اداکارہ دیبا فلمی دنیا کی مونا لیزا
مونا لیزا ایک تصویر تھی کوئی کردار نہیں تھا اور یہ تصویر اٹلی کی ایک مصور نے بنائی تھی
فلمی دنیا اک طلسماتی دنیا کے نام سے مشہور ہے۔ لاکھوں فلم بین جن فنکاروں کو فلموں میں دیکھتے ہیں وہ پھر ان فنکاروں کے خواب اپنی آنکھوں میں سجاتے ہیں مگر ان فلم بینوں کو یہ نہیں پتا ہوتا ہے کہ وہ فنکار اپنی ذاتی زندگی میں ایسے نہیں ہوتے جیسے وہ فلموں کے پردے پر نظر آتے ہیں۔
ان فنکاروں کی کہانیاں بڑی عجیب عجیب ہوتی ہیں۔ جو دل کے بہت اچھے دکھائی دیتے ہیں وہ دل کے اچھے نہیں بلکہ دل کے بڑے سخت ہوتے ہیں اور جو فنکار بہت بد دماغ، اکھڑ اور ظالم دکھائے جاتے ہیں وہ بڑے دھیمے مزاج کے اور بڑے دردمند ہوتے ہیں، فلم کے ہیروز اور ہیروئنوں کو آسمان فلم کے ستارے کہا جاتا ہے، مگر بات کچھ یوں ہے کہ:
ہیں کواکب کچھ' نظر آتے ہیں کچھ
میں نے کراچی کی فلم انڈسٹری میں پانچ سال اور لاہور کی فلم انڈسٹری میں دس بارہ سال گزارے۔ میں نے بعض فلموں کی کہانی، مکالمے اور زیادہ تر فلموں کے گیت لکھے ہیں۔ میں نے بڑے قریب سے ہر مشہور ہیرو اور ہیروئن کو دیکھا ہے۔ ان سے باتیں رہی ہیں اور بے تکلفی بھی رہی ہے، مگر مجھے زیادہ تر فنکاروں میں غرور، تکبر اور بناوٹ ہی نظر آئی ہے۔
فلم انڈسٹری میں ان فنکاروں کے غرور کی کہانیاں اور قصے عام ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جن اداکاراؤں کا رخ زیبا ہے اور جو دل کشی کا پیکر نظر آتی ہیں ایک حد تک یہ شعر ان پر صادق آتا ہے:خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے۔مگر بحیثیت مجموعی ان فنکاروں میں دکھاوا کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے اور درد مندی کے احساس سے یہ تقریباً عاری ہوتے ہیں۔ ماسوائے چند ایک فنکاروں کے جن میں سلطان راہی پیش پیش تھا، لیکن میں نے اداکارہ دیبا کو انتہائی سادہ طبیعت، سلجھی ہوئی اداکارہ پایا۔
اداکارہ دیبا کو فلمی دنیا کی مونا لیزا بھی کہا جاتا ہے۔ مونا لیزا ایک تصویر تھی کوئی کردار نہیں تھا اور یہ تصویر اٹلی کی ایک مصور نے بنائی تھی جس میں معصومیت اور سادگی سے بھری مسکراہٹ نے ساری دنیا میں بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ میں جن دنوں بہ طور فلمی صحافی ہفت روزہ نگار میں فلمی مضامین لکھتا تھا تو ابتدا میں، میں ہالی ووڈ کے فنکاروں کے مضامین ترجمہ کرکے انھیں اردو کے قالب میں ڈھالتا تھا۔ اس زمانے میں، میں نے اٹلی کی اداکارہ صوفیہ لارین کی زندگی پر ایک طویل مضمون بھی لکھا تھا۔
صوفیہ لارین کی ابتدائی زندگی ایک کچی آبادی میں گزری تھی اور صوفیہ لارین نے بڑی غربت کی زندگی گزاری تھی۔ بعض وقت دو وقت کی روٹی بھی وقت پر میسر نہیں ہوتی تھی۔ پھر وہی صوفیہ لارین بین الاقوامی شہرت یافتہ اور ایوارڈ یافتہ ہیروئن بنی اور لاکھوں دلوں میں اس نے جگہ پائی تھی ساری دنیا میں اس کے شیدائی تھے۔ اسی طرح اداکارہ دیبا کی بھی داستان ہے۔
کراچی کینٹ اسٹیشن کے علاقے میں ایک کچی بستی میں دیبا نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ جس وقت اسے کھلونوں سے کھیلنا تھا یہ اپنے گھر کی غربت کو دور کرنے کے لیے چھوٹے موٹے کام کرتی تھی اور اس نے کمسنی میں ہی بچوں کے کردار فلموں میں ادا کرنے شروع کیے تھے اسے اس کا بہنوئی کمسن آرٹسٹ کے طور پر فلم اسٹوڈیو میں لے کر گیا تھا۔
اس نے چند فلموں میں بچوں کے کردار ادا کیے تھے۔ ان میں فلم ''فیصلہ'' اور ''مس 56'' قابل ذکر تھیں اور اسی طرح بچوں کے کردار ادا کرتے ہوئے یہ بڑی ہوگئی تھی، پھر پہلی بار بحیثیت سائیڈ ہیروئن فلم ''چراغ جلتا رہا'' میں کاسٹ کیا گیا تھا، جس میں زیبا ہیروئن تھی اور یہ دونوں اداکاراؤں کی پہلی مشہور فلم تھی۔
اس فلم کے لیے نام ور شاعر فضل احمد کریم فضلی نے بہ طور مصنف فلم ساز و ہدایت کار اپنا پروڈکشن ادارہ کراچی میں قائم کیا تھا ''دبستان محدود'' کے نام سے اور پھر اس ادارے کے بینر تلے اپنی پہلی فلم شروع کی تھی اور محمد علی کی بھی یہ پہلی فلم تھی۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد محمد علی، زیبا اور دیبا فلم انڈسٹری میں سپر اسٹار بن کر چھا گئے تھے۔
اداکارہ دیبا نے بے شمار فلموں میں کام کیا۔ دیبا نے فلم اسٹار ندیم کی ڈھاکا میں بنائی گئی سپرہٹ فلم ''چکوری'' کے بعد مغربی پاکستان کی پہلی فلم ''سنگدل'' میں کام کیا، اس کی ہیروئن دیبا تھی۔ ''سنگدل'' کے فلم ساز و ہدایت کار شباب کیرانوی تھے۔ پھر دیبا اداکار کمال کی ہیروئن بن گئی۔ سپرہٹ فلمیں کیں اور پھر محمد علی، وحید مراد اور ندیم کے ساتھ بے شمار فلمیں کیں اور اپنی شان دار اداکاری سے فلم بینوں کے دل جیت لیے تھے۔ اب میں آتا ہوں اداکارہ دیبا کی دردمندی کی طرف۔ اس نے فلمی دنیا میں ایک مثال قائم کی تھی۔
اس قصے کا تعلق مشرقی پاکستان کے مشہور ہیرو فلم ساز و ہدایت کار رحمان سے ہے۔ رحمان جس نے دو اردو فلموں ''تلاش'' اور ''چندا'' سے بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ اس کے ساتھ ایک بڑا حادثہ ہوا تھا۔ وہ اپنی فلم ''پریت نہ جانے ریت'' کی آؤٹ ڈور شوٹنگ کرکے واپس آ رہا تھا کہ ایک ایکسیڈنٹ میں اس کی ایک ٹانگ کٹ گئی تھی اور اس حادثے کے بعد رحمان کی زندگی میں اندھیرے چھا گئے تھے۔ ایک ہیرو چشم زدن میں ہیرو سے زیرو ہو گیا تھا۔
ایک معذور شخص اپنی روزی روٹی سے بھی محروم ہو گیا تھا۔ اسے فلم کے کاروبار کے علاوہ کوئی دوسرا کام بھی نہیں آتا تھا۔ اس وقت یہ اداکارہ دیبا ہی تھی جس نے اداکار رحمان کو سہارا دیا تھا۔ رحمان نے ایک فلم ''ملن'' بنانے کا اعلان کیا تھا اور اسے ایک مشہور ہیروئن درکار تھی جو ایک مغرور ہیرو کے ساتھ کام کرے اور فلم میں کام کرنے کا معاوضہ بھی نہ لے۔
ڈھاکا کی رحمان کی ساتھی ہیروئن شبنم سمیت کبوری، سلطانہ زماں کسی بھی اداکارہ نے اداکار رحمان کی اپیل پر کان نہیں دھرا مگر لاہور فلم انڈسٹری کی اداکارہ دیبا جو ایک نہایت درد مند دل رکھتی تھی اس نے اداکار رحمان کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے اس کی فلم ''ملن'' میں مفت کام کرنے کا اعلان کیا، وہ اپنے ٹکٹ سے ڈھاکا گئی اور اس کی فلم کے لیے ایک روپیہ پر سائن کیا اور فلم مکمل کرا کر اپنے ہی ٹکٹ سے واپس لاہور آگئی تھی اور اس طرح اداکارہ دیبا نے ہمدردی کی ایک روشن مثال قائم کی تھی۔
دیبا نے پاکستان کے ہر نامور ہیرو کے ساتھ کام کیا اور اس کی زیادہ تر فلمیں سپرہٹ ہوئی تھیں۔ دیبا نے کم و بیش پونے دو سو فلموں میں کام کیا اور اپنی اداکارہ سے ہر ہیرو کو بھی متاثر کیا تھا۔ دیبا نے اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی اور چند ایک سندھی فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ دیبا کو دیگر ایوارڈز کے علاوہ نگار فلم ایوارڈ اور حکومت کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا تھا۔
دیبا کا گھریلو نام راحیلہ تھا اور دیبا کا فلمی نام فلم سازو ہدایت کار فضل احمد کریم فضلی صاحب نے دیا تھا۔ دیبا ایک سلجھی ہوئی اداکارہ ہونے کے ساتھ خوش اخلاق بھی تھی اور اس کی شخصیت میں معصومیت اور سادگی کا عنصر نمایاں تھا۔ فلمی دنیا میں دیبا اپنی مثال آپ تھی اور اس کی مسکراہٹ میں حجاب محسوس ہوتا تھا۔ ہماری دعا ہے کہ اداکارہ دیبا کی ملکوتی مسکراہٹ ہمیشہ قائم رہے اور اس کے دامن میں ہر پل خوشیاں ہی خوشیاں ہوں۔