذریعے اپنا فیصلہ سنا دیں گے اور وہی فیصلہ درست اور مبنی بر حقائق ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں