درآمدات زرمبادلہ اور مہنگائی

ان 3 ماہ میں اگر 5 ارب ڈالر خرچ ہوگئے تو پورا سال کیا بنے گا



اوپیک ممالک نے تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ کیا ہے جس کے باعث چند ہفتوں قبل تیل کی عالمی قیمت کم ہو کر 80 ڈالر فی بیرل تک پہنچنے کے بعد اضافے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جن دنوں تیل کی عالمی قیمت کم تھی بھارت نے اور چین نے روس سے قبل خریداری کے معاہدے کرلیے تھے، لیکن اب تیل کی عالمی قیمت بڑھ چکی ہے اور دیر سے پاکستان اس جانب راغب ہوا کہ روس سے تیل خریدا جائے گا۔

گندم کے بارے میں ابھی واضح اعلان سامنے نہیں آیا حالانکہ روس کی جانب سے گندم کی فراہمی کا عندیہ بھی دیا جاچکا ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کا گراف بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کے اہم کرداروں میں سے دو اہم عناصر پٹرول اور گندم ہیں جب کہ برآمدات میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حصہ 55 فی صد سے زائد ہونے کے باعث خام کپاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ لہٰذا یکے بعد دیگر ان تینوں کی درآمدات کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ پاکستانی معیشت پر ان کے اثرات کا احاطہ کیا جاسکے۔

جہاں تک کپاس کی بات ہے تو اس کا اہم ترین پیداواری علاقے کی بیشتر زمینوں پر حالیہ سیلاب کا پانی اب تک کھڑا ہے، جس سے کپاس کی پیداوار میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔

اسی طرح 20 نومبر تک گندم کی پیداوار کے حصول کے لیے بوائی کا عمل مکمل ہو جاتا ہے، سیلابی علاقوں میں بدستور پانی کھڑا ہے۔

واقفین حال کا کہنا ہے کہ پانی کی نکاسی کی مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث پانی کی نکاسی میں تاخیر ہوتی چلی جا رہی ہے لہٰذا اس سال ملک کو کپاس کی پیداوار میں بھی زبردست کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کپاس پاکستان کی وہ برآمدی پیداوار ہے جسے روپہلی ریشہ بھی کہا جاتا تھا اور یہ سندھ اور پنجاب کی اہم ترین نقد آور فصل ہے۔

انگریزوں نے اس خطے میں اپنی آمد کے فوراً بعد کراچی کی بندرگاہ کو زبردست ترقی دی اور ریلوے نظام قائم کرکے یہاں سے کپاس وغیرہ انگلستان (انگلینڈ) برآمد کیا کرتے تھے۔

یعنی برطانیہ کے ٹیکسٹائل کے صنعتکار اسے درآمد کیا کرتے تھے اور اس سال پاکستان کو بڑی مقدار میں خام کپاس کی درآمد کی ضرورت ہوگی۔ پی بی ایس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جولائی 22 تا ستمبر 22 کے سہ ماہی کے دوران ایک لاکھ 43 ہزار میٹرک ٹن خام کپاس کی درآمد پر 84 ارب 95 کروڑ روپے صرف کرچکے ہیں۔

اس طرح 38 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کیا جاچکا ہے۔ آیندہ برس بھی صورت حال انتہائی مخدوش نظر آ رہی ہے، کیونکہ سیلاب متاثرین کی بحالی کی منصوبہ بندی اور ان کے لیے عالمی امداد اور جو بھی امداد آ رہی ہے اس کی تقسیم میں عدم شفافیت، موسم سرما کی آمد کے ساتھ مسائل ہی مسائل پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں، لہٰذا دیگر بہت سی وجوہات کے باعث معاملات انتہائی پیچیدہ ہو کر رہ گئے ہیں۔

عالمی مارکیٹ میں اجناس خوراک کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں خوراک کے بحران کے بھی خدشات بڑھ چکے ہیں۔ ایسے میں گندم کی قیمت بڑھتی جائے گی۔ عالمی منڈی میں نرخ بڑھنے کے باعث روس بھی اپنی گندم کی قیمت بڑھا دے گا۔

روس گندم کی پیداوار کا اہم ترین ملک ہے۔ پاکستان اب گندم کے درآمدی ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہے دنیا کے زیادہ تر ملکوں میں فی ایکڑ اوسط پیداوار کم ازکم 70 من ہے، جب کہ پاکستان نے کسی بھی نئی ٹیکنالوجی و دیگر کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ لہٰذا ملک میں فی ایکڑ اوسط پیداوار 40 من ہے۔

زیادہ تر چھوٹے کسانوں کا یہ نظریہ ہوتا ہے کہ گھر کی ضرورت کے مطابق دانے (گندم) پیدا کرلی جائے، کافی ہے۔ یعنی اپنی زمینوں پر دیگر فصلیں کاشت کرلیتے ہیں یا کئی اخراجات میں اضافے کے باعث مناسب کھاد، اسپرے، مناسب بیج، کم قیمت ادویات جن میں سے اکثر جعلی ادویات ہوتی ہیں ۔

یہ عوامل اور مسائل گندم کی زیادہ کاشت سے عدم دلچسپی کا باعث بن رہے ہیں۔ فی الحال گندم کی امپورٹ سے متعلق سہ ماہی اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو یہ حقدار بنتی ہے یعنی جولائی 22 تا ستمبر 22 تک پاکستان نے 8 لاکھ 57 ہزار میٹرک ٹن گندم کی درآمد پر 91 ارب 5 کروڑ روپے بالحاظ ڈالر 41 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ صرف کرچکا ہے۔

اگر صوبائی حکومتیں محکمہ موسمیات کی طرف سے آگاہی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے گندم کے ذخیرہ گاہوں کی حفاظت کر لیتی یا فوری طور پر گندم محفوظ جگہوں پر منتقل کردیتی اس کے ساتھ ہی گزشتہ سال نومبر سے ہی گندم کی قیمت جیسے بڑھ رہی تھی۔

اس کے ساتھ ہی گندم مافیاز کی طرف سے اسٹاک ذخیرہ کرنے کی سختی سے ممانعت اور کنٹرول کرلیتی تو شاید پاکستان کے 20 یا 25 کروڑ ڈالر بھی بچ جاتے اور آٹا کہیں 150 کہیں 140 روپے فی کلو بھی نہ ملتا۔ لہٰذا اب حکومت کو روس سے سستی گندم دستیاب ہو رہی ہے تو کم ازکم 20 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریداری کا معاہدہ کرلے۔

اب رہ گئی بات پٹرول کی جس کا مہنگائی میں اہم کردار ہے، جس کی درآمد پر پاکستان ان گزشتہ تین ماہ یعنی جولائی 22 تا ستمبر 22 تک 10 کھرب 9 ارب روپے خرچ کر چکا ہے جس کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ 4 ارب 86 کروڑ60 لاکھ ڈالر کا زرمبادلہ خرچ ہوا ہے۔

یعنی سیدھی بات یہ ہے کہ ان 3 ماہ میں اگر 5 ارب ڈالر خرچ ہوگئے تو پورا سال کیا بنے گا لہٰذا وزیر خزانہ اگر روس سے سستا تیل خرید سکتے ہیں تو یہ اچھی بات ہوگی۔ اس طرح شاید زرمبادلہ کی کچھ بچت ہو جائے۔

پٹرول سستا اور سستی گندم کی خریداری سے مہنگائی کو کچھ کنٹرول کیا جاسکے گا۔ باقی رہی بات سستے خام کپاس کی تو بھارت سے درآمد پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے زرمبادلہ کی کچھ بچت ہو جائے جس سے ٹیکسٹائل برآمدات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔