امریکی صدر کا مخمصہ

درحقیقت امریکا علاقائی اور عالمی سطح پر چین کی بڑھتی ہوئی قوت سے پریشان ہے


MJ Gohar October 23, 2022
[email protected]

اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ پاکستان کو عالمی سطح پر بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر دنیا میں بالعموم اور ایشیا میں بالخصوص ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس کی جغرافیائی اہمیت دنیا بھر میں مسلمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سیاست میں پاکستان کے کردار کو خاصی اہمیت دی جارہی ہے۔

جغرافیائی اور نظریاتی اعتبار سے پاکستان کے اپنے دیگر ہمسایہ ممالک، اسلامی دنیا اور عالمی قوتوں سے تعلقات کی بنیاد کیا ہو اور کیا نہ ہو، یہ موضوع عالمی سیاست کے ماہرین، مفکرین، مدبرین اور سیاستدانوں و تجزیہ نگاروں میں زیر بحث رہتا ہے۔

عام مشاہدے میں یہ صورت سامنے آتی ہے کہ عوام کی رائے خارجہ پالیسی کی رہنمائی نہیں کرتی بلکہ اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔ اسی باعث اکثر سفارت کاروں کو خارجہ پالیسی کی تدوین میں رائے عامہ کو نظرانداز کردینے کا موقعہ ملتا رہتا ہے لیکن کبھی کبھی ایسا منظر بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ عوامی رائے اچانک موڑ لیتی ہے اور اپنا ہدف بدل لیتی ہے۔

ایسی کیفیت عموماً جنگ کے دنوں میں پیدا ہوتی ہے یا پھر بڑی طاقتوں کے ''بیلنس آف پاور'' میں اچانک رونما ہونے والی تبدیلی کے نتیجے میں ان کی کوشش سے یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کس ملک کو عالمی معاملات اور علاقائی مسائل میں کس قدر شامل کیا جائے گا یا کس مرحلے پر اس سے گریز کی پالیسی اختیار کی جائے گی۔ جب بھی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو قومی سطح پر خارجی معاملات میں سفارت کاروں کے باہمی مشاورت سے کیے گئے فیصلوں، اقدامات اور سرگرمیوں کے نتائج سامنے آنے لگتے ہیں۔

بعض سخت طور پر آمرانہ معاشروں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ عوام الناس کی آرا کو خارجہ امور کے حوالے سے کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی، مگر جن مہذب و باوقار جمہوری معاشروں میں سیاسی نظام مربوط، مستحکم اور تسلسل کے ساتھ قائم ہو وہاں عوامی آرا کو احترام کی نظر سے نہ صرف یہ کہ دیکھا جاتا ہے بلکہ اس کی روشنی میں خارجہ پالیسی میں ضروری تبدیلیوں کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔ یہ اس قدر اہم عامل ہے کہ بیرونی دنیا سے تعلقات کے تناظر میں اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

خارجہ تعلقات کی بنیاد ہر ملک کے اپنے قومی مفادات پر قائم ہوتی ہے جس میں رنگ، نسل، مذہب اور معاشرت کی تفریق نہیں رکھی جاتی قومی مفادات کا تعین عسکری قیادت اور مقننہ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کے مابین خارجہ تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ چونکہ ابتدائی مرحلے میں امریکا کا پاکستان کے ساتھ کوئی خاص مفاد وابستہ نہیں تھا لہٰذا اول طور پر پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے زیادہ اور کوئی قابل ذکر پیش رفت نہ ہوسکی تھی۔

مثل مشہور ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان ہمیشہ گھاس کا ہوتا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو سرد جنگ اور گیارہ ستمبر 9/11 کے بعد شروع ہونے والی دہشتگردی کے خلاف جنگوں کے پس منظر میں دیکھا جائے تو ہمارا حال وہی ہوا جو ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا ہوا کرتا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے دوران دوغلا پن ہمیشہ سے غالب رہا ہے۔ سیٹو اور سینٹو فوجی معاہدوں میں شمولیت کے باوجود امریکا پاکستان پر کامل اعتماد سے گریزاں ہی رہا ہے۔

9/11 سانحہ کے بعد شروع ہونے والی دہشتگردی کے خلاف جنگ کی سربراہی کرتے ہوئے امریکا نے جب افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کی دھمکیاں دے کر اتحادی فوج میں شامل کرکے فرنٹ لائن پر کھڑا کردیا گیا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جنگ پھر پاکستان کی جنگ بن گئی اور کراچی سے خیبر تک اس کا دائرہ پھیل گیا۔

70ہزار سے زائد انسانی جانوں، جن میں سیکیورٹی فورسز سے سیاستدانوں اور طلبا سے لے کر وکلا اور عام آدمی تک سب شامل ہیں، کا نذرانہ دینے اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کرنے کے باوجود پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں استحکام نہ آ سکا بلکہ بد اعتمادی کی فضا قائم رہی امریکا کی جانب سے بار بار ''ڈو مور'' کی گردان کی جاتی رہی۔ پاکستان پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ وہ دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں توقعات پر پورا نہیں اترا۔

بدقسمتی سے پاکستان اور امریکا کے درمیان بد اعتمادی کا تسلسل آج بھی قائم ہے جس کا تازہ ثبوت امریکی صدر جوبائیڈن کا حالیہ بیان ہے جس میں انھوں نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہے اور اس کا ایٹمی پروگرام غیر محفوظ ہے۔

بائیڈن نے ڈیمو کریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی کی ایک فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور پاک چین تعلقات کی قربتوں کے تناظر میں اپنے اندر کے خوف کو نمایاں کرنے کی موہوم سی کوشش کی ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان پر حکومت پاکستان نے سرکاری سطح پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے جوبائیڈن کے اس بیان کو حقائق کے برعکس، گمراہ کن اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان ایک ذمے دار ایٹمی ریاست ہے۔ بعینہ ہمارا جوہری پروگرام مکمل طور پر فول پروف کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے زیر اہتمام ہے۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی واضح طور پر امریکی صدر کے بیان پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کے حوالے سے عالمی توانائی/ایجنسی (آئی اے ای اے) کے وضع کردہ تمام معیارات اور اصولوں کے عین مطابق مکمل طور پر محفوظ ہے جس سے عالمی امن یا علاقائی امن کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔

بلاول بھٹو نے درست کہا کہ اگر کسی ملک کے جوہری اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کا سوال اٹھتا ہے تو وہ بھارت ہے۔ امریکی صدر کے بیان کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے سرکاری سطح پر امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو دفتر خارجہ طلب کرکے انھیں احتجاجی مراسلہ دیا گیا ہے کہ وہ امریکی صدر کے بیان کی وضاحت کریں۔

درحقیقت امریکا علاقائی اور عالمی سطح پر چین کی بڑھتی ہوئی قوت سے پریشان ہے، روس کا تازہ علاقائی کردار بھی اسے ہضم نہیں ہو رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بھی گرم جوشی نظر نہیں آ رہی ہے۔ جوبائیڈن کا مخمصہ یہ ہے کہ چین امریکا کی واحد سپرپاور کو چیلنج کر رہا ہے اس کے قدم کیسے روکے جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں