بے اختیار رکھا تھا …

عمران خان فخر سے کہتے تھے کہ ان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں


Dr Tauseef Ahmed Khan October 26, 2022
[email protected]

اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز رہنے والا ایک اور سیاست دان نا اہل ہوا۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور حکمراں اتحاد کے رہنماؤں نے ایسے جشن منایا، جیسے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی والوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کے فیصلہ پر جشن منایا تھا اور سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے کر تا برخاست عدالت کی سزا دی تو مسلم لیگ ن والوں نے اسی طرح مٹھائیاں بانٹی تھیں ، مگر میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے احکامات سپریم کورٹ نے جاری کیے تھے۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس کھوسہ نے تو میاں نواز شریف کو زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی پانچ سال تک انتخابی سیاست میں حصہ نہ لے سکے مگر الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا خیال ہے کہ عمران خان اس اسمبلی کی مدت کے خاتمہ تک نااہل ہوںگے اور اگلے عام انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔

معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ نے یہ مؤقف واضح کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کئی قانونی سقم ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ ٹیکنیکل بنیادوں پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کر دے گا ، لہٰذا عمران خان پہلے خوش قسمت سیاست دان ہوںگے جو نا اہل قرار دیے جانے کے بعد انتخابی سیاست کے لیے دوبارہ اہل ہو جائیں گے۔ حکمراں جماعت کے ایک رکن سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا۔ ان کا بیانیہ ہے کہ وہ عمران خان کی نااہلی کو خوشی کی بات نہیں سمجھتے۔

اس ملک کی 75 سالہ تاریخ میں ہمیشہ سیاست دان ہی معتوب قرار پائے ہیں۔ بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے دوسرے دن اپنی اساسی تقریر میں نئی ریاست کے خدوخال واضح کیے تھے۔

انہوں نے اس تقریر میں جدید ریاست کے ماڈل کو مد نظر رکھتے ہوئے ریاست کے نظام کو مذہب سے علیحدہ کرنے پر زور دیا تھا۔ بیرسٹر جناح نے اس تقریر میں ریاست میں کرپشن کے نقصانات واضح کیے تھے مگر 1948ء میں ایک قانون نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت سندھ کے وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو سمیت ان سیاست دانوں کو نااہل قرار دیا گیا جو پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کررہے تھے۔

جب 7 اکتوبر 1958ء میں صدر اسکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کیا اور جنرل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے تو ایوب خان نے اسکندر مرزا کو ایوانِ صدر سے رخصت کیا اور خود صدر بن گئے۔ انہوں نے اپنے مخالف سیاست دانوں کو سزا دینے کے لیے یہی حربے استعمال کیے۔ ایک قانون جو ایبڈو کہلایا کے تحت سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی سمیت کئی سیاست دانوں کو نا اہل قرار دیا گیا اور ان کے خلاف مقدمات عدالتوں میں بھیج دیے گئے۔

ایوب حکومت نے مخالف سیاست دانوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس وقت کے تمام معروف سیاست دان حسین شہید سہروردی ، مجیب الرحمن ، مولانا بھاشانی، غفار خان، ولی خان، میر غوث بخش بزنجو، جی ایم سید ، حیدر بخش جتوئی، مولانا مودودی اور نصر اﷲ خاں سمیت درجنوں سیاست دانوں کو مختلف الزامات کے تحت برسوں جیلوں میں بند رکھا گیا مگر 1968ء کی عوامی تحریک کا دباؤ برداشت نہیں کرسکے اور اپنا آئین خود منسوخ کیا، اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر کے تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئے۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ کرپشن کو ادارہ کی شکل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں دی گئی۔

پاکستان کے معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق نے 60ء کی دہائی کے آخری برسوں میں پاکستانی معیشت کا بغور جائزہ لینے کے بعد ملک کے 22 دولت مند خاندانوں کی فہرست مرتب کی توایوب خان کے خاندان کے لوگوں کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہوئے تھے مگر کسی عدالت میں نا اہلی کا مقدمہ دائر نہیں ہوا۔

جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات کی تحقیقات کرانے والے حمود الرحمن کمیشن نے اپنی تحقیقات رپورٹ میں جنرل یحییٰ اور ان کے قریبی معاونین کی بدعنوانی کا تفصیلی ذکر کیا ہے مگر جنرل یحییٰ خان اور ان کے معاونین کے خلاف کبھی کسی عدالت میں مقدمہ نہ چلا۔

جنرل ضیاء الحق نے آئین کو توڑا اور منتخب حکومت کو برطرف کیا اور پاکستان کو افغان جنگ کا حصہ بنا دیا۔اس وقت بھی یہ جنگ امریکا اور سرمایہ دار ملکوں کی تھی اور ان کا مقصد سوویت یونین کو شکست دے کر سوشل ازم کو ناکام ثابت کرنا تھا جس میں وہ کامیاب ہو گئے۔

اب یہ بات بھی چھپی نہیں رہی کہ افغان جنگ میں ضیاء الحق کے قریب رہنے والے بہت سے لوگ دولت مند ہوئے، ان لوگوں کے پاس دولت کیسے آئی اس حوالے سے کسی سرکاری ادارے نے کبھی کوئی تحقیق نہیں کی اور نہ ہی ان لوگوں پر کسی عدالت میں مقدمہ نہیں بنا تھا۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جرات کا مظاہرہ کیا اور سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے کا مقدمہ قائم کیا ، مگر پرویز مشرف کبھی عدالت نہیں گئے۔

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 73ء کا آئین بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انہوں نے انتہائی اہم اصلاحات نافذ کیں اور پاکستان کو پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا مگر ایک قتل کے مقدمے میں انہیں پھانسی پر لٹکایا گیا۔ آج ان کی پھانسی کے فیصلہ کو عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔

پاکستان کی عدالتی تاریخ میں بھٹو کی پھانسی کے فیصلہ کو عدالتی نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا۔ پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو بھی قتل کیا گیا۔

کوئی بھی وزیر اعظم آج تک اقتدار میں آنے کے بعد اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکا۔ پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان 2005ء میں ہونے والے میثاق جمہوریت کے تحت پہلی دفعہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور پھر مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اپنی آئینی مدت پوری کر پائی مگر اہم بات یہ ہے کہ دونوں حکومتوں کے وزیر اعظم کے نااہل ہونے کے بعد ان دونوں جماعتوں کی حکومتیں اپنی رٹ کھو چکی تھیں۔

عمران خان نے اپنے مخالف سیاست دانوں کے خلاف بیانیہ اختیار کیا اور وہ فخر سے کہتے تھے کہ ان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں ، مگر پھر سب کچھ بدل گیا۔ عمران خان کو ان کے اتحادی چھوڑ گئے، عمران خان کو اچانک احساس ہوا کہ وہ تو بااختیار وزیر اعظم نہیں تھے۔

مگر المیہ یہ ہے کہ عمران خان حقیقت کو جاننے کے باوجود سارا زور مخالف سیاست دانوں کی طرف کررہے ہیں ۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا سارا زور نیوٹرلز کی حمایت حاصل کرنے پر ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ عمران خان حقائق کو سمجھنے کے باوجود پھر اسلام آباد پر لشکر کشی کرنے جا رہے ہیں۔ اس لشکر کشی کا فائدہ ان ہی قوتوں کو ہوگا جنہوں نے عمران خان کو بے اختیار رکھا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں